محمد امتیاز(نورانی)
چیئرمین گریبس گروپ آف ہاسپیٹل
آزاد ہندوستان میں طبقاتی طورپر مختلف برادری ، مذہب اور سماج کی معاشی و اقتصادی ترقی کے حوالے سے کئے جانے والے سرویز کی رپورٹس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے اقتدار کی زمام کار ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں آنے کے بعد مسلمانوں کے سوا تمام طبقات نے تھوڑی بہت ترقی ضرورکی ، تعلیم کے شعبے سے لے کر سیاسی میدان تک اور اس کے بعد ایوان میں بھی ان کی نمائندگی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ، مگر مسلمان پست سے پست تر ہوتا چلا گیا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دلت سمیت دیگر اقلیتی برادریوں کی ترقی کی بنیادی وجہ کیا ہے، آخر وہ کون سی خوبی ہے ،جس نے ناگفتہ بہ اور بدتر حالات میں جی رہے دلتوں اور قبائلیوں کو بھی قدرے بہتر اور صحتمند کہے جانے والے مسلمانوں سے اوپر لاکھڑا کیا۔ جب ہم ان سوالات کی تہوں میں جاتے ہیں تو کئی ایسے عوامل نظر آتے ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں اس پسماندگی اور حالات کی ستم ظریفی کے ذمے دار دیگر محرکات کے ساتھ ہم خود بھی ہیں، بہ
ر حال ہم اس پر آئندہ سطور میں تفصیلی روشنی ڈالیں گے ، پہلے اس سوال کے جواب کو سمجھا جائے کہ دلتوں نے ترقی کے میدان میں مسلمانوں پرکیسے سبقت حاصل کرلی؟
دلتوں کیلئے خوش آئند بات یہ بھی رہی ہے کہ آزادی سے پہلے انہیں بھیم راو¿ امبیڈکر جیسا مفکر اور رہنما ملا ،جس نے دلتوں کے چھینے ہوئے وقار اور سماجی مساوات کے لیے ایک غیر معمولی تحریک کی قیادت کی ۔ اس تحریک کو کانشی رام جیسے رہنما نے دلتوں میں سیاسی بیداری کی لہر سے ایک نئی بلندی پر پہنچایا۔
آج ہندوستان کی پارلیمنٹ میں کسی بھی وقت ساڑھے پانچ سو ارکان میں سے تقریباً سو ارکان دلت اور قبائلی برادریوں سے آتے ہیں۔ انڈیا کی بیشتر اسمبلیوں میں بھی دلتوں کے لیے سیٹیں مختص ہیں۔ تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں دلتوں کے لیے سیٹیں مختص ہونے سے وہ اب تعلیم اور روزگار میں بھی آ گے آئے ہیں۔یہ سب اس لئے ممکن ہوسکا کہ انہوں نے اپنی قیادتوں پر اعتماد کیا اور ان کی رہنمائی میں اپنے سماج کے لوک سبھا اور اسمبلی امیدواروں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ۔جب ایوانوں میں ان کے نمائندوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو ان سب نے مل کر اپنے سماج کی اجتماعی ترقی کیلئے حکومتوں سے منصوبے مرتب کروانے اوران کیلئے دیگر ترقیاتی ایجنڈوں کو منظور کرانے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا اور ساری تجویزیں پاس کرالیں۔آج صورت حال یہ ہے کہ دلتوں کی ایک نئی نسل ابھر رہی ہے، اسے اپنے رہنماو¿ں کی قوم پرست پالیسیوں کی وجہ سے پھلنے پھولنے کا بھر پور موقع مل رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دلت نوجوانوں کی یہ نئی نسل پر اعتماد، سیاسی طور پر بیدار اور قیادت کے لیے بے چین ہے۔جبکہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14 فیصد ہے۔ مگرتعلیم، روزگار، صحت اور سیاسی نمائندگی کے اعتبار سے وہ اب ملک میں سب سے پیچھے ہیں۔ ان کی سماجی اقتصادی اور تعلیمی ہیئت ایک جیسی نہیں ہے۔اگر ایک جگہ ہی اجمالی طورپر مسلمانوں کی سیاسی ،اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی کے اعداد و شمارمعلوم کرنے ہوں تو 2006میں سامنے آنے والی جسٹس سچرکمیٹی کی رپورٹ کو پڑھ لیجئے، بآسانی یہ معلوم ہوجائے گا کہ1980میں ہندوستان میں تقسیم ہند کا تازہ زخم اور اس کے بعد پاک ۔بنگلہ دیش جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم ، ملک کے کم ازکم 34شہروں میں تاریخ کو دہلادینے والے فرقہ وارانہ فسادات کے باوجود مسلمانوں نے اپنے حوصلے نہیں توڑے تھے اور اپنی سیاسی قوت کا احساس کرانے کیلئے انہوں نے 49مسلم رہنماو¿ں کو پارلیمنٹ میں پہنچا دیا تھا ،اس بڑی تعداد کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس وقت کے حالات مسلمانوں کیلئے آج سے کہیں زیادہ افسردہ اور اذیت ناک تھے۔مگر آج ہم نے صرف عدم اعتماد کی ذہنیت کاشکار ہوکر اس قدر بے معنی ہوچکے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد کے باوجود ہم پارلیمنٹ میں اپنی تعداد بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔حالاں کہ موجودہ وقت میں 2011کی سینسس یعنی مردم شماری رپورٹ کے مطابق ملک کی کم ازکم 29لوک سبھاسیٹوں پر ہماری تعداد 40فیصد سے زیادہ ہے، اگر 22فیصد سے35فیصد تک کی مسلم آبادی والی لوک سبھا سیٹوں کو شمار کریں تو لگ بھگ 130سے زیادہ سیٹیں ایسی ہیں ،جہاں ہم اپنی اجتماعی قوت کی بنیاد پر ایک سو سے زائد مسلم نمائندوں کو ایوان میں بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
ہم نے مذکورہ بالا سطور میں مسلمانوں کی پسماندگی کے دیگر اسباب میں سب سے اہم سبب سیاسی بیک ورڈنیس کو آپ کے سامنے رکھا ہے، ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ کیا اس مرض کا علاج آج ممکن نہیں ہے؟کیا آج ہم کسی شورغوغا کے بغیر انتہائی خاموشی کے ساتھ اپنی قوم کو 1980اور اس سے پہلے کے تباہ کن حالات کوپیش کرکے انہیں یہ احساس نہیں دلاسکتے کہ آج کے حالات ہمارے لئے 1947سے1980کے درمیان کے حالات سے کہیں بہتر ہیں، آج معمولی سی محنت اور سچی ہمدردی کاجذبہ اپنے اندر پیدا کرکے ملک کی سیاسی جماعتوں کو اپنی حیثیت کا بخوبی احساس دلاسکتے ہیں؟
ویسے تو ہماری پسماندگی کے دیگر عوامل اور اسباب بے شمار ہیں،اور صرف ایک مضمون میں ان تمام عوامل کااحاطہ کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔لہذا ہم نے جمہوری ملک میں ترقی کیلئے لازم اسی سیاسی اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ انیس سو سنتالیس میں برطانیہ سے انتقال اقتدار اور ملک کے بٹوارے نے مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں ایک ’مجرم‘ بنا دیا۔ کیونکہ تقسیمِ برصغیر کی مکمل ذمہ داری مسلمانوں کے سر ڈال دی گئی۔لیکن کیا آج ہم اپنی اجتماعیت کو بروئے کار لاکر برادران وطن کو یہ احساس نہیں کراسکتے کہ جو لوگ وطن عزیز کو چھوڑ کر چلے گئے ہم ان میں سے نہیں ہیں، ہمیں تقسیم وطن کے وقت دونوں آپشن دیے گئے تھے ۔اگر سرحد پار جانا چاہتے تو ہمیں کوئی روک نہیں سکتا تھا ، مگرہم نے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک میں جانا پسند نہیں کیا ،ہم نے اسی مٹی کو اور مشترکہ گنگا جمنی تہذیب میں ہی اپنی بقا اور ترقی کا راز پوشیدہ دیکھا اور ہم نے تمام نامساعد حالات کے باوجودپاکستان پر اپنے وطن ہندوستان میں رہنے کو ہی ترجیح دی۔یعنی ہم ہندوستان کی سرزمین کو بائی چانس نہیں بائی چوائس اپنے لئے اختیار کیا ہے۔ لیکن اس کا بھرپور احساس دلانے کیلئے ہمیں اسی جمہوری راستے کو اختیار کرنا پڑے گا جہاں سے پار لیمنٹ میں اپنے لئے نمائندے منتخب کرکے بھیجے جاتے ہیں اور جہاں ملک کے تمام شہریوں کی تقدیر بنائی اور بگاڑی جاتی ہے۔
بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی سوچ میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا کرلیں، احساس کمتری کے خول سے باہر نکل کر اپنی قوم کو منظم کرکے انہیں پولنگ مراکز تک لانے میں اپنی ساری توانائی لگادیں۔پھر دیکھئے اسی سرزمین پر ہمارے لئے دیگر ترقی اور امکانات کے دروازے ازخود کھلنے لگیں گے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں