واشنگٹن،( نیا سویرا/ ایجنسی) امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ امریکہ مقبوضہ غربِ اردن میں اسرائیلی آبادیوں کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف تصور نہیں کرتا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ موقف سابق امریکی صدر اوباما کی را
ئے کے برعکس ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ غربِ اردن کی حیثیت کا فیصلہ کرنا اسرائیلیوں اور فلسطینیوں پر منحصر ہے۔اسرائیل نے امریکی موقف میں اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے۔ اسرائیل نے غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں 140 یہودی بستیاں قائم کی ہیں جنھیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی کہا جاتا ہے جبکہ اسرائیل اس سے متفق نہیں ہے۔ادھر فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ امریکی فیصلہ بین الاقوامی قوانین کے بالکل منافی ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ غرب اردن کا تمام علاقہ ایک دن ان کی ریاست کا حصہ ہوگا۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یایو نے اس موقعے پر کہا کہ امریکی پالیسی کی تبدیلی ایک تاریخی غلطی کو درست کرتی ہے اور دیگر ممالک کو بھی ایسی کرنا چاہیے۔غرب اردن اور اس میں بنائی گئی یہودی بستیوں کی حیثیت کا فیصلہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ کی تہہ تک جاتا ہے اور اسے امن عمل میں ایک اہم رکاوٹ مانا جاتا ہے۔اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے دوران غرب اردن، مشرقی یروشلم، غزہ اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس نے مشرقی یروشلم کو تو سنہ 1980 اور گولان کی پہاڑیوں کو سنہ 1981 میں عملاً اپنا حصہ بنا لیا تھا، تاہم اس اقدام کو بین الاقوامی سطح پر قبول نہیں کیا گیا تھا۔ان بستیوں میں تقریباً چھ لاکھ یہودی آباد ہیں۔فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان تمام بستیوں کی ختم کیا جائے کیونکہ ان کی ایک ایسے خطے پر موجودگی جس پر وہ دعوے دار ہیں مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کے خواب کو پورا نہیں ہونے دے گی۔1978 میں صدر کارٹر کی انتظامیہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ یہ یہودی بستیاں بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں تاہم 1981 میں صدر ریگن نے کہا تھا کہ ان کی رائے میں یہ بستیاں از خود غیر قانونی نہیں ہیں۔کئی دہائیوں تک امریکی ان بستیوں کو ’ناجائز‘ کہتا رہا تاہم انھیں غیر قانونی کہنا سے اجتناب کرتا رہا، اور ساتھ ساتھ اسرائیل کو اقوام متحدہ میں مزاحمتی قراردادوں کا نشانہ نہیں بننے دیا۔تاہم اوباما انتظامیہ نے اپنے آخری دور میں امریکی روایتی موقف کے برعکس 2016 میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کو ویٹو نہیں کیا جس کے تحت اقوام متحدہ نے اسرائیل کو ان غیر قانونی بستیوں کو ختم کرنے کے لیے کہا تھا۔تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا موقف ہے کہ صدر ٹرمپ نے تمام پہلوو¿ں کا جائزہ لیا ہے
اور وہ صدر ریگن کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔
دریں اثنا فلسطینیوں نے امریکہ کے بیان کی مذمت کی ہے کہ اُس نے چار دہائی پرانے اپنے اِس مؤقف کو تبدیل کر دیا کہ غربِ اردن میں یہودی بستیاں بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔
چیف مذاکرات کار سائب ارکات کا کہنا تھا کہ امریکہ کے اس اعلان سے بین الااقوامی قوانین کے جنگل راج میں تبدیل ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔واضح رہے کہ پیر کے روز امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ امریکہ غربِ اردن میں اسرائیلی آبادیوں کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف تصور نہیں کرتا ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ غربِ اردن کی حیثیت کا فیصلہ کرنا اسرائیلیوں اور فلسطینیوں پر منحصر ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں