اعظم شہاب
پردھان سیوک مودی نے بابری مسجد کے فیصلے پر اپنی خوشیوں کی پھلجھڑی کو دیش بھکتی کے چادر میں چھپاتے ہوئے بھارت بھکتی کا مشورہ دیا تھا۔ رام مندر ٹرسٹ میں شامل ہونے کے لئے رام بھکتوں کے آپسی سرپھٹول کو دیکھتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ مہاشے جی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے یہ رام بھکت اگرکہیں بھات بھکت بن جاتے تو کیا ہوتا؟
رام مندر ٹرسٹ میں شامل ہونے کے لئے رام بھکتوں کے آپسی سرپھٹول کو دیکھتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ اگر پردھان سیوک کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے یہ رام بھکت کہیں بھات بھکت بن جاتے تو کیا ہوتا؟ ابھی تورام مندر کی تعمیر کی شروعات تک نہیں ہوئی ہے، اورشروعات تودور ابھی تک تعمیر کے لئے ٹرسٹ تک نہیں بن سکا ہے،اس کے باوجود ایودھیا سے لے کر دہلی تک رام بھکت سادھوسنتوں کے درمیان جم کر ہنگامہ شروع ہوگیا ہے، جو نہ روکے رک رہا ہے اور نہ سنبھالے سنبھل رہا ہے۔ رام مندر ٹرسٹ پراجارہ داری کے لئے یہ سادھو سنت آپس میں ہی بھڑے ہوئے ہیں اوریہ بھڑنا اتنا شدید ہے کہ انہیں روکنے میں پولیس کے بھی پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ رام مندر ٹرسٹ میں شامل ہونے کے لئے کوئی کسی کو بے دخل کررہا ہے، کوئی رام مندر کے نام پرچندہ جمع کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہا ہے تو کوئی دو قدم اور آگے بڑھ کر آئندہ پارلیمانی الیکشن ایک بارپھررام مندر کے نام پرلڑے جانے کا اعلان کررہا ہے۔گویا جتنے بھی رام بھکت ہیں، اپنی رام بھکتی کا ثبوت دینے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔
رام بھکتوں کے اس آپسی سرپھٹول کو دیکھتے ہوئے مسلم فریق کی رحیم بھکتی زیادہ بہتر معلوم ہورہی ہے کہ جن کے یہاں سوائے اظہارِ افسوس کے کچھ نظر نہیں آرہا ہے اورجو اظہارِ افسوس بھی ہے وہ بھی عدالتی فیصلے کے احترام کے دائرے میں ہے ۔اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ جن کی سیکڑوں سال قدیم مسجد کو ناقابلِ تردید ثبوت وشواہدکی موجودگی کے باوجود عدالتی فیصلے کی آڑ میں جبراً چھین لیا گیا، وہ بیچارے عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کررہے ہیں ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے یہاں مکمل خاموشی ہے، ان کے یہاں میٹنگیں ہورہی ہیں، آپس میں کسی رائے پر اختلاف بھی ہورہا ہے ، دوسرے کی آراءکا احترام بھی کیا جارہاہے اور کسی نتیجے پر پہونچنے کی کوشش بھی ہورہی ہے،مگر مجال کیا کہ کوئی شخص یا کوئی فریق اسے اپنے ذاتی اختلاف یا ذاتی مفاد کے زمرے میں محسوس کرتے ہوئے کوئی ٹکراؤکی صورت پیدا کرے۔ یہ اس لئے ہورہا ہے کہ مسلم فریق اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ہمارے درمیان کا فروعی اختلاف اس اللہ کی مسجد کی بازیابی کے لئے جو ہمیں ایک رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی تاکید کرتا ہے۔
جبکہ دوسری جانب کی خبر یہ ہے کہ رام مندر کے مجوزہ ٹرسٹ اور مجوزہ ماڈل پر گھماسان بپا ہا ہے۔ تپسوی چھاؤنی مٹھ سے جڑے مہنت پرم ہنس داس نے رام جنم بھومی نیاس کے سربراہ مہنت نرتیہ گوپال داس کے محاذ کھول دیا ہے،جس کی وجہ سے انہیں گزشتہ روز تپسوی چھاؤنی مٹھ سے معطل کردیا گیا۔ یہ پرم ہنس داس نیاس کے سربراہ گوپال داس کے خلاف کھلے عام الزامات عائد کررہے ہیں کہ انہوں نے رام مندر کی تعمیر کے لئے جمع چندے کے پیسے خود خرچ کئے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ رام مندر کی تعمیر کے لئے رام جنم بھومی نیاس کے پاس جمع رقم ہزاروں لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے جو بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلسل جمع کئے جارہے ہیں۔اب ظاہر ہے کہ جب یہ معاملہ حکومت کے ہاتھ سے ہوتے ہوئے بالواسطہ طور پر آر ایس ایس کے ہاتھ میں چلا گیا ہے تو ان سبھی کو یہ خطرہ لاحق ہونے لگا ہے کہ ان کے پاس جمع شدہ رقم سنگھ کی ٹرسٹ کے ہاتھ میں نہ چلی جائے، جسے جمع کرنے میں انہوں نے اتنی مشقت اٹھائی ہے۔ یعنی کہ یہ پوراٹکراؤاس چندے کی وجہ سے ہے جو رام مندرکے نام پرجمع کیا گیا ہے۔لیکن ان کے اس مشورے پرمسلمانوں نے عمل کرتے ہوئے تو اسے مایوسی اور مجبوری کے طور پر قبول توکرلیا، لیکن وہ لوگ اس کی خوشیاں نہیں سنبھال پارہے ہیں جنہیں رام مندر کی تعمیر کا مژدہ سنایا گیا۔ یہ لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں، ایک دوسرے کو بے دخل کر رہے ہیں اور سرِعام ایک دوسرے کے کپڑے اتار رہے ہیں۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کی رحیم بھکتی رام مندر کے حامیوں کی رام بھکتی سے زیادہ پائیدار اور مستحکم نظر آتی ہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں