ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
راقمِ سطور نے اپنی ایک تحریر میں نمازِ تراویح کے پس منظر میں ذکر کیاتھا کہ عورت عورتوں کی جماعت کی امامت کرسکتی ہے۔ _ اس کے رد میں کئی تحریریں سامنے آئیں ، جن میں لکھا گیا کہ فقہ حنفی کا مفتی بہ مسلک عدمِ جواز کا ہے، _ کوئی عورت حافظۂ قرآن ہو تو وہ تنہا تراویح کی نماز ادا کرتے ہوئے پورا قرآن پڑھ سکتی ہے ، لیکن عورتوں کی جماعت کی امامت کرتے ہوئے قرآن نہیں سناسکتی ، بلکہ عورتیں تنہا تنہا نماز پڑھیں۔
میرے ایک دوست نے مجھے توجہ دلائی کہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ‘ کاروانِ زندگی ‘ میں لکھا ہے کہ ان کے خاندان کی عورتیں جماعت سے نماز ادا کرتی تھیں _ اس پر لوگوں کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ حنفی مسلک کی رو سے یہ جائز نہیں تو مولانا عبد الحی فرنگی محلی نے اس موضوع پر ایک رسالہ لکھا تھا ، جس میں اس کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔
مولانا عبد الحی فرنگی محلی (1848 -_ 1886) برِّ صغیر ہند کے عظیم محدّث اور فقیہ تھے۔ _ ان کی تحقیقات کو عالمِ عرب میں بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، _ حنفی فقیہ ہوتے ہوئے بھی انھوں نے متعدد مسائل میں فقہ حنفی کے مفتی بہ مسلک سے ہٹ کر فتویٰ دیا ہے۔ _ اس وقت عورتوں کی امامت کے مسئلے پر ان کے فتویٰ کا خلاصہ مولانا ارشاد الحق اثری کی کتاب ‘مسلک احناف اور مولانا عبد الحی لکھنویؒ (ص121 -_122) سے پیش کیا جارہا ہے :
’’ علمائے احناف کی کتبِ فقہ و فتاویٰ میں عام طور پر یہی کہا گیا ہے کہ عورت جماعت نہیں کرواسکتی ۔ردالمحتار ، ہدایہ ، طحطاوی علی مراقی الفلاح ، البحر الرائق ، تاتارخانیہ وغیرہ میں یہ بحث دیکھی جا سکتی ہے کہ عورتوں کو عورت نماز باجماعت نہیں پڑھا سکتی ، بلکہ یہ عمل مکروہ ہے ۔ ۔۔۔مولانا عبدالحی فرنگی محلیؒ نے ‘شرحِ وقایہ کے حاشیہ میں اس کراہت کے قول کی تردید کی ہے۔۔۔۔ _ ان کے الفاظ یہ ہیں :
’’ ولا یخفی ضعفہ ، بل ضعف جمیع ما وجّہوا بہ الکراہۃ ،کما حقّقناہ فی تحفۃ النبلاء ، الّفناہ فی مسالۃجماعۃ النساء ، و ذکرنا ه ھناک أن الحق عدم الکراہۃ ، کیف لا و قد أمّت بھن أم سلمۃ و عائشۃؓ فی التراويح و فی الفرائض ، كکما أخرجہ ابن أبي شيبہ و غيرہ ، و قد أمّت أم ورقۃ في عہد النبي صلی الله عليہ و علی آلہ و سلم بأمرہٖ ، كما أخرجہ أبو داؤد‘‘ (عمدۃ الرعایۃ :176 /1)
’’اس کی کم زوری ، بلکہ ان تمام وجوہ کی کم زوری ، جن کی بنا پر عورتوں کی جماعت کو مکروہ کہا گیا ہے ، مخفی نہیں ، جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق ‘ تحفۃ النبلاء میں کی ہے ، جسے ہم نے عورتوں کی جماعت کے مسئلے کے بارے میں لکھا ہے اور وہاں ہم نے ذکر کیا ہے کہ حق یہی ہے کہ عورتوں کی جماعت مکروہ نہیں ، کیوں کہ حضرت ام سلمہؓ اور حضرت عائشہ ؓنے عورتوں کو تراویح اور فرض نماز باجماعت پڑھائی ہے ، جیسا کہ ابن ابی شیبہ وغیرہ میں ہے _ اور ابو داؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے زمانے میں ام ورقہ نے جماعت کرائی _ یہی رائے امام شافعی اور امام اسحاق وغیرہما کی ہے ‘‘۔
مولانا قدس اللہ سرہ نے اپنے جس رسالہ کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا نام ‘ تحفۃ النبلاء فیما یتعلق بجماعۃ النساء ‘ ہے۔ _ مولانا رحمہ اللہ کے مجموعۂ فتاویٰ (ص 180 -_181) میں عورتوں کی جماعت کے بارے میں میں علمائے احناف کا فتوی کراہت بڑی شدّو مد سے موجود ہے ، مگر خود ان کا فتوی جواز بھی اس میں دیکھا جا سکتا ہے _ ملاحظہ ہو ، جلد اول، ص184 -_ 185۔اللہم وافقنا الحق
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں