مسلم لا بورڈ ریویو پٹیشن دائرکرے گا، بورڈ کی میٹنگ میں فیصلہ لیا گیا

0
780
All kind of website designing

نئی دہلی، 17 نومبر(نیا سویرا لائیو) آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے بابری مسجدمعاملے پر فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست (ریویو پٹیشن) دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اتوار کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے کہا کہ ہم کو مسجد کے بدلے دوسری جگہ پر دی جانے والی 5 ایکڑ زمین منظور نہیں ہے۔ ہم دوسری زمین حاصل کرنے کے لئے عدالت نہیں گئے تھے، ہمیں وہی زمین چاہئے، جہاں پر بابری مسجد بنی تھی، اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا حق ہے؟اس معاملے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر اور سینئر ایڈوکیٹ جتیندر موہن شرما کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 137 کے تحت سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا حق ملا ہے۔ یہ حق صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ کے علاوہ ہندوستان کی کسی بھی کورٹ یا ٹربیونل کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا حق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ جتیندر موہن شرما نے بتایا کہ اجودھیا کیس کے فریق ثانی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست فیصلہ آنے کے ایک ماہ کے اندر داخل کرنی ہوتی ہے۔ ایک سوال

فوٹو: مولانا ارشد مدنی، بشکریہ اے این آئی ٹوئٹر اکاؤنٹ

کے جواب میں سینئر ایڈوکیٹ جتیندر موہن شرما نے کہا کہ سپریم کورٹ میں داخل ہونے والی 99.9 فیصد نظر ثانی کی عرضیاں مسترد ہو جاتی ہیں۔ صرف 0.1 فیصد نظر ثانی درخواستوں پر سماعت ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نظر ثانی کی عرضی سپریم کورٹ کی اسی بینچ کے سامنے داخل کی جاتی ہے، جس نے فیصلہ سنایا ہے۔جب سینئر ایڈوکیٹ جتیندر موہن شرما سے سوال کیا گیا ہے کہ بابری مسجد کیس پر فیصلہ سنانے والے چیف جسٹس رنجن گوگوئی ریٹائر ہو رہے ہیں، تو کیا اس معاملے کی نظر ثانی درخواست کے لئے نئی بنچ قائم کیا جائے گا، اس پر سینئر ایڈووکیٹ شرما نے کہا کہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی جگہ بینچ میں دوسرے جسٹس کو شامل کیا جائے گا، اگرچہ باقی بنچ میں شامل 4ججز وہی رہیں گے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر جتیندر موہن شرما نے یہ بھی بتایا کہ اگربابری مسجد معاملے میں نظر ثانی کی درخواست مسترد ہو جاتی ہے، توکیورےٹو پٹیشن داخل کی جا سکتی ہے۔آپ کو بتا دیں کہ سپریم کورٹ کے 5رکنی ججز کی بنچ نے بابری مسجد کی جگہ 9 نومبر کو رام للا براجمان کودینے کا فیصلہ سنایا تھا۔ ساتھ ہی سنی وقف بورڈ کو اجودھیا میں ہی الگ سے پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ مختلف زمین دینے کا فیصلہ آرٹیکل 142 کے تحت ملے حق کا استعمال کرتے ہوئے دیا تھا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اجودھیا کیس کے فریق نرموہی اکھاڑا اور شیعہ وقف بورڈ کا دعویٰ مسترد کر دیا تھا۔بہر حال آئین نے بحیثیت مذہبی اقلیت کے اپنے شعار کی حفاظت کیلئے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو جو اختیار بخشے ہیں ،اس کے مطابق چارہ جوئی کی راہیں کھلی ہیں، لیکن عدلیہ مذکورہ غیر آئینی فیصلے نے ثابت کردیا ہے کہ اب عدالت عظمیٰ بھی آزاد نہیں ہے ، لہذا چاہیں جتنی بھی نوعیت کی ریویو پٹیشن داخل کی جائیں اس سے مسلمانوں کو کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے ، بلکہ وہی ہوگا جس کا مرکز کی فسطائی حکومت نے تہیہ کررکھا ہے۔
دوسری جانب بابری مسجد کے نام پر چل رہی دوسری دکان یعنی جمعیة علمائے ہند(ارشد مدنی)بابری مسجد حق ملکیت مقدمہ میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کا جائزہ لینے والی جمعیةعلماءہند کی ورکنگ کمیٹی کی تشکیل کردہ پانچ نفری پینل نے وکلاءاور ماہرین قانون سے صلاح و مشورہ کے بعد بابری مسجد حق ملکیت مقدمہ میںسپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ریویو پٹیشن داخل کرنے کا آج فیصلہ کیا جوکہ صدرجمعیةعلماءہند مولانا سید ارشدمدنی ،مولانا حبیب الرحمن قاسمی ، مولانا سید اسجد مدنی، فضل الرحمن قاسمی اور ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اعجاز مقبول پرمشتمل پینل نے ریویو پٹیشن کے تمام ممکنہ پہلووں پر غور کیا۔پینل نے کہا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہے لیکن قانونی طور پر یہ حتمی فیصلہ نہیں ہے اس لئے کہ ابھی نظر ثانی( روویو )کا آپشن موجود ہے جسے استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو عدالت سے رجوع ہونا چاہئے؛ کیونکہ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل فیصلہ میں عدالت نے مسلمانوںکے بیشتر دلائل کو قبول کیا ہے ۔ جہاں قانونی آپشن موجود ہے وہیں شرعاً بھی یہ ضروری ہے کہ آخری دم تک مسجد کی حصول یابی کے لئے جدوجہد کی جائے ۔
مولانا ارشدمدنی نے کہاکہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے مسلمانوں کے ماتھے پر لگا یہ داغ دھل گیا کہ مسلمانوں نے بابری مسجد کی تعمیر رام مندر توڑ کر کی تھی ، محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ نے واضح کردیا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر نہیں کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے مانا ہے اور ہائی کورٹ نے بھی مانا تھا کہ1949میں غیر قانونی طریقے سے مسجد کے باہری صحن سے مورتی اندر رکھی گئی اور پھروہاں سے اندرونی گنبد میںمنتقل کی گئی جب کہ اس دن تک وہاں نماز کا سلسلہ جاری تھا۔ اور6 دسمبر 1992 کو شرپسندوں کے ذریعہ شہید کیا جانا بھی غیر قانونی عمل تھا ۔سپریم کورٹ نے یہ بھی مانا ہے اور ہائی کورٹ نے بھی مانا تھا کہ مسلمانوں کے ثبوت کم سے کم 1857 کے بعد سے 1949 تک بابری مسجد میں نماز پڑھنے کا ہے۔تقریبا یہ نوے سال ہوتے ہیں،تو اگر نوے سال تک ہم نے اگر کسی مسجد میں نماز پڑھی ہے تو اس مسجد کی زمین کو ہمیںنہ دیکر مندر کو دینے کا کیا مطلب ہے۔یہ چیز ہماری سمجھ سے پرے ہے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here