تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
Ghaus Siwani/Facebook
ہمارے ملک میں اردوزبان، رینکنگ کے لحاظ سے اب ساتویں بڑی زبان ہے، اس سے پہلے یہ ملک کی چھٹی سب سے بڑی زبان تھی۔ بھارت میں اردو زبان وادب کا فروغ خواہ تھم سا گیا ہو مگر ’’اردو مافیا‘‘ کا فروغ بہت تیزی سے جاری وساری ہے۔ اردو اداروں کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے، یہ طبقہ بے چین رہتا ہے۔ ان دنوں قومی کونسل برائے فروغ اردو کا ڈائرکٹر بننے کے لئے اردو کے پروفیسروں میں چوہادوڑ مچی ہوئی ہے۔ جو حضرات پہلے سے یونیورسٹیوں ، کالجوں میں اردو کے طلبہ کا مستقبل تباہ کرنے میں مصروف ہیں، اب وہ کونسل کا ڈائرکٹر بن کر اپنی ترقی اور اردو کی تنزلی کو یقینی بنانے کے لئے ،بے چین نظر آرہے ہیں۔ کئی حضرات، وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے دفتر، بی جے پی کے نیتاؤں کے آفس اور آر ایس ایس کے لوگوں کے گھروں کے چکر، محض اس لئے کاٹ رہے ہیں کہ موجودہ ڈائرکٹر کی مدت کار ختم ہوچکی ہے، لہٰذا اب انھیں یہ ذمہ داری سونپ دی جائے اور اردو کی بربادی میں جو کمی رہ گئی ہے، اسے مکمل کرنے کا کام وہ انجام دے سکیں۔ ملک کا یہ تنہا اردوادارہ ہے، جس کا بجٹ کروڑوں میں ہوتا ہے اور لوٹ کھسوٹ کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ پروفیسر حضرات جو پہلے ہی سے یونیورسٹیوں میں لاکھوں کی کمائی کررہے ہیں، اس ادارے کے ڈائرکٹر بن کر سال میں کروڑوں کی ہیرا پھیری کر سکتے ہیں۔این سی پی یو ایل میں، کمپیوٹر اوردیگر سازوسامان کی خرید میں گھوٹالہ پرانی روایت کا حصہ رہا ہے۔اس کی شکایت بار بار وزارت میں کئی گئی ہے۔ مگر روک تھام کیلئے اب تک کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ بدعنوانی کے سبب ہی یہاں کے ایک ڈائرکٹر کو جیل بھی جانا پڑ اتھا ۔ یہ کورٹ کی مداخلت سے ہوا تھا مگر بے شرمی کی انتہا کے وہ جیل میں رہتے ہوئے بھی ڈائرکٹر رہے اور جیل سے باہر آنے کے بعد بھی ،اس عہدے پر براجمان رہے۔ انھیں یہ کرسی ، آخر کارکورٹ کے حکم پر چھوڑنی پڑی تھی،مگر اس کے باجود ان کے بعد کے آنے والے ڈائرکٹر حضرات کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ اردو کے فروغ کے لئے مخصوص دولت کو اپنے فروغ پر دل کھول کر خرچ کیا گیا، دونوں ہاتھ سے عوامی پیسے کی لوٹ کھسوٹ ہوئی اور اردو کی قبر کھودنے کی کوشش میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ ایک ڈائرکٹر صاحب نے تو اپنی ایک ’’شاگردہ ‘‘کو فائدہ پہنچا نے کیلئے ’’ٹی وی شو‘‘بنانے کا بھی اعلان کردیا تھا مگر بعد میں یہ پروجیکٹ کسی کو بھی نہیں دیا گیا کیونکہ اس کے لئے اپلائی کرنے والوں میں بڑے بڑے فلم میکرز شامل تھے۔ اب اگر تجربہ کار فلم سازوں کو چھوڑ کر ایک نوسکھیا لڑکی کو کام دیا جاتا تو سوال اٹھنے لازمی تھے، یہی سبب ہے کہ تقریباً ایک سو فلم سازوں کے انٹرویو کے بعد اس پروجیکٹ کو ہی منجمد کردیا گیا۔ اس قسم کی کئی مثالیں ماضی میں دیکھنے کو ملی ہیں اور اب بھی نظر آرہی ہیں۔
ڈائرکٹر بننے کی ہوس کیوں؟
آج خلافت اسلامیہ دنیا میں موجود نہیں ہے، بھارت سے مسلمانوں کی بادشاہت کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے،ملک کی سیاست کچھ اس انداز کی ہوگئی ہے، جس میں مسلمان بے اثر ہوچکے ہیں۔ ایسے میں طالع آزمامسلمانوں کے لئے چند اردو ادارے، وقف بورڈ اور حج کمیٹیوں کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے۔ کوششوں، سفارشوں اور نیتاؤں کی چاپلوسیوں کے بعد اگر ان میں سے کوئی ادارہ مل جاتا ہے تو انھیں معراج کا احساس ہوتا ہے ،زمین پر پاؤں نہیں پڑتے اورقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،کا ڈائرکٹر بننا تو گویا خلیفۃ المسلمین بننے جیسا ہے۔ اس کا بجٹ دیگر اداروں کے مقابلے زیادہ ہے اور خردبرد کے راستے بھی کم نہیں ہیں۔ ڈائرکٹر بنتے ہی لوگ اپنے رشتہ داروں، چمچوں اورحاشیہ نشینوں کو نہ صرف جاب دیتے ہیں، بلکہ مختلف کمیٹیوں میں بھی بھر دیتے ہیں، خواہ وہ اس کے لئے کتنے ہی نالائق کیوں نہ ہوں۔ حمیداللہ بھٹ کے بعد این سی پی یو ایل کے جتنے بھی ڈائٹرکٹرآئے، وہ دہلی یونیورسٹی یا جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اردو ڈپارٹمنٹ سے تھے اور اس وقت بھی جو لوگ ڈائرکٹر بننے کے لئے کوشاں ہیں، ان میں بیشترانھیں اداروں سے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جو لوگ پہلے ہی سے روزگار سے لگے ہوئے ہیں، انھیں ’دوہرا روزگار‘ کیوں دیا جاتا ہے؟ آج لاکھوں کی تعداد میں لوگ اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بے روزگار ہیں، انھیں کیوں نہیں ڈائرکٹر بنایا جاتا؟ اس سوال کا جواب بھی سادہ ہے، کہ اردو اداروں پر ’’اردو مافیا‘ ‘ کا قبضہ ہے اور حکومت بھی اسی طبقے کی جانب توجہ دیتی ہے۔ حالانکہ جب کسی یونیورسٹی یا کالج کا کوئی استاد،غیرحاضر ہوتا ہے تو طلبہ کا نقصان ہوتا ہے اور اس کی بھرپائی کہیں سے نہیں ہوسکتی۔دوسری طرف دو، دو اداروں میں اپنی دخل رکھنے والے لوگ دو نوں ہاتھوں سے لڈو اڑاتے ہیں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے مگر وہ ان دونوں میں سے کسی بھی ادارے کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتے، اس کی جانب کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔
قابل غور پہلو!
اردو اداروں پر قابض ’’اردو مافیا‘‘کس طرح سے ان اداروں میں اردو کے نام پرتباہی مچاتا ہے اور اہل اردو کے حق کو مارتا ہے، اس کا اندازہ مجھے گزشتہ دنوں تب ہوا، جب میرے ایک پروجیکٹ کو قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نے مسترد کردیا اور پھر میں نے آر ٹی آئی کے تحت کچھ معلومات نکالی۔ میرے پروجیکٹ کا موضوع تھا ’’اردو شاعری میں ہندوفکر وثقافت‘‘۔ کسی بھی اردو والے کے لئے یہ دلچسپ موضوع ہوسکتا ہے، مگر اسے گرانٹ کے لئے منظور نہیں کیا گیا، جب کہ منظور شدہ کئی پروجیکٹس کے موضوعات پھسپھسے قسم ہیں۔ میرا پروجیکٹ، جن اکسپرٹ صاحب کو دیا گیا، ان کا نام آر ٹی آئی سے ملی معلومات میں ڈاکٹرعبدالناصر بتایا گیاہے جو دہلی کے ہی ایک آیورویدک ویونانی کالج میں لکچرر ہیں، یعنی وہ اردو کے نہیں میڈیکل کے اکسپرٹ ہیں۔ان صاحب کے بارے میں آرٹی آئی میں جو معلومات فراہم کی گئی ، اس کے مطابق آنجناب نے اپنی پوری زندگی میں اردولٹریچر پر محض8عدد آرٹیکل لکھے ہیں، جب کہ الحمدللہ راقم الحروف اب تک تین ہزار سے زیادہ مضامین، دوہزار ٹی وی ایپی سوڈ اور لگ بھگ ایک درجن کتابیں تحریر کر چکا ہے۔ این سی پی یو ایل کا معیار یہ ہے کہ اگر شمس الرحمٰن فاروقی اور گوپی چند نارنگ جیسے اہل اردو کی کتابیں بھی یہاں پہنچیں ،توانھیں غوروفکر کے لئے عبدالناصر جیسے لوگوں کے پاس ہی بھیجا جائے گا۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہاں اردو کے فروغ کے نام پر کیا کام ہورہا ہے۔ میں نے دوبار آر ٹی آئی میں جانکاری چاہی کہ میرے پروجیکٹ پر اکسپرٹ نے جو رپورٹ دی ہے، اسے فراہم کیا جائے مگرآج تک این سی پی یوایل اسے نہیں دے سکا۔ آرٹی آئی کی دوسری اپیل خود ڈائرکٹر ارتضیٰ کریم صاحب کو دی گئی تھی، مگر انھوں نے بھی یہ جانکاری فراہم نہیں کی۔ اسی طرح میں نے ان سبھی پروگراموں کی جانکاری مانگی تھی جن کے لئے این سی پی یو ایل نے لاکھوں روپئے دینے منظور کیے تھے ۔مگر صرف دو پروگراموں کے متعلق ہی جانکاری دی گئی۔ مجھے یقین ہے کہ باقی لوگوں نے صرف پیسے لئے ہیں اور پروگرام نہیں کئے ہیں اور یہ سب ادارے میں اونچے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس اردو ادارے کے معاملات میں خرد برد کی تحریری شکایت، گزشتہ دنوں، میں نے متعلقہ وزارت میں بھی کی تھی اور ایک افسر کو ابتدائی جانچ کی ذمہ داری بھی دی گئی تھی ۔ فی الحال مجھے وزارت کی طرف سے جانکاری دی گئی ہے میری شکایتوں پر این سی پی یو ایل سے جواب مانگا گیا ہے۔ادھر این سی پی یو ایل نے آرٹی آئی کے ذریعے مجھے جو معلومات فراہم کی ہے، اس کے مطابق یہاں، اردو کتابوں سے متعلق جوکمیٹی ہے،اس میں اردو کے لوگ بہت کم ہیں اور دوسرے شعبوں سے متعلق لوگ زیادہ ہیں۔ہمارا اندازہ ہے کہ ان میں بیشتر افراد وہ ہیں، جو یہاں کے ذمہ داروں تک پہنچ رکھتے ہیں اور صرف اسی ’’لیاقت‘‘ کی بنیاد پر ان کے ہاتھوں میں بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں، قلمکاروں، مصنفوں کی گردنیں دیدی گئی ہیں۔انھیں اختیار ہے کہ وہ ذبح کریں، جھٹکا کریں، یا زمین پر رگڑ رگڑ کر ، تڑپا تڑپاکربن پانی ماردیں۔
اردو کے نام پر پیسے کی بربادی کا ایک نیا راستہ
اردو زبان کا فروغ کیوں تھم سا گیا ہے ؟ اس قسم کے سوالوں پر غور کرتے ہوئے، ہم اردو اداروں کے بارے میں بھول ہی جاتے ہیں، جہاں ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جن کے اپنے بچے بھی اردو لکھنے، پڑھنے سے نابلد ہیں۔یہ اردو کے نام پر کمائی کرنے والے خود اپنے بچوں کو اردو لکھنا پڑھنا نہیں سکھاتے۔گزشتہ دنوں این سی پی یو ایل نے اردو کے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں وغیرہ کو انعامات دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔حالانکہ یہ ادارہ وہی کام ٹھیک سے نہیں کرپارہا ہے جو اس کے ذمہ ہے۔ ویسے انعام دینے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ سب جانتے ہیں۔ آج تک شاید ہی کسی اردو ادارے نے کسی مستحق کو ایوارڈ دیاہو۔یہاں بڑے پیمانے پر’’ میچ فکسنگ‘‘ کا کھیل چلتا ہے۔ کرکٹر ہوتے تو پکڑے جاتے مگر یہ تو زبان کے نام پر ہیراپھیری کرنے والے گھاگ لوگ ہیں جن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔کچھ ایوارڈس عہدیداران کے قریبی لوگوں کو جاتے ہیں اور کچھ فیصلہ کرنے والی کمیٹی کے لوگ اپنے چہیتوں کو دلاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اب اگر این سی پی یو ایل ایوارڈ دینے کی شروعات کر رہا ہے تو بدعنوانی اور دولت کے ضیاع کا ایک نیا راستہ کھول رہا ہے۔یہ ایوارڈ کن لوگوں کو دیے جائیں گے؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔کاش جو پیسہ ایوارڈ کے نام پر لٹائے جانے کا پروگرام ہے، اسے اردوخواندگی سنٹر کھولنے پر خرچ کیا جاتا یا جو اسکول اردو پڑھانا چاہتے ہیں، انھیں اردو کے ٹیچر فراہم کرنے پر کیا جاتا۔
پڑھو اردو، بیچو تیل
’’اردو مافیا‘‘ صرف این سی پی یو ایل تک محدود نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں کمائی کے ذرائع ہیں، وہاں وہاں پہنچا ہوا ہے۔ ملک بھر کی اردو اکیڈمیوں کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کی حالت بھی کچھ ایسی ہے۔ اردو کے بہت سے باصلاحیت لوگ، لکچرر بننے کی چاہت میں عمر گنوا چکے ہیں یا پرچون کی دکان کھول کر اپنے بچوں کی پرورش میں لگ گئے ہیں ۔اردو کے شعبوں میں تقرر انھیں لوگوں کا ہوتا ہے جن کے چاچا، ماموں پہلے سے یہاں موجود ہوتے ہیں۔گزشہ دنوں دلی کے پروفیسر صاحب مہاراشٹر کی ایک یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں تقرر کیلئے انٹرویو لینے گئے اور اپنے بھانجے کو ہی لکچرر بنا کر چلے آئے۔ سوال یہ ہے کہ جو ادارے اردو کے نام پر چل رہے ہیں، جب وہاں، باصلاحیت لوگوں کو نوکری نہیں ملے گی؟ ایوارڈ فنکشن بھی فکسڈ ہونگے؟حقدار مصنفوں، شاعروں، قلمکاروں کو گرانٹ دینے کے بجائے، حاشیہ نشینوں،بھانڈوں اور اردو کی چمیلی جانوں پر ، فروغ اردو کے لئے مخصوص رقم خرچ کی جائے گی تو زبان کی ترقی کیسے ہوگی؟
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں