غالب انسٹی ٹیوٹ میں جاری دو روزہ قومی سمیناربعنوان ’مرزا دبیر عہد اور شعری کائنات ‘ اختتام پذیر ہوا۔ سمینار کے دوسرے روز بھی ملک کے مختلف گوشوں سے تشریف لائے اہل دانش نے مطالعہ¿ دبیر کے تعلق سے اپنے گراں قدر مقالات پیش کیے۔ سمینار کے دوسرے دن تین اجلاس کا اہتمام ہوا جس میں چودہ مقالات پیش کیے گئے۔ دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ممتاز نقاد اور فکشن نگار پروفیسر ابن کنول نے کہا کہ دبیر ہماری کلاسیکی روایت کا اہم ترین شاعر ہے ۔ مطالعہ¿ دبیر کا حق قدیم مشرقی شعریات کو سمجھے بغیر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ مخصوص شعری امتیازات کوذہن میں رکھ کر کسی فن پارے کی قدر و قیمت متعین نہیںہوسکتی۔ لہٰذا پہلے شاعر کے مخصوص لب و لہجے کو متعین کرنا اور اس کی روایت سمجھنا ضروری ہے ۔ دبیر کے ساتھ یہ تصور وابستہ ہو گیا ہے کہ وہ صرف صنعتوں کے شاعر ہیں حالانکہ ان کے کلام کا تفصیل سے مطالعہ کیا جائے تو حقیقت کچھ اور معلوم ہوتی ہے۔ اس اجلاس میں پروفیسر کوثر مظہری نے ’مثنوی دبیر ’معراج نامہ‘ کا تجزیہ‘، پروفیسر مولیٰ بخش نے ’مراثی دبیر کی شعریات‘ ، ڈاکٹر فاضل ہاشمی نے ذولفقار سخن مرزا دبیر‘ اور جناب ثاقب فریدی نے ’مراثی دبیر میں صبح کے مناظر‘ کے عنوان سے مقالات پیش کےے۔ ممتاز شاعر، نقاد اور انشائیہ نگارپروفیسر خالد محمود نے دوسرے اجلاس کی صدارتی تقریر میں کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ مبارکباد کا مستحق ہے کہ اس نے اس اہم موضوع پر اتنے کامیاب سمینار کا انعقاد کیا، اس سمینار کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ اس سے دبیر فہمی اور دبیر شناسی میں اضافہ ہوگا اور ہمارے نئے لکھنے والے پرانی تنقید سے استفادہ کر کے نئے گوشے دریافت کریں گے۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ مطالعہ¿ دبیر کی زیادہ تر گفتگو شبلی کی نا رسائیوں کو شمار کرنے میں صرف ہو جاتی ہیں، شبلی نے جو کچھ لکھا وہ اگر غلط ہے تب بھی یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ ہم نے خود کیا دریافت کیا۔ اس اجلاس میں پروفیسر فضل امام نے ’دبیریت کیا ہے‘ ، پروفیسر ناشر نقوی نے ’دبیر شناسی اور نئے مرثیے کا اضافہ‘، ڈاکٹر ابو بکر عباد نے ’دبیر کی غزل کائنات‘ ڈاکٹر زبیر شاداب نے ’مرثیہ اور مطالعہ¿ دبیر کے آداب‘، اور ڈاکٹر ارشاد نیازی نے ’مرزا دبیر اور موزنہ انیس و دبیر‘ کے موضوع پر اپنے گراں قدر مقالات پیش کیے۔ دوسرے دن کے تیسرے اور آخری اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ دبیر ہماری روایت کاایسا شاعر ہے جسے بیک وقت مختلف اسالیب پر قدرت حاصل تھی بلکہ وہ اردو و فارسی گوئی پریکساں قدرت رکھتے تھے۔ دبیر کو سمجھنے کے لےے ان کے فارسی کلام کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے۔ اگر ہمارے پیش رو ناقدین نے ان کی نسبت غیر صحت مند رائے کا اظہار کیا ہے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہماری مشرقی شعریات سے متعلق بہت آراایسی ہیں جن کو آج ہم تسلیم نہیں کرتے ہاں ان سے روشنی ضرور حاصل کرتے ہیں۔ لہٰدادبیر سے متعلق اگر چشم پوشی کی گئی یا ان کے متعلق غیر صحت مندانہ رائے کو شہرت مل گئی تو اس سے ہمیں سبق لینا چاہےے اور ان گوشوں پر غوروفکرکرنا چاہےے جن پر یاتو گفتگو ہوئی ہی نہیں یا جن پر گفتگو کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔اس اجلاس میں پروفیسر علی جاوید نے ”عہد انیس ودبیر اور ان کی شعری کائنات“، پروفیسر احمد محفوظ نے ”مرزادبیر کے متعلق چند معروضات“، ڈاکٹر عباس رضا نیر نے ”بانوکے شیرخوارکوہفتم سے پیاس ہے“، ڈاکٹر کلیم اصغر نے ”ذولسانی شاعرمرزادبیر کی فارسی مرثیہ نگاری“ اور داکٹر سفینہ نے ”دبیر کامرثیہ،بلقیس پاسباں ہے یہ کس کی جناب میں اور جمیل مظہری کا مرثیہ شامِ غریباں کا جائزة“ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ 2 نومبر کو افتتاحی اجلاس کے بعد مرزا دبیر کے تعلق سے دو اہم ترین کتابوں کی رسم رونمائی عمل میں آئی۔ پہلی کتاب ’مرزا دبیر مونوگراف‘ مصنفہ سید رضا حیدر اور دوسری کتاب مطالعہ¿ دبیر: سلام اور رباعیات کی روشنی میں‘ مصنفہ ڈاکٹر شاہدہ فاطمہ۔ مطالعہ¿ دبیر کے سلسلے میں ایک طویل خاموشی کے بعد ان دو کتابوں کی اشاعت اردو ادب کے قارئین کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ سمینار کے اختتام پر مقالہ نگار، صدور اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضاحیدرنے کہاکہ ہمیں خوشی ہے کہ ہم مرزادبیر کے تعلق سے اتنے کامیاب سمینا رکا اہتمام کر سکے۔ میں اپنی طرف سے اور اس ادارے کی طرف سے تمام مقالہ نگار، صدور اور سامعین کا شکریہ ادا کرتاہوں کہ انہوں نے اپنی آمد سے اس سمینار کووقار بخشا۔ ان دو دنوںمیں جو مقالات پیش کےے گئے۔ وہ دبیر شناسی میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم بہت جلد ان مقالات کو کتابی شکل میں شائع کریں گے تاکہ اس سے استفادے کا دائرہ زیادہ وسیع ہوسکے۔ اس موقع پر شہر کی علم دوست اور ادب پرور شخصیات کے علاوہ کثیر تعداد میں طلبا اور ریسرچ اسکالرس نے شرکت فرمائی۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں