ڈاکٹرمیم ضاد فضلی
آج جب کورونا کی تباہ کاری سے دنیاکے طاقتور ترین ممالک کراہ رہے ہیں، اور امریکہ ، اسپین ،اٹلی اور برطانیہ سمیت اس کے تمام حواری ممالک پانی پی پی کر چین کو کوس رہے ہیں اور اپنے عوام کا ذہن اپنی سیہ کاریوں سے ہٹاکر چین کی جانب موڑنے کے نت نئے جتن کرر ہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی احمقانہ کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح ان کے عوام یہ یقین کرلیں کہ جان لیوا کووڈ19-ان کے جرائم کا نتیجہ نہیں ہیں ، بلکہ یہ صرف چین کی کارستانی ہے ، جس کی وجہ سےپہلے اٹلی، اسپین ، بر
طانیہ کنیڈا اور آج تک امریکہ تباہ ہورہا ہے۔ آج جب مغرب کے متعصب ماہرین کورونا کو کسی بائیوجنگ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں تو مجھے بے ساختہ آج سے لگ بھگ پچھتر برس پہلے امریکہ کے ذریعہ روئے زمین پر کیا گیا سب سے بڑا گناہ کسی فلم کی طرح میرے ذہن کے پردے پر دوڑنے لگے ہیں، روئے زمین پر امریکہ نے جو عظیم انسانی بحران پیدا کرنے کی ظالمانہ دہشت گردی انجام دی تھی اس کی رودادیہ ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی میں آج تک معذور اور صحت کے اعتبار کسی نہ کسی نوعیت سے محروم بچے ماؤں کے شکم سے باہر نکل رہے ہیں۔وہ سارے منظر آج بھی میری ناتواں آنکھوں میں گھوم رہے ہیں اور شدید کرب نے مجھ سے میری راتوں کی نیندیں چھین لی ہیں۔
ان ایٹمی حملوں کی وجہ سے ہیروشیما میں ایک لاکھ چالیس ہزار جب کہ ناگاساکی میں 74 ہزار انسان لقمہء اجل بن گئے تھے۔ان میں سے کچھ افراد تو فوری طور پر ہلاک ہوئےجب کہ بہت سے دہائیوں بعد بھی تاب کاری کی وجہ پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارے۔ جاپان نے ان جوہری حملوں کے بعد 15 اگست کو شکست تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ قارئین جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جسے جوہری حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سن 1945 میں امریکا نے پہلے ہیروشیما اور پھر ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے۔جس کے نتیجے میں اسی وقت لاکھوں کی تعاد میں بے گناہ اور نہتے جاپانی موت کا نوالہ بن گیے تھے اور ان کے خون سے سمندر کا پانی نیلگوں ہوگیا تھا۔مگر اسی پر بس ہوا امریکہ کے اس گناہ عظیم کی لپیٹ میں جاپان آج بھی سسک رہا ہے اور ناگاساکی و ہیروشیما کی مائیں ہنوز بیمار بچے کررہی ہیں۔اس کے بعد امریکہ نے اپنی شیطانی سے توبہ نہیں کیا اور انسانوں کے لہوں پینے اور توسیع پسندی کے اس کے ناپاک منصوبے نے روس کو بھی بیمار کردیا،بعد ازاں خلیجی ممالک اپنے لے پالک اولادوں سعودی عرب، کوویت، اردن، یو اے ای اور دیگر ناتحقیق نطفوں کے ساتھ مل کر عراق کی سرزمین پر1991 میں انسانوں کی لہوآشامی کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے آج تک جاری ہے اور چند عرب ممالک کو چھوڑ کر پور عالم عرب موت کا کھیل امریکہ لگاتار کھیل رہا ہے۔ کیا روس اور امریکہ و اسرائیل ایٹمی اسلحے اور بائیو کیمیکل پر محیط بم گولے کوئی وبا یا کوئی نئی بیماری پیدا نہیں کرر ہے ہوں گے۔ اگر آپ اس کی تردید کرتے ہیں تو یہی سمجھا جائے گا کہ یاتو آپ فزکس اور کیمیکل سائنس کا علم ناقص ہے یا آپ نے چند عرب ممالک کے غلام حکم رانوں کی طرح امریکہ کا طوق غلامی آپ کو حق کے اعتراف سے روک رہا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار گواہ ہیں، جب بھی کوئی ملک اپنی سرحدوں کو توسیع دیتے ہوئے سلطنت یا استعماری قوت کا درجہ پاتا ہے تب بڑے پیمانے پر جنگیں بھی چھڑتی ہیں اور اِن جنگوں کے نتیجے میں نقل مکانی ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں وبائیں بھی پھیلتی ہیں۔ ان وباؤں کے ہاتھوں کئی سلطنتیں تباہی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ آج کی بڑی طاقتوں کو اس بنیادی تاریخی حقیقت کا نوٹس لینا چاہیے ،تاکہ ہر ممکن حد تک تباہی کو ٹالا جاسکے۔
کورونا وائرس محض ہیلتھ ایمرجنسی کا معاملہ نہیں۔ یہ ایک بڑا سیاسی معاملہ یا موڑ بھی ہے۔ ماحول عجیب رنگ کا ہو چلا ہے۔ ایسے میں کوئی بڑی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ اگر ہم یورپ میں قرون وسطیٰ کے دوران رونما ہونے والی ’’سیاہ موت‘‘ (طاعون کی وبا) سے ۱۹۱۸ء میں پھیلنے والے ’’اسپینش فلو‘‘ تک جتنی بھی وبائیں پھیلیں اُن کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ سوال صرف صحتِ عامہ کا نہ تھا، بلکہ معاشروں اور سیاست پر بھی اِن وباؤں کے شدید اثرات مرتب ہوئے۔
رومن سلطنت سے اب تک استعماری یعنی توسیع پسند قوتوں اور وباؤں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ۱۰۰ سال کے دوران جدید ترین علوم و فنون میں پیش رفت اور سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ عالمگیر نوعیت کی وباؤں پر قابو پانا اب بھی انسان سے ممکن نہیں ہوسکا۔’’سیاہ موت‘‘ چوہوں نے پھیلائی تھی۔ اب مورخین ریکارڈ کھنگال کر بتا رہے ہیں کہ یورپ میں انتہائی تباہ کن طاعون چوہوں نے نہیں، بلکہ انسانوں نے پھیلایا تھا۔ یہ وبا ایشیا سے یورپ پہنچی تھی۔ ایسے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ استعماری قوتوں کے درمیان رسّہ کشی یا جنگ نے وباؤں کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
کرائمیا میں کافہ شہر کا محاصرہ تو منگولوں نے کرلیا ،مگر اِس شہر کو اطالوی قوت کے پنجے سے چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے تھے۔ منگولوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے طاعون پھیلایا۔ وہ ایسے کہ طاعون سے مر جانے والوں کی لاشیں شہر میں پھینکی گئیں۔ یہ عیسائی تاجروں (جینوز) کا شہر تھا۔ منگولوں نے انہیں بعض معاملات میں رعایت دے رکھی تھی۔ یورپ سے تجارت کے علاوہ غلاموں کی تجارت پر بھی ان کی اجارہ داری تھی۔
مسلم منگولوں اور عیسائی تاجروں میں (جنہوں نے مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں صلیبی جنگوں کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا تھا) غیر معمولی کشیدگی چل رہی تھی۔ مذہب کے اختلاف نے اس کشیدگی کو مزید ہوا دی۔ پہلے حملے میں ۱۵ ہزار منگول مارے گئے۔ جب شہر فتح ہوگیا تو فرار ہوتے ہوئے عیسائی تاجر اپنے ساتھ طاعون لے کر قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) پہنچے۔ وہاں سے یہ وبا پورے یورپ میں پھیل گئی۔ اس وباء نے ایک عظیم سلطنت کی بنیادیں ہلادیں اور بالآخر اُسے ختم کرکے دم لیا۔
۱۹۱۸ء کی وبا دورِ جدید کی بدترین وبا ’اسپینش فلو‘ تھی۔ یہ نام بھی بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ حال ہی میں ریکارڈ کی چھان بین سے معلوم ہوا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانوی اور فرانسیسی افواج کے پیچھے کی صف میں چین سے محنت کشوں کی منتقلی ہوئی اور انہی سے یہ فلو پھیلا۔ کینیڈا سے یورپ منتقل ہونے والے تین سے پچیس ہزار چینی محنت کشوں کو فلو کی علامات ظاہر ہونے پر قرنطینہ کیا گیا تھا۔
کینیڈا کی ولفرڈ لوریئر یونیورسٹی کے تاریخ دان مارک ہمفریز کہتے ہیں کہ آرکائیو سے معلوم ہوا ہے کہ نومبر ۱۹۱۷ء میں چین میں سانس سے متعلق ایک بیماری کو اسپینش فلو کے مماثل قرار دیا گیا۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسپینش فلو نے پہلی جنگِ عظیم کی بساط لپیٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ماحول کی تبدیلی اور طاعون
جنگیں اور وبائیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی کے دوران جسٹن کے مقام سے پھیلنے والے طاعون نے روم کی سلطنت کا خاتمہ کردیا تھا۔ یہ وبا ۵۴۲ء میں قسطنطنیہ پہنچی۔ صرف ایک سال قبل یہ وبا رومی سلطنت کے باہری صوبوں تک محدود تھی۔ چھٹی صدی عیسوی سے آٹھویں صدی عیسوی کے دوران بحیرۂ روم کے خطے میں طاعون کسی نہ کسی شکل میں کم و بیش ۲۲۵ سال تک تباہی و بربادی کا بازار گرم کرتا رہا۔ قسطنطنیہ تک طاعون شمالی افریقہ کی نو آبادیوں سے آیا تھا۔ اُس زمانے میں رومن سلطنت کے لیے خوراک، تیل، ہاتھی دانت اور غلاموں کی رسد کے حوالے سے مصر کلیدی کردار کا حامل تھا۔ جارجیا یونیورسٹی کے جان ہارگن نے لکھا ہے کہ طاعون چوہوں اور پسوؤں سے پھیلا۔ ان دونوں کو بھرپور انداز سے پنپنے کے لیے مصر میں اناج کے بڑے بڑے گودام میسر آئے۔ اب طاعون کو پھیلنے سے کون روک سکتا تھا۔
ایک طرف طاعون تھا اور دوسری طرف ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں۔ سردی بڑھ گئی۔ سورج کی روشنی کم کم میسر ہوتی رہی۔ بہت سے آتش فشاں پھٹ پڑے اور فصلیں تباہی سے دوچار ہوئیں۔ خوراک کی شدید قلت نے کئی خطوں کو لپیٹ میں لیا۔
مورخین بتاتے ہیں کہ طاعون اور اسپینش فلو جیسی وبائیں جنگوں کے نتیجے میں پھلیں اور توسیع پسندانہ عزائم بھی اِن وباؤں کی پشت پر تھے۔ فوجی، ان کا سامان اور اُن کا سامان اٹھانے والی گاڑیاں اور جانور وباؤں کو پھیلانے میں معاون ثابت ہوئے۔
’’سیاہ موت‘‘ کے زمانے میں قسطنطنیہ رومن سلطنت کا سب سے بڑا کاروباری مرکز تھا۔ یہی طاعون کا مرکز بھی بنا۔ معاملہ اِتنا بگڑا کہ بحالی ممکن نہ ہوسکی۔ ایک صدی بعد اسلام آیا ،جس نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ چودھویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں طاعون کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ آخری بار یہ وبا پوری شدت کے ساتھ قسطنطنیہ میں ۱۸۱۲ء میں نمودار ہوئی اور کئی عشروں تک برقرار رہی۔ یہ زمانہ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کا تھا۔
چیچک بھی ایشیا سے افریقہ پہنچی۔ اسلامی سلطنت کی توسیع ہوتی گئی اور وبائیں بھی پھیلتی گئیں۔ عیسائی مغرب نے مشرق کے نزدیک ترین علاقے فتح کیے تو یہ وبا یورپ بھی پہنچی۔ ارضِ مقدس کو فتح کرنے والے صلیبی جنگوں کے سپاہی شان و شوکت کے ساتھ گھر ضرور پہنچے، مگر جان لیوا چیچک کے ساتھ،جس نے ان کی شکلیں ڈراونی بنادی تھیں اور اس کی وجہ سے ان کے اپنے رشتے بھی انہیں چلاتے ہوئے ڈر سے دور بھاگ جاتے تھے۔
تین صدیوں کے بعد ایک بار پھر ثابت ہوا کہ وبائیں بڑی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے ہی پر مجبور نہیں کرتیں، بلکہ بسا اوقات اُن کے خاتمے کا اعلان بھی کرتی ہیں۔ ۱۵۲۱ء میں ہرنن کورٹیز نے محض چند سو سپاہیوں کی مدد سے ایزٹیک حکمران کو شکست دی۔ مگر حقیقی فاتح چیچک تھی۔ چیچک اور دوسری بہت سی بیماریاں اس خطے کے لیے بالکل نئی تھیں اور مقامی باشندوں کو اُن کے موثر علاج کے حوالے سے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ ایزٹیک دارالحکومت ٹینوچ ٹٹلن کے مقدر میں صرف تباہی لکھی تھی۔ فتح کے صرف ایک سال بعد اس شہر کی ۴۰ فیصد آبادی چیچک اور دیگر وباؤں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئی۔
مشرق و مغرب میں نئی کشیدگی
وباؤں میں غیر معمولی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ہر دور کی طرح اس بار بھی ایک بڑی وبا ایشیا سے اٹھی ہے اور عالمگیریت نے اِسے تیزی سے پھیلانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ ایک دور تھا کہ کسی وبا کو کہیں اور پہنچنے اور پھیلنے میں سال نہیں بلکہ عشرے لگ جاتے تھے، مگر اب فضائی سفر نے وبا کا پھیلاؤ بہت آسان بنادیا ہے۔
چین اور امریکہ کے درمیان بہت کچھ ماضی کی سلطنتوں سے مماثل ہے۔ امریکہ موجودہ دور کا روم ہے، یعنی دم توڑتی ہوئی سلطنت۔ چین اُس کے لیے حقیقی خطرہ بن کر ابھرا ہے۔ دیگر تاریخی وباؤں کے برعکس کورونا وائرس کی وبا کسی جنگ کے بطن سے پیدا ہوتی نظر نہیں آئی ہے۔ ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی سازش تلاش کرنے والوں کا البتہ یہ کہنا ہے کہ کورونا وائرس دراصل دو بڑی طاقتوں کے درمیان جراثیمی ہتھیاروں کے استعمال کا معاملہ ہی تو ہے۔
کورونا وائرس کا پامردی سے مقابلہ کرنے اور اُسے شکست دینے میں امریکہ ناکام رہا ہے۔ چین کی کامیابی نے امریکہ اور اس کے حلیفوں کے لیے خِفّت کا سامان فراہم کیا ہے۔ سیاسی موازنے کی فضا تیزی سے پنپ رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے چین پر الزام تراشی نے نئی سرد جنگ کو جنم دینے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ کے پاس دنیا کی طاقتور ترین فوج ہے اور دنیا بھر میں اس کے فوجی اڈے ہیں۔ مگر وہ ایک نادیدہ کیڑے سے جنگ ہار گیا ہے۔ امریکہ کی طاقتور دکھائی دینے والی اسٹاک اور منی مارکیٹ کریش ہوگئی ہے۔ لاکھوں افراد ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اقتصادی امور میں غیر معمولی قیادت کا دعویٰ ضرور کر رہے ہیں۔ مگر یہ دعویٰ کسی کو قائل کرتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اب امریکی صدر کو کسی ایسے بہانے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے وہ عالمی برادری کی توجہ کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے امریکی قیادت کی ناکامی سے ہٹاسکیں۔ گزشتہ ہفتے خلیج فارس میں ایرانی جہازوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی کو اِسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
بازنطینی مورخ پروکوپیس نے طاعون کے لیے شہنشاہ کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جسٹن شیطان صفت تھا اور یہ کہ طاعون کی شکل میں خدا نے اُسے اس کے بُرے اعمال کی سزا دی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اب تو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔ ورنہ جسٹن شیطان کی طرح تاریخ میں اس کا نام ٹرمپ شیطان کے طور پر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجائے گا۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں