پولیس ہیڈ کوارٹرسے جاری حکم کے ذریعہ لوگوں کے جمہوری حقوق چھیننے کابنایا جارہا ہے منصوبہ
میم ضاد فضلی
پٹنہ : بہار میں سرکار کے خلاف احتجاج اب آپ کو بھاری پڑسکتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر کسی عوامی نمائندہ ، سرکاری افسر پر نازبیا تبصرہ کرنے پر قانونی کارروائی کی ہدایت دینے والی بہار پولیس اب میں ایک اور قدم آگے بڑھ گئی ہے ۔ اس حکم نامے سے قبل بہار پولیس نے آئین میں شہریوں دیے گیے اظہارِ رائے کی آزادی پر ڈاکہ ڈالنے کا فیصلہ سنا رکھا ہے۔22جنوری 2021میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق ’’ بہار سر کار کے خلاف سوشل میڈیا پر قابل ’اعتراض ‘تبصرہ کرنا اب سائبر کرائم کے زمرے میں آئے گا۔بہار پولیس نے ایسے معاملے جہاں سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں اور اداروں کی جانب سے سرکار پر ناپسندیدہ تبصرہ کیا گیا ہو ان کو نوٹس میں لانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ سائبر کرائم قانون کے تحت متعلقہ شخص کے خلاف کارروائی کی جائے۔غور طلب ہے کہ نتیش کمار کی قیادت والی حکومت بہار نے فیصلہ کیا ہے کہ ’’ جو بھی ان کی سرکار ، وزیروں اور سرکاری بابوؤں کے خلاف سوشل میڈیا پر ان کی اپنی پالیسی اور سیاست کے مطابق ’’ قابل اعتراض تبصرہ یا تنقید کرے گا ، اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور اسے سائبر کرائم مانا جا جائے گا۔ذیل میں سائبر کرئم کی اجمالی تفصیل پیش کی جارہی ہے ، جس سے معلوم ہوسکے گا کہ حکومت کی تنقید یا اس کے کسی منصوبہ پر تبصرہ کرنے والے کی زبان کس طرح خاموش کردی جائے گی۔
سائبر کرائم ایک ایسا جرم ہے جس میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ورک شامل ہیں۔ کمپیوٹر جرائم کسی بھی کمپیوٹر کی مجرمانہ مقام پر ملنا یا کمپیوٹر سے کسی جرم کا ارتکاب کرنا یہ قانون دونوں پر عائد کیا جاتا ہے۔ نیٹ ورک کمپیوٹر کرائم میں شامل نہیں ہے۔ غلط معلومات جمع کرنا اور اس کو وائرل کرنا دونوں ہی سائبر کرائم کے زمرے میں آئے گا۔ کمپیوٹر سے کسی کی ذاتی معلومات چھین لینا یا چوری کرنا بھی سائبرکرائم ہے۔
کمپیوٹر جرائم بھی متعدد طریقوں سےانجام دیے جاتے ہیں۔ جیسے انفارمیشن چوری کرنا، انفارمیشن کو ڈیلیٹ کرنا اوانفارمیشن میں ہیر پھیر کرنا ، کسی اور کو انفار میشن پہنچانا یا کمپیوٹر کے کل پُرزوں کو چوری کرنا یا تباہ کرنا بھی سائبر کرائم ہے۔ سائبر کرائم کی بہت ساری قسمیں ہیں جیسے اسپام ای میلز ، ہیکنگ ، فشنگ ، وائرس پھیلانا ، کسی کی نجی جانکاری آن لائن حاصل کرنا یا کسی پر ہر وقت نگاہ رکھنا۔ مذکورہ جرائم کے ارتکاب پر تعزیرات ہند کی تقریباً آٹھ دفعات کے تحت مقدمے چل سکتے ہیں اور سزائیں سنائی جاسکتی ہیں۔
تعزیراتِ ہند میں سائبر کرائم سے متعلق دفعات
ای میل کے ذریعے دھمکی آمیز پیغامات بھیجنا – IPC کا سیکشن 503
ای میل کے ذریعے ایسے پیغامات بھیجنا جو بدنامی کا سبب بنتے ہیں – IPC کا سیکشن 499
جعلی الیکٹرانک ریکارڈوں کا استعمال ۔آئی پی سی کی دفعہ 463
جعلی ویب سائٹیں یا آئی پی سی کی سائبر فراڈ سیکشن 420
کسی کے ای میل کو خفیہ طور پر ٹریک کرنا – IPC کا سیکشن 463
ویب جیکنگ-آئی پی سی کی دفعہ 383
ای میل کا غلط استعمال – IPC کا سیکشن 500
آن لائن NDPS ایکٹ بیچنا
آن لائن اسلحہ فروخت اور اسلحہ ایکٹ
66-F: سائبر دہشت گردی کی سزا کی تجاویز
سائبر دہشت گردی کے معاملوں میں تعزیری قانون سازی کے لئے انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 میں دفعہ 66-ایف متعارف کروائی گئی ہے۔
(1) اگر کوئی۔۔۔۔
(ا) ہندوستان کے اتحاد ، سالمیت ، سلامتی یا خودمختاری کو خراب کرنا یا اس کے باشندوں کو دہشت زدہ کرنا۔
(ب) کسی مجاز شخص کو کمپیوٹر استعمال کرنے سے روکنا یا روکنے کا سبب بننا۔
(ج) کسی اختیار کے بغیر یا آئین میں دیے گئے اختیارات سے تجاوز کرکے کمپیوٹر کو زبردستی استعمال کرنے کی کوشش کرنا۔
(د) کمپیوٹر میں وائرس جیسی کوئی چیز داخل کرنے کی کوشش کرنا ، جس سے کسی کی جان کو خطرہ پیدا ہونے کا شبہ ظاہر ہوتا ہو یا املاک کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو یا جان بوجھ کر ضروری انٹر نیٹ خدمات کو بری طرح متاثر کرنا۔ یا سیکشن 70 کے تحت حساس معلومات پر منفی متاثر پڑنے کا امکان پیدا ہوتا ہو۔
(ہ) جان بوجھ کر اپنے بخشے ہوئے اختیارات سے تجاوز کرکے ، جان بوجھ کر ایسے کمپیوٹر سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنا جو ملک کی سلامتی یا دوسرے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کے لئے حساس ہے یا کسی خفیہ معلومات کے ارادے سے حاصل کرنا، جس سے ہندوستان کی سلامتی ، اتحاد ، سالمیت اور خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہو، دوسرے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہوتے ہوں، عوامی زندگی یا اخلاقیات پر برا اثر پڑتا ہو ایسا قدم جس سے ملک کی عدالتوں کی توہین ، یا ہتک عزت ہونے کی وجہ بنتی ہو، اگر کوئی خدشہ ، یا جرم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔ کوئی غیر ملکی قوم یا افراد کا گروپ یا کوئی دوسرا فرد جو اس طرح کی معلومات سے فائدہ اٹھا رہا ہے ، تب اسے سائبر دہشت گردی کا ملزم تصور کیا جاسکتا ہے۔
(2) اگر کوئی شخص سائبر دہشت گردی پھیلاتا ہے یا اس قسم کی کسی سازش میں ملوث ہے تو اسے عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
2005 میں شائع ہونے والے ایڈوانسڈ لا لیکسی کان کے تیسرے ایڈیشن میں ، سائبر اسپیس کی اصطلاح بھی اسی لفظ کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ الیکٹرانک ذرائع میں ’’فلوٹنگ‘‘ لفظ پر بہت زور دیا گیا ہے ، کیوں کہ اسے دنیا کے کسی بھی حصے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مصنف نے آن لائن کمپیوٹر خدمات کے استعمال کے تناظر میں سائبر تھیفٹ (سائبر چوری) کی اصطلاح کی مزید وضاحت کی ہے۔ اس لغت میں ، سائبر قانون کی توضیح اس طرح کی گئی ہے ، قانون کا وہ علاقہ ، جو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ساتھ معاملات کرتا ہے ، اور اس کے دائرہ کار میں دانشورانہ املاک کے حقوق ، اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک بلا تعطل رسائی حاصل کرنا شامل ہے۔
انفارمیشن ٹکنالوجی قانون نے کچھ دوسری چیزوں کی بھی وضاحت کی ہے ، جو مندرجہ ذیل ہیں: کمپیوٹر سے مراد کوئی بھی الیکٹرانک ، مقناطیسی ، آپٹیکل یا کوئی دوسرا ڈیوائس ہے جو تیز رفتار سے ڈیٹا کا تبادلہ کرسکتا ہے ، مختلف ٹیکنالوجیز کا استعمال شامل ہے، اس میں کمپیوٹر سسٹم سے منسلک یا اس سے متعلق ہر پروگرام اور سافٹ ویئر شامل ہے۔
انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 کے سیکشن 1 (2) کے مطابق مذکورہ بالا استثناء کے علاوہ اس قانون کی دفعات پورے ملک میں موثر ہوں گی۔ نیز مذکورہ دفعات کے تحت ملک کی سرحد سے باہر کسی بھی جرم کی صورت میں مذکورہ دفعات بھی موثر ہوں گی۔
بہار پولیس صدر دفتر نے کیرکٹرسرٹیفیکیٹ کو لے کر ایک نیا حکم جاری کیا ہے ۔ اس حکم کے تحت اگر کوئی شخص سڑک جام اور احتجاج کے دوران کسی مجرمانہ فعل میں شامل ہوتا ہے اور اگر اس کے خلاف پولیس چارج شیٹ داخل کردیتی ہے ، تب ایسا شخص کسی بھی طرح کے سرکاری ٹھیکے میں شامل ہونے یا پھر سرکاری نوکری کرنے کے قابل نہیں مانا جائے گا ۔بہار کے ڈی جی پی ایس کے سنگھل کی ہدایت سے نکلے اس حکم نامہ کے بعد کھلبلی مچ گئی ہے ۔ دراصل مانا جارہا ہے کہ پولیس صدر دفتر اس طرح کا حکم نکال کر لوگوں کے جمہوری حقوق کی خلاف ورزی کرنے میں مصروف ہے ۔ راجدھانی پٹنہ میں مختلف ایشوز پر احتجاج کرنے والے لوگ سڑک پر اترتے ہیں تو پھر انہیں نوکریاں اور سرکاری ٹھیکے سے محروم کردیا جانا کتنا مناسب ہوگا ؟
دراصل گزشتہ دونوں چیف سکریٹری کی صدارت میں ایک میٹنگ ہوئی تھی ، جس میں ڈی جی پی بھی بطور رکن شامل ہوئے تھے ۔ اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سرکاری ٹھیکے میں کیرکٹر سرٹیفکیٹ ضرور دینا ہوگا ۔ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ پٹنہ کے انڈیگو اسٹیشن ہیڈ روپیش قتل کیس کے بعد سرکار نے اس طرح کا فیصلہ کیا ہے ۔ ایک مہینے کے اندر ریاستی پولیس صدر دفتر کا یہ دوسرا حکم اپوزیشن پارٹیوں کیلئے ایشو بن گیا ہے ۔
آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے اس معاملہ پر سوشل میڈیا کے ذریعہ سرکار پر حملہ بولا ہے ۔ تیجسوی یادو کا الزام ہے کہ سرکار بہار کے نوجوانوں سے خوفزدہ ہوگئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو اس حکم کے ذریعہ ڈرانا چاہتی ہے ، لیکن حکمراں پارٹی کے لیڈران اس کو لا اینڈ آرڈر کے مفاد میں اٹھایا گیا قدم قرار دے رہے ہیں ۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں