ایسی رسوائی تاریخ میں کسی صدر جمہوریہ کو نہیں ملی ہوگی
میم ضاد فضلی
گزشتہ چار دسمبر2019کو وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل کا مسودہ پیش کیا، جس کے بعد سارا ملک سراپا احتجاج ہے ، ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اسی قدر شدت کے ساتھ مغربی ممالک میں بھی وہاں کے عوام اور یونیورسیٹیز کے طلباء لگاتار احتجاج کررہے ہیں۔
آئیے ! سب پہلے یہ جانتے ہیں کہ شہریت قانون کیا ہے اور کن حالات میں1955میں حکومت ہند نے شہریت ترمیم بل کو قانون کی شکل دی تھی۔واضح رہے کہ ہندوستان میں پہلی بار 1955ء میں شہریت کا قانون متعارف کرایا گیا تھا، جس میں مختلف حکومتوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً ترامیم کی گئیں۔مگر ماضی میں کی گئی تمام ترامیم مذہبی، علاقائی اور نسلی تفریق کی غلاظت سے پاک تھی،جبکہ نفرت اورتقسیم کی سیاست کیلئے دنیا بھر میں بدنام ہندوستان کی موجودہ یرقانی حکومت کے ذریعہ کئے گئے شہریت قانون میں حالیہ ترمیم کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی 6 اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کی بات کی گئی ہے، جن میں ہندو، بودھ، جین، پارسی، مسیحی اور سکھ شامل ہیں۔ اس بل کی سب سے متنازع بات جس پر سب سے زیادہ رد عمل سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔ یعنی آئندہ ان ممالک سے ہندوستان آنیوالے مسلمانوں کو انڈیا کی شہریت حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ مذہبی عصبیت کی بنیاد پر کی گئی حالیہ ترمیم سے قبل اس قانون کے مطابق شہریت حاصل کرنے کیلئے کسی بھی شخص کو (بلا تفریق مذہب و نسل) ہندوستان میں 11 سال رہنا ضروری تھا، ایسا شخص اگر شہریت کیلئے درخواست دے تو حکومت اسے منظور کر سکتی تھی ،تاہم نئے قانون کے تحت پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتی برادریوں کو چھوٹ دی گئی ہے اور 11 سال کی مدت کو کم کرکے 5 سال کر دیا گیا ہے۔
اس نئے قانون یعنی سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے ) کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے 31 دسمبر 2014ء سے قبل ہندوستان آنے والی مذکورہ برادریاں فائدہ اٹھاسکیں گی، تاہم ان میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی مودی کابینہ نے یہ بل 4 دسمبر کو منظور کیا ،جبکہ 9 دسمبر کو لوک سبھا نے اس بل کی منظوری دی، 11 دسمبر کو متنازع شہریت کا قانون راجیہ سبھا سے بھی منظور کرالیا گیا، اوراس کے فوراً بعد صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد یہ بل قانون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ رام ناتھ کووند چونکہ آزاد ہندوستان کے سب سے کمزور اور مجبور محض صدر جمہوریہ واقع ہوئے ہیں ، لہذا جگہ جگہ ان کیخلاف بھی مذمتی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ حتی کہ ملک کی کئی یونیورسٹیز کے مسلم و غیر مسلم طلبا اور طالبات نے ان کے ہاتھ سے ڈگری اور گولڈ میڈلس لینے سے بھی منع کردیا ۔ کیا اس سے بھی زیادہ شرمندگی کی کوئی بات ہوسکتی ہے کہ کسی صدر جمہوریہ کے ہاتھ سے طلبا اسناد اور ڈگریاں لینے سے بھی انکار کردیں۔ یقیناً یہ کسی بھی باضمیر اور حساس سربراہ کیلئے سب سے زیادہ رسوائی کی بات ہے۔
صدر جموریہ رام ناتھ کو وند کو ان کے ہاتھ سے سند لینے سے انکار کرنے کی وجہ سے ملک کی نصف درجن سے زائد یونیورسیٹیوں میں رسوائی اٹھانی پڑی ہے۔ چناں چہ 26دسمبر2019کو یہ خبر اخبارات سمیت عوامی رابطوں کی سائٹ پر کئی دنوں تک ٹرینڈ کرتی رہی ۔ مگر ایک بار بھی رام ناتھ کووند نے اس خجالت کا احساس کرتے ہوئے دنیا کو اپنی مجبوریوں سے واقف کرانے کی زحمت نہیں کی کہ کن مشکل حالات اور سخت دباؤ کے نتیجے میں انہوں نے مذکورہ بل پر دستخط ثبت کرکے آئین کی دھجیاں اڑانے والے اس مسودہ کو قانونی شکل دے دی تھی۔ خبروں کے مطابق ’’شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں مغربی بنگال کی جادھو پور یونیورسٹی اور پانڈیچری یونیورسٹی کے طلبہ کے ذریعہ کانووکیشن میں ڈگری لینے سے انکار کرنے کے بعد بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے بھی یہ جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔ کانووکیشن کے دوران ایم اے آرٹس کےایک ا سٹوڈنٹ نے یہ کہتے ہوئے ڈگری لینے سےا نکار کردیا کہ درجنوں طلبہ بشمول بی ا یچ یو کے ۲۰؍سے زائد طلبہ قیدی ہیں ،ایسے میں وہ سند قطعی نہیں لے سکتے۔ساتھ ہی، اعلانیہ طور پر کہا کہ وہ گرفتاری کی ا س پالیسی کے ساتھ ساتھ ہر اُس قانون کے مخالف ہیں جو فرقہ وارانہ بنیاد پر بنایا گیا ہو اور جو ملک کو تقسیم کرنے والا ہو۔خیال رہے کہ اس طالب علم کا نام رجت سنگھ ہے۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نفرت کی سیاست کرنے والی بی جے پی اور اس کے صدر جمہوریہ کے خلاف ہی ملک کے امن پسند شہریوں اور طلبا برادری میں شدید نفرت پیدا ہوگئی ہے۔سنگھ اور بی جے پی کی دوغلی پالیسی کو تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں جاننے والے عالمی ماہرین سیاست اور دور اندیش صحافیوں کو مودی اور امیت شاہ سمیت بھاجپائی بھونپوؤں کے وعدوں، یقین دہانیوں اور دعووں پر ذرہ برابر بھی اعتماد نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس سیاسی جماعت اور اس کی مادر تنظیم آر ایس ایس کے بارے میں یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ یہاں سچ بولنا گناہ ہے اور دھوکہ دہی اور جھوٹ کی اینٹ گاڑے سے ہی بی جے پی کی ساری عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ یہ انتخابات کے وقت عوام سے جھوٹے وعدے کرکے ان کے ووٹ حاصل کرتے ہیں اور اقتدار کے بعد جب انہیں ان کے وعدے یاد دلائے جاتے ہیں تو یہ کہہ کر عوام کو سکتے میں ڈال دیتے ہیں کہ ان کا انتخابی وعدہ صرف ایک
’’ جملہ ‘‘ تھا۔بس اسی فریب ، مکاری ، جھوٹ اور دغابازی کے ذریعے یرقانی جماعت کے لیڈران ملک کے سیکولر آئین کو نیست و نابود کرکے یہاں ’’ منو اسمرتی‘‘ جیسا فرسودہ قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں ،جسے ’’ ہندوتوا‘‘ کہا جاتا ہے اور اس ہندوتوا راج میں برہمنوں ، سورنوں اور چھتریوں کے علاوہ کسی کو بھی کوئی آئینی حق دینے یا انسانیت کی بنیاد پر ظالم اور مظلوم کے درمیان فیصلے سنانے کا تصور نہیں ہے ۔ ہندوتوا کے ’’ منو اسمرتی ‘‘ قانون میں اشرافیہ اگر ظالم بھی ہوں گے تو بھی فیصلہ انہیں کے حق میں سنا یا جائے گا اور غیر اشرافیہ لاکھ مظلوم ہوں ان کی فریاد کو یکسر مسترد کردیا جائے گا۔
لہذ ا موجودہ شہریت ترمیمی قانون کو ہلکے میں نہیں لیناچاہئے ، بلکہ یقین کیجئے کہ ملک کو ہندوتوا راج کی طرف لے جانے کایہ پہلا زینہ ہے ۔ ابھی تو ’’ہندوتوا‘‘ منصوبے کی زد پر صرف مسلمان ہیں ، مگر دھیرے دھیرے اشرافیہ کے علاوہ اس ملک کی تمام اقلیتیں حتی کہ دلت ،شودر اور قبائلی ’’آدی باسی ‘‘برادریاں بھی نشانے پر آئیں گی اور ان سے بھی حق شہریت چھین لیا جائے گا۔ آر ایس ایس اور یرقانی فاشسٹوں کی اس سازش کو آنجہانی خوشونت سنگھ نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا اور انتہائی بے باکی کے ساتھ انہوں نے لکھا تھا کہ ہندوستان کو ’’ ہندو راشٹر‘‘ بنانے کا خطرناک منصوبہ اور اس کا خاکہ آر ایس ایس اور بی جے پی پہلے سے ہی بناکر رکھے ہوئی ہے۔
چناں چہ ’’ہندوتوا‘‘ کی نسل پرستی اور ہندو بالادستی کے نظریات کے بارے میں خشونت سنگھ کے الفاظ قابل ذکر ہیں ۔خشونت سنگھ نے نسلی تفاخر کے نظریے کی جو پیش گوئی کی تھی آجہندوستان کو مودی اورامیت شاہ اسی راہ پر لے کر چل پڑے ہیں۔
خشونت سنگھ نے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ نفرت کی بنیاد پر بننے والا گروہ ڈر اور خوف پیدا کرکے اپنا وجود برقرار رکھتا ہے ۔ہندوستان میں جو لوگ سکھ اور مسلمان نہ ہو کر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔خشونت سنگھ نے پیش گوئی کی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب ہندو بالادستی کا نظریہ لے کر پیدا ہونے والی تنظییمں اپنے علاوہ سب کیلئے خطرہ ہوں گی ۔انہوں نے اس خطرناک منصوبہ کی جانب متوجہ کرتے ہوئے بائیں بازو کے تاریخ دانوں اور مغرب سے متاثر نوجوان طبقہ کو ٹارگٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کل کویہ اسکرٹ پہننے والی خواتین، گوشت کھانے والے افراد، شراب پینے والوں، مغربی فلمیں دیکھنے والوں، سالانہ مذہبی عبادت نہ کرنے اور مندرنہ جانے والوں ، منجن کے بجائے ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنے والوں ، وید حکیموں کے بجائے ایلو پیتھک ڈاکٹرز کو ترجیح دینے والوں ، جے سری رام کہنے کے بجائے ہاتھ ملانے یا بوسہ دینے والوں کے خلاف نفرت میں بدل جائے گا۔ نتیجہ کار ہندوؤں کے فاروارڈ بلاک کے علاوہ ملک میںکوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔خوشونت شنگھ کی پیش گوئی اور زعفرانی قارورہ کی شرانگیزیوں سے متعلق ان کے خدشات ان کی کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا ‘‘ میں درج ہیں، جو 2003 میں شائع ہوئی تھی۔
اس لئے تمام محب وطن ہندوستانیوں اور سیکو لرز م کی بقا کیلئے فکر مند شہریوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس کالے قانون کیخلاف اپنی جدو جہد اور مظاہروں و احتجاجات کو لمحہ بھر کیلئے بھی کمزور نہ پڑنے دیں اور اس وقت تک یہ تحریک جاری رہنی چاہئے جب تک مودی اور امیت شاہ کیخلاف امریکہ اور حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں کے ساتھ اقوام متحدہ اس کالے قانون کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئی بھاجپائی حکومت کی چولیں نہیں ہلا دیتا ہے۔ہمیں مایوس بھی نہیں ہونا چاہے، اس لئے کہ سیکولرآئین کو بچانے کی ہماری یہ تحریک بڑی تیزی کے ساتھ مودی کی انسانیت دشمن اور نسل پرستانہ پالیسیوں کےخلاف طاقتور دنیاکو متوجہ کرنے اور انہیں اس کا سختی سے نوٹس لینے کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہورہی ہے، جس کے مثبت اور حوصلہ بخش نتائج جلد ہی سامنے آئیں گے اور بی جے پی جلد ہی اپنی بداعمالیوں کی سزا میں نیست ونابود ہوجائے گی، جس کی ابتدا لگ بھگ ہو بھی چکی ہے۔لہذا یہ بات ہمیشہ یاد رکھئے! کہ یہ جنگ تنہا کسی ایک اقلیت کی نہیں ہے ، اس وقت اگرچہ بی جے پی کے نشانے پر مسلمان ہیں، مگر اس کے بعد آپ کی باری آئے گی اور اس طرح ملک میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہنے پائے گا۔ بقول برادرمحترم نواز دیوبندی :
اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھا، میرا نمبر اب آ یا
میرے قتل پہ آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے
08076397613
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں