امریکی فوجی ٹھکانوں پر ایرانی حملوں کا پس منظر….

0
1603
عراق کے امریکہ کے فضائی اڈے پر ایرانی حملوں کے بعد افراتفری میں کتوں کی طرح اپنی جان بچانے کیلئے بھاگتے اپنی سپاہی۔۔۔
All kind of website designing

امریکہ ،اسرائیل اور سعودیہ مثلث کی بربادی کا وقت آ گیا؟

میم ضاد فضلی

امریکہ بہادر نے سوچا تھا کہ وہ جس طرح دہشت گردوں کو مٹانے کا بہانہ بنا کرپاکستانی عوام پر ڈرون حملے کرکے اس کے سینکڑوں بے گناہ عوام کو موت کی ابدی نیند سلا نے کے بعد کسی شیر ببر کی طرح انگڑائیاں لیتا ہوا فخر کیساتھ باہر نکل آتا ہے اورپاکستان کے بے غیرت و عوام دشمن حکمرانوں و فوجی جنرلوں کی جانب اربوں کے حساب سے امریکی ڈالر اچھال کرانہیں مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کریتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح وہ جنرل قاسم سلیمانی کو بھی شہید کرکے صاف بچ نکلے گا اور چونکہ عراق میں ابھی غیر اعلانیہ طور پر اسی کی جارہ داری قائم ہے ، لہذا عراق کی زبان بھی بند رہے گی اور جس طرح وہ اپنے غلام سعودی عرب کے عیاش حکمرانوں کو دھمکاتے ہوئے برملا کہتا رہاہے کہ اس کی حمایت اور پشت پناہی کے بغیر حجاز مقدس میں یہودی النسل سعود گھرانے کی شاہی حکومت دو دن بھی قائم نہیں رہ سکے گی، یہ سنتے ہی بوڑھے سلیمان ہڈیوں میں سرسراہٹ پیدا ہوجاتی ہے اور خوف کے مارے بے چارے کی سانس پھولنے لگتی ہے اورحقیقت بھی یہی ہےکہ سعودی عرب کی عسکری قوت کے لحاظ سے کوئی اوقات نہیں ہے ، 1936میں تیل جیسے سیال سونے کی دریافت کے بعدوہاں کے حکمرانوں نے عرفان نبوت کے چشمہ شافی سے حکومت وقیادت کا طریقہ حاصل کرنے کے بجائے اپنے زمانہ جہالت والے اجداد کے ترانے گانے لگے، رعونت و تکبر اور جاہلانہ خاندانی غرور پر اترانا اور اسے فخر کے ساتھ دنیاکے سامنے پیش کرکے عجمی مسلمانوں کو ذلیل خوار کرنا ان کی عادت ثانیہ بن گئی

خلیج عرب میں قوت کے زور پر امت مسلمہ کی پشت میں خنجر گھونپنے والے ڈونالڈ ٹرملپ، محمد بن سلمان اور اسرائیلی جلاد نیتن یاہو کا مسلم دشمن مثلث

چناں چہ ، رعونت وتکبر،غرور اور تمکنت جو دور جہالت میںعربوں کی گھٹی میں پڑی تھی اور جس کا خاتمہ کرنے کیلئے ہی رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم مبعوث فرمائے گئے تھے اور آپ نے تکمیل دین کرتے ہوئے رنگ ونسلی، علاقائی اور لسانی تفریق کے بت کو پاش پاش کرکے تمام عرب و عجم کو ہرقسم کی تفریق سے پاک کرکے باہم شیرو شکر کردیا تھا۔
چناں چہ سعود گھرانے کو بھی یہی کرنا چاہئے تھا کہ وہ سیال سونے کی دولت ہاتھ لگنے کے بعد اپنے لئے ہیرے اور زرو جواہرکے اطلس و کمخواب تیار کرنے کے بجائے سنت فاروقی پر عمل پیرا ہوجاتے ،یا عمر ابن عبدالعزیزرحمہ اللہ جیسی نے نفسی و خداترسی پیدا کرلیتے ۔یا سید صلاح الدین ایوبی ؒ، ٹیپو سلطان شہیدؒ اور اورنگ زیبؒ جیسی عسکری طاقت ہموار کرتے۔ مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ شاہ سعودکاسارا خاندان جنگی اور فوجی قوت کو استوار کرنے کے بجائے سرتاپا عیاشی میں ڈوب گیا اور حکماءکی کہی ہوئی یہ بات صد فیصد درست ہے کہ ” عیاشی انسان کو ڈرپوک اور نامرد بنادیتی ہے“، لہذا شاہ سلمان اور اس ظالم ولی عہد محمد بن سلمان نے نامردی کاثبوت دیتے ہوئے اپنے ابا جان ٹرمپ کی دھمکی کو قبول کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا ۔ جس سے دنیا کو بغیر بتائے ہی محض شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی خاموشی سے یہ پیغام مل گیا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودیہ کی غاصب شاہی حکومت کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ چڑھتے سورج کی طرح مبنی بر صداقت اور تلخ سچائی ہے۔یہیں پر ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی کو سمجھنے میں غچہ کھا گئے۔
انہوں نے سوچا تھا کہ سعودی عرب کے عیاش حکمرانوں کی طرح عراق بھی فقط اس کے آنکھ دکھانے سے ہی ڈر جائے گا اور اس کی ہڈیوں میں بھی کپکپاہٹ برپاہوجائے گی۔ مگر 3جنوری 2020کو امریکہ کے ذریعہ ایران کی ”ایلیٹ قدس فوج “ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد حکومت عراق نے جو سخت موقف اختیار کیا ہے ،اس نے انکل سام کی ساری اکڑ باہر نکال دی ہے ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عراق میں موجود امریکی فوجی طاقت وہاں کی حکومت کے تعاون سے محروم ہوجانے کے نتیجے میں خود کو بے دست و پا محسوس کررہی ہے ۔ سب سے پہلے عراق کی پارلیمنٹ نے جنرل قاسم سلیمان کی شہادت کیخلاف امریکہ کیخلاف نفرت کی جوتجویز منظور کی ہے اس کا متن پڑھئے اور اس کے بعد یہ اندازہ لگانے کوشش کیجئے کہ اب امریکہ بہادر کا دوسرا ٹھکانہ کہاں ہوسکتا ہے، جہاں سے وہ ایران پر دہشت گردانہ حملے کرسکے گا ، عراق کی پارلیمنٹ نے امریکہ کے خلاف جو تجویز منظور کی ہے اس کے مطابق ”بغداد میں امریکی حملے میں ایرانی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عراقی پارلیمنٹ نے امریکی افواج کو عراق سے واپس بھیجنے کی قرارداد منظور کرلی ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے دوسرے ہی دن عراقی پارلیمنٹ میں ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ، عر ا قی پارلیمنٹ میں امریکہ کیخلاف جوتجویز منظور ہوئی وہ دم بخود کردینے والی اور سعودی عرب جیسے امریکی کاسہ لیس مسلم مملکتوں کیلئے سبق آموز ہے، مگر یہ اسی صورت میں سبق آموز ہوگا جب اس کے اندر تھوڑی سی بھی انسانیت اور دینی حمیت باقی ہوگی۔ عراق کی خبر رساں ایجنسی الوکالة الوطنیة العراقیہ للانباءکے مطابق ”جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد عراقی پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب ہوا، اس موقع پر نگراں عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کا کہنا تھا کہ امریکہ سے تعلقات عراق کی خودمختاری سے مشروط ہیں، جنرل قاسم سلیمانی کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ مجھ سے ملنے آئے تھے۔ یعنی قاسم سلیمانی حکومت عراق کے مہمان بن کر آرہے تھے۔انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کوکسی طرح بھی عراق کے مفاد میں کہہ کرجائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ،لہٰذا عراقی پارلیمنٹ غیر ملکی فوجیں عراق سے انخلاءکا اقدام کریں، انہوں نے کہا ہے کہ بہر صورت اندرونی و بیرونی مشکلات کے باوجود غیر ملکی فوجوں کا انخلاءہی عراق اور امریکہ کے مفاد میں ہوگا۔اپنے مذکورہ بالا خطاب کے ساتھ ہی عادل عبدالمہدی کی تقریر کے بعد عراقی پارلیمنٹ نے امریکی فوج کے عراق سے انحلاءکی قرار داد منظور کرلی ۔ اسی دوران ایسوسی ایٹیڈ پریس نے یہ خبر جاری کی کہ عراقی دفتر خارجہ نے امریکی سفیر کو اپنے آفس میں طلب کرکے اس واقعے پر اس کی مذمت بھی کی ہے ۔ ابھی عراق کی برہمی سے امریکہ سنبھلنے بھی نہیں پایا تھا کہ ایران کے صدر روحانی نے اور وزیر خارجہ جواد ظریف نے دوٹوک لفظوں میں کہا کہ ہم اپنے جرنیل کی شہادت کا بدلہ ضرور لیں گے اور کسی بھی صورت میں امریکہ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر روس اور چین نے بھی امریکہ کی مذمت کی اور اسے ظالمانہ ودہشت گردانہ عمل قرار دیا ۔مگر یہ کس قدر شرم اور ڈوب مرنے والی بات ہے کہ امریکی دہشت گردی پر چین اور روس جیسے مسلم دشمن ممالک تو مذمت کررہے تھے اور سعودی عرب و پاکستان کے بے غیرت حکمراں اپنی عیش گاہوں میں واقعے پر ٹھہاکے لگارہے تھے۔
دریں اثنا ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے کہا ہے کہ امریکہ کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا ۔ دنیا ابھی ایران کے عزم کو دھمکی کی شکل میں ہی دیکھ رہی تھی کہ 8جنوری2020کو بین الاقوامی سطح پر میڈیا میں یہ خبر بریکنگ نیوز بن کر چھاگئی کہ ایران نے عراق میں واقع امریکہ کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بناکر کم ازکم 22بیلسٹک میزائل داغے ہیں اور ایران کے دعویٰ کے مطابق اس حملے میں امریکہ کے کم ازکم 80اہلکار ہلاک کئے جاچکے ہیں ،جبکہ مادی نقصان کی شکل میں امریکہ بہادر کواربوں ڈالر کا مالی خسارہ تحفہ کی شکل میںملاہے ۔ حالاں کہ اسی شام ڈونالڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کر کے دعویٰ کیا کہ ایرانی حملوں سے اسے کسی طرکا کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے ۔جس وقت ٹرمپ یہ بیان دے رہے تھے ،اسی وقت ان کا لہجہ یہ غمازی کررہا تھا کہ نقصان تو ضرور ہوا ہے ،مگر اپنے عوام اور دنیا کے سامنے رسوائی سے بچنے کیلئے وہ سفیدجھوٹ بول رہے ہیں۔اس وقت امریکہ کے حالات یہ ہیں امریکی افواج کے اہلکاروں کی ہلاکت کی امریکہ اگر تصدیق کردے تو سارا امریکہ ٹرمپ کیخلاف سڑک پر اتر جائے گا اور ٹرمپ کو ذلت کی موت مار نے کیلئے اس کے پیچھے کن کٹے کتے چھوڑ دے گا۔
ایران کی جنگی کارروائی کو جائز ٹھہراتے ہوئے میجر جنرل محمد باقری نے امریکی حکومت کے کم عقل حکمرانوں کو خبردار کیا ہے کہ گزشتہ شب کیا جانے والا قابل فخر حملہ ہماری مسلح افواج کی طاقت کا ٹریلر تھا اور یہ ابتدائی حملہ عالم اسلام کے عظیم جرنیل جنرل قاسم سلیمانی کے خون کا انتقام لینے کی غرض سے انجام دیا گیا ہے۔ایران کی مسلح افواج کے سربراہ کے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ آج کے بعد امریکہ کی ہر قسم کی جارحیت کا ٹھوس، منہ توڑ اوراب سے کہیں زیادہ شدید جواب دیا جائے گا۔میجر جنرل باقری نے دو ٹوک لفظوںمیں کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ کی شرپسند حکومت کے کرتا دھرتا، دنیا کے وسیع و عریض علاقے میں ایران کی عظیم طاقت کا ادارک کرتے ہوئے، ہوش کے ناخن لے اور جتنا جلد ممکن ہوسکے، اپنی دہشت گرد فوج کو علاقے سے باہر نکال لے۔ ابھی آٹھ جنوری کے دھماکے ہی مباحثوں کا موضوع بنے ہوئے تھے کہ 9جنوری کی دوپہر کو یہ خبر آگئی کہ عراق کے گرین زون میں واقع امریکی سفارتخانہ کو نشانہ بناکر ایران نے ایک اور میزائل داغ دیا ہے۔
اب امریکہ کیلئے پریشانی کی بات یہ ہے کہ وہ عراق سے ایران پر کسی بھی قسم کے حملے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کیلئے ایران پر حملہ کرنے کیلئے دوسری موزوں جگہ اسرائیل ہوسکتی ہے ، جہاں سے وہ ایران پر حملے کرسکتا ہے۔ مگر اس صورت میں شاطر یہودیوں کو یہ خطرہ دامن گیر ہوجائے گا کہ اگر امریکہ نے ایران پر حملے کیلئے اسرائیلی سرزمین کا استعمال کیا توسعودیہ عربیہ، مصر اور اردن کو چھوڑ کرخطہ کے سارے ہی اسلامی ممالک کو متحد ہونے کا نادر موقع ہاتھ لگ جائے گا۔جس کا اشارہ مسلم ممالک کے جہاندیدہ اور بزرگ سیاسی رہنما ملائشیا کے وزیر اعظم نے پہلے ہی مسلم ممالک کو اب ایک پلیٹ فارم آجانے کی دعوت دیکر کردیا ہے۔اطلاعات کے مطابق ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے مسلم ممالک سے کہا ہے کہ وہ بیرونی خطرات کا مقابلہ اور ا ن سے محفوظ رہنے کے لیے متحد ہو جائیں۔ انہوں نے یہ کلمات ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے تناظر میں کہے۔ دنیا کے معمر ترین وزیراعظم نے رپورٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان ملکوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی محفوظ نہیں اور کسی کی کہی ہوئی سخت بات کسی کو اگر پسند نہیں آتی تو وہ کسی دوسرے ملک کے ڈرون حملے میں ہلاک ہو سکتا ہے۔ مہاتیر محمد کے مطابق ان کی سچی باتیں پسند نہ آنے کی صورت میں شاید انہیں بھی ڈرون حملے کا نشانہ بنا دیا جائے۔اگر تاریخ کی گہرائیوں میں جائیں تو اس عمر رسیدہ بزرگ رہنما کے اندیشے خلاف توقع نہیں ہیں، اس لئے کہ ہم گزشتہ چار دہائیوں سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ جس حکمران نے بھی مسلم ممالک کو متحد کرنے سعی کی کسی نہ کسی بہانے امریکہ نے اس کی قبر کھود کر ہی چھوڑی ہے۔اگرچہ یہ بات ناقابل یقین ہے ، مگر شاہ فیصل کو ان کے بھتیجے کے ہاتھوں ہی قتل کرانے کے بعد اس زمانے میںیہ خبر موضوع بحث بنی تھی کہ مسلم ممالک کو متحد کرنے کی کوشش کی وجہ سے ہی امریکہ نے ان کا قتل کرادیا تھا۔ جنرل ضیاءکی ہلاکت پر بھی خود مغربی میڈیا نے امریکہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بھی امریکہ کی مسلم دشمن سازش کا نشانہ بنے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے اسباب کا ذکرتے ہوئے عاد ل عبد المہدی نے پارلیمنٹ میں یہ بات کہی ہے کہ مسٹر سلیمانی کو امریکہ نے اس لئے شہید کردیا کہ وہ ایران و سعودیہ عربیہ کے درمیان اتحاد کی کوشش کرنے کی غرض سے ہی عراق آرہے تھے، جو امریکہ ناگوار گزرا اور اس نے جنرل قاسم کو ٹھکانے لگادینے کا فیصلہ کرلیا۔اب اگرچہ غلیظ الفطرت ڈونالڈ ٹرمپ کے لہجے میں نرمی آ گئی ہے ، مگر اس سے لاپرواہ ہونا ایران اور عراق دونوں کیلئے کسی بھیانک تباہی کے مترادف ہوگا۔ترکی بھی اس وقت ناکارہ اور سعودی عرب کے تلوے چاٹنے والی او آئی سی سے قطع تعلق کرکے متوازی خیمہ میں آگیا ہے جو امریکہ کیخلاف محاذ آرا قوتوں کے لئے نیک فال ہے ،حال ہی میں 18دسمبر کو او آئی سی کے متوازی مسلم ممالک کے جس اتحاد کا خاکہ ملائیشیا میں بیس مسلم ممالک کے رائے مشورے سے تیار ہوا ہے۔ذاتی مفادپرستی ،خود غرضی اور سعودی عرب کے دھونس میں آکر اگرچہ انڈونیشیا اور پاکستان اس تاریخی اتحاد کا حصہ نہیں بن سکا ۔ مگر حالات بہت جلد بتادیں گے کہ ان دونوں ملکوں نے سعودی عرب کی غلامی (جو صرف امریکہ کے حکم پر ہواہے)کرکے اپنے ملک اور عوام کو وہ چوٹ پہنچائی جس کی ٹیسیں کئی دہائی تک دونوں ممالک کے عوام کو برداشت کرنا پڑیں گی۔ اس وقت مسلم ممالک کیلئے ترکی اور ملائیشیا کے سربراہان کی ڈپلومیسی ہی سب سے زیادہ مو¿ثر طاقتور اور فیصلہ کن ہے۔اگر حالات کا دھارا اسی طرح بہتا رہا تو یقین کیجئے کہ بہت جلد سعودی عرب کم ازکم مسلم ممالک کی صفوں سے نکل کر تنہا پڑجائے گا اور امریکہ ،اسرائیل و سعودی عرب کا یہ مثلث اپنے جال میں پھنس کر ازخود تباہ ہوجائے گا۔
8076397613 : رابطہ نمبر

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here