میم ضاد فضلی
8076397613
سیانوں نے کہا ہے کہ بھوک کس مرض کا نام ہے یہ اس سے پوچھو جس کا پیٹ کبھی اس کی اذیت سے زخمی ہوا ہو۔ فاقوں میں گھٹ گھٹ کے جینے اور مرنےکا گھاؤ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے، یہ کتے کے منہ سے روٹی چھیننے کی کوشش میں زخمی ہوجانے والی اس دلت بچی سے پوچھئے تو شاید مبینہ وی آئی پی لوگوں کاسنگ دل ضمیرکچھ احساس کرسکے کہ بے سروسامانی، ذلت ورسوائی، غربت و افلاس اور منظم طریقے سے حاشیے پر ڈال دینے کا زخم کیسےآدمی سے آدمیت چھین لیتا ہے۔ یہ کرب اسے ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ بھوک، افلاس، غریبی اور یاس و محرومی کیا ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جسے تقدیر نے افلاس و
خواری کے ظالم چنگل میں لا پھینکا ہو ۔
میرا یہ مشاہدہ اور زندگی کا تلخ تجربہ ہے کہ عموماً بیوروکریسی اور اعلیٰ سرکاری ملازمت یافتہ اور اسی طرح وائٹ کلر اسٹیبلشڈ پروفیسروں کو قطعی اس کا علم نہیں ہوسکتا، نہ عموماً انہیں کسی کی بدحالی وتنگ دستی پر ترس ہی آتا ہے ۔ میں نے اپنے حلقہ کی زمینی حقیقت بیان کرتے ہوئے مشکور عثمانی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اس حلقہ کے عام لوگوں کے کے لیے اجنبی ہیں، اپنی شناخت اور دور درراز دیہی آبادی کے ایک ایک گھروں تک اپنا نام پہنچانے کے لیے وقت اور جہد مسلسل درکار ہوتی ہے، جس کاوقت اب کسی بھی پارٹی یا امیدوار کے پاس باقی نہیں بچاہے۔
واضح رہے کہ نہ ان سے ہماری کوئی رشتے داری ہے اور نہ زر،زن ،زمین کا جھگڑا کہ میں کسی ذاتی بنیاد پران کی مخالفت کروں گا۔ مگر میں جالے کا ایک ووٹر ہوں اور اپنے حلقہ کے بارے میں ، اپنے گلی محلہ ،پنچایت بلاک اور بستی کے ہندو مسلم سبھی کی خوش حالی وفلاح کے ساتھ حلقہ میں جمہوریت اور سیکولرزم کی بالادستی کے لیے آواز اٹھا نا میر ا آئینی حق ہے۔ میں اس حلقہ سے ہوں اور اپنی سر زمین سے مجھے بھی اتنی ہی محبت اور قلبی لگاؤ ہے ،جتنی ایک سچے محب وطن کو ہونی چاہئے ، میں مسلسل دیکھتا آرہا ہوں کہ 2010 سے ہی میرے انتخابی حلقہ میں مسلمانوں اور دیگر پسماندہ برادریوں کے ساتھ متعلقہ بلاک کے بی ڈی او، سی او اور دوسرے سرکاری عملے نے مکھیا اور پنچایت ممبران کے ساتھ مل کر کیسی لوٹ مچارکھی ہے، کس طرح انپڑھ اور پردیسی لوگوں کے حقوق کو سلب کیا جارہا ہے، ترقیاتی فنڈ میں کس نوعیت کی بندر بانٹ ہورہی ہےاور بی جے پی رکن اسمبلی کے زیراثر خصوصاً ہمارے حلقہ کے مسلمان ذلت و رسوائی کی اس کیفیت سے گزر رہے ہیں جس میں ہر لمحہ وہ اپنے انسان ہونے پر افسوس کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ یہ بدنصیب قوم اور کچھ کر بھی نہیں سکتی۔
میں نے یہ ساری صورت حال انتخابات کی تیاری سے قبل ہی کانگریس اعلیٰ کمان تک پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ مگر کانگریس میں بیٹھے مٹھادھیشوں کو نہ علاقے سے تعلق ہے اور وہاں کی ترقی کبھی ان کے دل دماغ میںمدعا بن کر انہیں ایمانداری سے حلقہ کی فلاح و بہبود کے لیے سوچنے کا کوئی جذبہ کبھی رہا۔ ورنہ وہ کانگریس اعلیٰ کمان کو کسی بھی امیدوار کانام ریکمینڈ کرنے سے پہلے حلقہ کے ارباب حل و عقد سنجیدہ ، سیکولراور باشعور رائےدہندگان اور مقامی صحافیوں ، زمینی سطح پر پارٹی کے لیے کام کرنے والے سرگرم ممبران سے صلاح و مشورہ کرکے ہی کسی کا نام آگے بڑھاتے۔ مگر مدن موہن جھا ہوں یاسدانند سنگھ ہوں کہ ڈاکٹر شکیل احمد ان لوگوں نے کبھی بھی مقامی لوگوں کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ وہ ان کی جوتیوں کے برابر بھی ہوسکتے ہیں، لہذا 2005 سے ہی مسلسل دیکھ رہا ہوں کہ پورے بہار میں یہی لوگ کانگریس پارٹی کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں اور عوام کو ٹھینگا دکھاتے ہیں۔
موجودہ صورت حال کو دیکھ کر کوئی بھی سیکولر ووٹر یہ کہ سکتا ہے کہ اگر کانگریس کے اندر جیتنے کی اہلیت رکھنے والے امیدوار کو منتخب کرنے کی صلاحیت نہیں تھی تو جالے جیسی حساس انتخابی سیٹ پر اپنا دعویٰ ہی نہیں ٹھوکنا چاہئے تھا۔ مگر زمینی حقیقت یہی ہے کہ کانگریس نے اس سیٹ پر دعویٰ ہی اس لئے ٹھوکا تھاکہ وہ لوگ اپنی کوششوں سے کسی بھی طرح اس سیٹ کو بی جے پی کی جھولی میں آسانی کے ساتھ ڈال سکیں۔
آج کی جالے اسمبلی کی سچائی یہی ہے کہ یہ سیٹ 1991کے بعد روایتی طور پر کانگریس کی نہیں ہے ۔ اور اسی زمانے سے اس سیٹ پرآر جے ڈی یا بی جے پی کے درمیان مقابلہ ہوتا آرہا ہے۔ اگر اس سے قبل کانگریس امیدوار وجے کمار مشرا کو نکال دیں، جنہوں نے 1990 میں اس سیٹ پر جیت حاصل کی تھی تو اس کے بعد 2005تک یہ سیٹ بی جے پی کے قبضے میں رہی ہے۔ جبکہ دوسرے نمبرپر ایک آدھ مرتبہ کے علاوہ تمام انتخابات میں آر جے ڈی ہی رہی ہے۔ 2005کے اسمبلی انتخابات میں اس سیٹ سے آرجے ڈی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی اور رام نواس پرشاد رکن اسمبلی بن کر ودھان سبھا پہنچے تھے۔ لیکن 2010 میں اس سیٹ پر پھر بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی اور وجے کمار مشرا رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔بعد ازاں بی جے پی کی حلیف جماعت جے ڈی یو کے ٹکٹ پر 2014 میں ریشی مشرا اپنے والد وجے کمار مشرا کی جگہ اس سیٹ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ جب 2015 میں لالو یا یادو کی کوششوں سے عظیم اتحاد تشکیل پایا تو پھر سیکولر سائڈ سے جے ڈی یو کے ٹکٹ پر ریشی مشرا میدان میں اترے ۔ اس انتخاب میں بی جے پی کے امیدوار جبیش مشراکو خلاف توقع کامیابی مل گئی۔ 2015کے اسمبلی انتخابات میں عظیم اتحاد کے امیدوار کی شکست کی وجہ مجیب الرحمن بنے تھے ، جنہوں نے54.4 فیصد سیکولر ووٹ کاٹ لیا تھا۔ ہمارے علاقے میں مجیب الرحمن کے بارے میں یہ چہ میگوئیاں مدتوں جاری رہی کہ سیکولر ووٹ کو دربرہم کرنے اور عظیم اتحادکو شکست دلانے کے لئے بی جے پی نے ان کو پلانٹ کیا تھا۔ اگر گہرائی میں جائیں تو یہ چہ میگو ئیاں بعید ازقیاس بھی معلوم نہیں ہوتیں۔اس لئے کہ یرقانی جماعت کے بارے میں ہندی کا یہ محاورہ زبان زد عام ہے کہ جیت حاصل کرنے کے لیے یرقانی خیمہ کسی قسم کی بے غیرتی ، بے حیائی اور جعلسازی کو برا نہیں سمجھتا۔ یہ خیمہ اقتدار کے لئےہمیشہ ’’سام ،دام دنڈ ، بھید‘‘ میں سے کسی بھی ہتھ کھنڈے کو استعمال میں ضرور لاتا ہے۔ لہذا سیکولر فورس کا راستہ روکنے کے لیے بی جے پی کے ذریعہ کسی بھی فرد کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مندرجہ بالا تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس اسمبلی سیٹ سے 1990میں ہی کانگریس کی بساط لپیٹ دی گئی تھی۔اگر 1991سے چلنے والے انتخابی دنگل پر نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اب جالے آرجے ڈی کی روایتی سیٹ بن چکی ہے۔
البتہ اب کی بار بہار پردیش کانگریس پارٹی نے اس سیٹ پر اپنی دعویداری اس لئے رکھی تھی کہ 2015کے انتخابی معرکہ میں جے ڈی یو کے امیدوار ریشی مشرا دوسری پوزیشن پرر ہے تھے اور کافی قریبی فاصلے سے وہ بی جے پی کے امیدوار سے شکست کھاگئے تھے۔ حالاں کہ ان کی پسپائی میں جن سازشوں نے کلیدی رول ادا کیا تھا مندرجہ بالا سطور میں اس پر قدرے روشنی ڈالی جاچکی ہے۔خلاصہ کلام یہ کہ ریشی مشرا نے ماہ فروری 2019میں جے ڈی یو کی بی جے پی کے ساتھ مباشرت سے کبیدہ خاطر ہوکر اپنی سیکولر فکر کو برقرار رکھنے کے لیے نتیش کمار سے ناطہ توڑ لیا اور کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اسی کو حوالے کے طور پر سامنے رکھ کر کانگریس پارٹی نے جالے اسمبلی حلقہ کو قبضہ کرلیا کہ اسی پارٹی کا نمائندہ 2015 کے اسمبلی انتخاب میں دوسرے نمبر پررہا تھا، لہذا یہ سیٹ کانگریس کو ملنی چاہئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اصولی طورپر جس نمائندہ کی سابقہ کارکردگی کو پیش کرکے اس سیٹ پر کانگریس نے قبضہ کیا تھا، اسی سیاسی رہنما کو امیدوار بنایا جانا چاہئے تھا۔ مگربہار پردیش کانگریس کے سیاہ وسپید کے مالک بنے شمالی ہند کے میتھل براہمن جو منافقت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور جن کی بی جے پی سےعقیدت کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے، یہ کیسے چاہیں گے کہ جو سیٹیں ان کے ہاتھ لگ رہی ہیں، اس پر بی جے پی شکست سے دوچار ہوجائے۔ اس وقت مظفر پور کی پارو اسمبلی سیٹ اورویشالی سے مغربی چمپارن اور سیمانچل کی حدود تک واضح طور پر یہی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ریاستی کانگریس کودیمک کی طرح چاٹ رہے یہ میتھل براہمن جان بوجھ کر پیرا شوٹس امیدواروں کو میدان کارزار میں اتاررہے ہیں، تاکہ ان کے ابا حضور یعنی یرقانی قوتوں کو بلامقابلہ کامیابی حاصل ہوجائے ، اس کے برعکس جان بوجھ کر ان امیدواروں کو نظر انداز کیا گیا ہے جن کے جیتنے اور ان کے مقابلے میں بی جے پی امیدوار کو شکست کھانے کا اندیشہ سب سے زیادہ تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ بہار پردیش کانگریس کی اونچی کرسیوں پر براجمان میتھل براہمن جیسے مدن موہن جھا، سدا نند سنگھ اورشمالی بہار کے ایک دو مسلم ممبران اور ان جیسے درجنوں کانگریس لیڈران کی بھاجپائی ذہنیت اگرچہ جسمانی طور پر اپنے مفادات کی روٹی سینکنے کے لئے اس پارٹی پر قبضہ کئے ہوئے ہے۔ مگر ان کے دل ہمیشہ بی جے پی کی کامیابی اور اس کے منافرت انگیز ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے دھڑکتے ہیں۔ ان کی زبانوں پر اگر چہ کانگریس کی سیکولر شبیہ، اس کے بھائی چارے اور بقائے باہم والے اصولوں کے راگ ہوتے ہیں، مگر ان کے من کو بی جے پی کے کلش میں ہی اتھا ہ سکھ اور شانتی محسوس ہوتی ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں