مفتی احمد نادر القاسمی
، اسلامک فقہ اکیڈمی ، انڈیا
کورونا کامعاملہ جہاں ایک طرف دنیا کے لیے مشکلات اور مصائب کی وجہ بناہواہے ۔وہیں دنیا کی وہ اقوام جو آج تک اپنے خالق کو نہیں پہچان سکیں ،ان کے لیے ایک چیلنج بھی تھا اور اب بھی ہے کہ اگر اس آزمائش کی وجہ سے کہیں دنیا اپنے خالق اور مالک حقیقی کی طرف متوجہ نہ ہوجائے ۔اور دنیا کےباطل افکارو خیالات اور دیومالائی بھول بھلیوں کا تانابانا بکھر نہ جائے۔اس حقیقت کو ان کے پیشوا پہلے ہی بھانپ گئے تھے ۔جن میں یہودیوں کے ربی اور حاخام۔ نصاری کے بڑے بڑے پوپس ولیمس اور م
شرکین کے مین اسٹریم کے مذہبی پیشوا شامل تھے۔ جب انھوں نے صورت حال کو قریب سے دیکھااور خاص طورسے چا ئنا اورووہان شہر کے لوگوں کو اس مصیبت کے وقت مسلمانوں کی طرف سرپٹ بھاگتے ہوئے اور نماز جمعہ میں سڑکوں پر غیر مسلموں اور بدھشٹوں کو نماز میں روتے بلکتے شرکت کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعہ دیکھا تو ان کے دماغ کی نسیں ہلنا شروع ہوگئیں ،،،،، کہ اگراس وبا ٕ کی وجہ سے دنیا کی یہی صورت حال رہی تو معاملہ بہت خراب ہوجائے گا اورہمارے خودساختہ مذہبی مفروضوں کی قلعی کھلنے لگے گی ۔۔۔۔۔۔۔عوام پر سے ہماری دیومالائی گرفت کمزور ہوجائےگی اور اس کی وجہ سےبڑی تعداد میں کنورزن بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔اس معاملہ کو بھانپتے ہو ئے انہوںں نے 3 کام بڑی ہوشیاری سے کیے۔ ایک تو طبی احتیاط پر بڑی سختی سے زور دیا اور اس کے لیے WHO اور دنیا بھر کے اطبا ٕ اور ڈاکٹرس کو اپنے بھروسے میں لیا اور ان کے ذریعہ میڈیا میں خوب خوف کا ماحول پیدا کروایا ۔۔۔۔۔۔۔۔چونکہ لوگ ڈاکٹرس کی صلاح پر زیادہ یقین کرتے ہیں اور سوشل میڈیا کے لیے موبائل کمپنیوں کو ہائر کیاگیا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔جس میں ماسک لگانے، سوشل ڈسٹینس۔ دوری اور انفیکشن کو پوری قوت کے ساتھ پیش کیا گیا ۔اور اس میں مذہبی اور خاص کر اسلامی نقطہ نظر کو جو متعدی امراض سے متعلق ہے اس کابھی سہارالیا گیا ۔۔۔۔۔۔دوسرے نمبر پر وائرس کا خوف دلاکر مساجد اوربالخصوص حرمین کو بند کروایا گیا تاکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس کی پیروی کرانا آاسان ہواور تیسرے نمبرپر۔ہندوستان میں بھارتی میڈیا کے ذمہ داروں کو اپنے بھروسے میں لیا گیا۔۔۔۔۔۔۔ جیساکہ عارفہ خانم نے اپنے اسپیشل پروگرام میں اس کی طرف اشارہ کیاہے ۔اور اس کے ذریعہ کرونا ایپی سوڈکا یہ تماشا لگایا گیا کہ اس بیماری کو کسی طرح ہندوستانی مسلمانوں اورتبلیغی جماعت کے ساتھ نہ جوڑا جا ئے ، اس کی وجہ شاید وہ خوف تھا جس کا معجزانہ کرشمہ براہ راست دنیا نے اپنی آنکھوں سے چین میں دیکھا تھا۔ یہا ں تبلیغی جماعت کو بس اسی خوف کی وجہ سے نشانے پر لے لیا گیا، تاکہ اس بیماری سے جب لوگ متاثر ہونے لگیں اور اپنے رب سے توبہ واستغفار کرنے لگیں اور اسکے نتائج سامنے آنے لگیں تو غیر مسلموں کا یقین مسلمانوں کی طرف نہ ہو جا ئے، اور اس طرح دین محمدی کی فضیلت و برکت عوام کے دلوں سے ان کے خوساختہ خداؤں کا یقین ڈانوا ڈول نہ کردے ۔ لہذا منصوبہ بند سازش کے تحت ایسا ہتھ کھنڈا اختیار کیا گیا کہ لوگ اسی تبلیغی جماعت کو بیماری کے پھیلنے کی وجہ مان کر ان سے اور اسلام سے دوری اختیار کریں ۔خیال رہے کہ اس میں نیوز اینکروں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے سب اوپر کا کھیل تھا اور ہے ۔اورپھر مساجد ۔عبادت خانے بند کرواکراپنے مقصد میں اس طرح کامیابی حاصل کی گئی اور ہنوز اس کا سلسلہ نامعلوم مدت تک کے لیے جاری ہے ۔اور ملک کے لوگ ہندومسلم کی سیاست کی اسی میں الجھ کر رہ گیے ہیں، بلکہ بھگوا قوتوں اور صہیونی جلادوں جلتی پر گھی ڈالنے اور نفرت کی آگ کو مزید بھڑکا نے کا موقع مل گیا ہے۔مگراس کے پس پردہ اصل کھیل تو ہندوستانی کمیونٹی کو اسلام کی طرف راغب ہونے سے بچاناتھا ۔اس طرح پوری دنیا میں کرونا کے اس گیم پلان میں کھیل کھیلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقصد مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنا نہیں تھا اور نہ ہی تبلیغی جماعت کو نشانہ بنانا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ۔تبلیغی جماعت تو بہانہ تھا ۔اصل میں ہندوکمیونٹی کو اسلام اور سچائی ،نیز اسلامی اخلاقیات سے متاثر ہونے سے بچاناتھا ۔جس میں بظاہر وہ پروپیگنڈا کے ذریعہ کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں ۔مگر ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کو بہت دنوں تک حق اور سچائی کے راستےسے مکر کے ذریعہ نہیں روکے نہیں رکھا جاسکتا ۔وہ غالب ہوکر رہےگا ان شا ٕ اللہ ”۔ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون“ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ علما ٕ اور دانشوران ملی تنظیموں کے ذمہ داران ملک میں پیداکی گئی ہندومسلم اور سماجی خلیج کو کیسے پاٹیں گے اس پر غورو فکر کرکے کوئی نتیجہ خیز اور مثبت منصوبہ سامنے لائیں ۔کیونکہ ایک طبقہ مسلسل اسی میں لگا ہوا ہے۔۔۔ جس کی رفتار تیز ہے اور جولوگ ملک اور سماج کی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارنے میں لگے ہیں بہ ظاہر ان کے پاس وسائل کم ہیں۔اور ملک کے غریب عوام لاک ڈان کی جومار جھیل رہے ہیں وہ ایک الگ بڑی مصیبت ہے ان تمام چیزوں کو ایک ذمہ دار امت کے فرد کی حیثیت سے ہمیں دیکھنا ہوگا ۔ان تمام صورت حال کے باوجود حالات ومسائل سے نہ توہمیں مایوس ہوناہے اور نہ گھبراناہے اس یقین کے ساتھ کہ میدان میں ڈٹے رہناہے ”لاتحزن ان اللہ معنا“۔۔
بقول حکیم الامت علامہ اقبالؒ ؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں