علی گڑھ (نیا سویرا لائیو)سرسید کے اس ادارے میں جو لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہ ان کے اوپر اللہ کا احسان ہے اگر یہ ادارہ نہ ہوتا تو یہ بچے دنیا میں نہ جانے کتنے پیچھے ہوتے۔ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور سرسید احمد خاںؒ کا شکر گزار ہوں کہ مجھے ان کی وجہ سے بہت بڑی تحریک ملی جس کی بدولت میں نے تعلیمی اور سماجی کام کا بیڑا اٹھایا۔ ان خیالات کا اظہار شمس الدین عبداللہ پنیکر نے سرسید اویئر نس فورم کے ذریعہ منعقدہ سیمینار ”سرسید، علی گڑھ تحریک اور تعلیم کی اہمیت“ موضوع پر بولتے ہوئے پولیٹکنک آڈیٹوریم، مسلم یونیورسٹی میں بطور مہمان خصوصی کہی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے آس پاس رہنے والوں کے لیے سرسید کی راہ پر چلتے ہوئے سماجی اور ملی کام کرنا چاہیے تاکہ جو بچے غلط راہ پر جا رہے ہیں انھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاسکے۔ انھوں نے تفصیل سے اپنے مشن کے بارے میں بتایا اور کہا کہ اللہ کے فضل سے میں نے جو کچھ کرنے کی کوشش کی وہ ہوتا چلا گیا اور تقریباً دو درجن ادارے وجود میں آ گئے۔ انھوں نے فورم کے صدر پروفیسر شکیل صمدانی کا ایک بہترین سیمینار کر نے کے لیے شکریہ ادا کیا۔
سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے مسلم یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر اختر حسیب نے کہا کہ سرسید نے سائنٹفک سوسائٹی کا جو بیج بویا تھا وہ مسلم یونیورسٹی اور اس کے تین سینٹرس کے شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ سرسید نے ہمیشہ بھائی چارے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی مثال پیش کی۔ انھوں نے فورم کے صدر پروفیسر صمدانی کو سیمینار کی کامیابی کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ کڑی محنت کرتا ہے تو اسے کامیابی ضروری ملتی ہے۔ انھوں نے طلبہ اور طالبات کے ہجوم کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ صرف سیمینار میں ہی حصہ لینا کافی نہیں بلکہ اس پر غور کرنا اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔
سیمینار کے ڈائریکٹر پروفیسر شکیل صمدانی نے فورم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا قیام آج سے تقریباً ۵۱ سال قبل سرسید کے کارناموں اور ان کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد طلبہ اور طالبات کو دستور ہند کے بارے میں بھی بتانا تھا تاکہ ملک میں محبت اور بھائی چارے کا پیغام جا سکے اور انصاف کا بول بالا ہو۔ انھوں نے مزید کہا کہ سرسید کے پیغام کو جنوبی ہند کے مسلمانوں نے شمالی ہند کے مسلمانوں سے زیادہ عملی جامہ پہنایا اور اسی لیے جنوبی ہند میں تعلیمی اداروں کا جال بچھ گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شمالی ہند کے مسلمان بھی اپنے کو تعلیمی اور سماجی کاموں سے جوڑ لیں تاکہ علی گڑھ تحریک اور زور شور سے چل سکے۔یوپی رتن لوکیش شرما نے کہا کہ سرسید کے احسانوں کا بدلہ قیامت تک نہیں چکایا جاسکتا کیوں کہ انھوں نے اپنا سب کچھ قوم کے لیے برباد کردیا۔ سیمینار کی صدارت کرتے ہوئے اکیڈمک کے اسٹاف کالج کے ڈائریکٹر پروفیسر اے آر قدوائی نے کہا کہ سرسید نے جدید تعلیم کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور انھیں اس کا سرپرست کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ سرسید نے انگلینڈ جاکر وہاں کے تعلیمی اداروں، عمارتوں، نصاب اور پورے تعلیمی ڈھانچے کا بغور مطالعہ کیا اور علی گڑھ میں آ کر اسی طرز پر کالج کا قیام کیا۔ اور انھوں نے کہا کہ پروفیسر صمدانی نے فورم قائم کر کے طلبہ اور طالبات کی تربیت کا بہترین انتظام کیا۔ اس موقع پر پروفیسر محب الحق، سارہ صمدانی، مہاراشٹر سے آئے سید حیدر پاشا قادری اور ڈاکٹر سواستی راﺅ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروگرام کی نظامت میڈکل کالج کی طالبہ عائشہ صمدانی نے کی، ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے تلاوت قرآن پاک کی، مہمانوں کا استقبال عبداللہ صمدانی نے کیا، فورم کے اغراض و مقاصدصبیح احمد نے پیش کیے، اور شکریہ خنسہ نے ادا کیا۔ اس موقع پر SECAB کے صدر شمس الدین پنیکر کو ان کی تعلیمی اور سماجی خدمات کے لیے بدست پرو وائس چانسلر پروفیسر اختر حسیب، پروفیسر قدوائی، پروفیسر شکیل صمدانی، حیدر پاشا قادری اور انجم تسنیم کے ذریعہ ”محسن ملت ایوارڈ“ سے سرفراز کیا گیا۔ اس پروگرام کی خصوصیت یہ رہی کہ اس میں کرناٹک، مہاراشٹر اور آندھراپردیش سے تقریباً ۲۳ مندوبین نے شرکت کی۔ ترکی کے دو مندوبین کی شرکت نے اس سیمینار کو بین الاقوامی بنا دیا۔ اس سیمینار کو کامیاب بنانے میں جنرل سکریٹری شعیب علی، انچارج حیدر علی، سکریٹری منصور الٰہی، سمرین، انجم قابوس، ذکیہ خان، طلعت انجم،شیلجا، فوزیہ، رضیہ چودھری، حنین خالد، کاشف سلطان، پون واشنے، راہل، ثمرہ ہاشم، سچن وارشنے، انس صدیقی، شبہم، چترانسو وغیرہ کا خصوصی تعاون رہا۔ سیمینار میں بڑی تعداد میں اساتذہ، طلبہ اور طالبات سماج کے مختلف شعبوں سے جڑی ہوئی شخصیات اور علمائے کرام نے شرکت کی۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں