مولانا ندیم الواجدی
رمضان کا مہینہ کس قدر با برکت ہے، اس کا اندازہ کرنا ہوتو سرکار دوعالم ﷺ کا یہ خطبہ ملاحظہ کیجیے جو آپ ﷺنے شعبان کی آخری تاریخ کو ارشاد فرمایا: اے لوگو! تمہارے اوپر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام کو عبادت قرار دیا ہے، جو شخص اس مہینے میں نفلی عبادت کے ذریعے تقرب اِلٰہی کا طلب گار ہوگا، اُسے رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں کے فرض کے برابر ثواب ملے گا اور جو شخص اس مہینے میں فرض عبادت ادا کرے گا، اسے دوسرے دنوں کی ستر فرض عبادتوںکا ثواب ملے گا، یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔
یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ دوزخ سے نجات ہے، جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام (خادم، ملازم) کے کام میں کمی کرے گا، اللہ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اسے دوزخ سے آزادی عطا کرے گا۔ (البیہقی)
یہ ایک جامع خطبہ ہے اور اس میں گویا رمضان کی تمام خصوصیات بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس مہینے میں کیے جانے والے تمام اعمال کا خلاصہ آگیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ جہاں تک رمضان کے روزوں کی فضیلت کا معاملہ ہے، ہر مسلمان اس سے اچھی طرح واقف ہے،خطبے میں سب سے پہلے اس مہینے کو رمضان کا مہینہ کہہ کر اس کی عبادتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح کی عبادتوں پر کس طرح کا اجر ہے، پھر اسے ماہِ صبر قرار دیا گیا ، صبر صرف یہی نہیں ہے کہ انسان بھوک پیاس کے باوجود کھانے پینے سے رکا رہے،بلکہ صبر یہ بھی ہے کہ دوسروں کی اذیتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے، طبیعت کے تقاضے کے باوجود کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔
کان، آنکھ، زبان تمام اعضاء کو ایسے کاموں سے روکے جن میں اگرچہ بڑا مزا ہے، بڑی لذت ہے، مگر وہ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔ان سے بچنا ہی حقیقی نیکی ہے۔ یہی صبر ہے اور اسی پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، اس مہینے کو ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ بھی قرار دیا گیا اور اس میں مومن کے رزق میں برکت بھی دے دی جاتی ہے۔
حدیث شریف میں مواسات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا اور دوسرے کی غم خواری کرنا، ہم مواسات کس طرح کریں، مذکورہ بالا حدیث میں اس کی دو مثالیں اور دو کیفیتیں بھی بیان کردی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ ہم خود ہی روزہ افطار نہ کریں بلکہ ہو سکے تو دوسروں کو بھی افطار کرادیں، اس کی ہمت نہ ہوتو لسّی کے چند گھونٹ ہی پلادیں، یہ بھی ممکن نہ ہو تو پانی سے افطار کرادیں، حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود تو طرح طرح کی نعمتوں سے روزہ افطار کریں اور جو لوگ ضرورت مند ہیں ان کو ایک کھجور کھلا کر اور ایک گلاس پانی پلا کر یہ سوچیں کہ ہم نے روزہ افطار کراکے بڑا ثواب کما لیا ہے۔ دوسرا سبق یہ دیا گیا ہے کہ اپنے ماتحتوں، ملازموں اور نوکروں سے عام دنوں کے مقابلے میں کام کم لیں، آخر وہ بھی روزے سے ہیں، روزے کی حالت میں ہمتیں جواب دے جاتی ہیں، بھوک پیاس کے احساس کے ساتھ کام سے طبیعت اُچاٹ ہوجاتی ہے، اگر ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے اور ان کی ذمہ داریوں میں تخفیف کردی جائے تو یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔
مومن کے رزق میں اضافے کی مصلحت بھی یہی ہو سکتی ہے کہ و ہ خود بھی کھائے، اپنے اہل و عیال کے لیے بھی دسترخوان کو وسعت دے اور ضرورت مند رشتے داروں دوستوں اور پڑوسیوں کا بھی خیال رکھے۔ چناں چہ ایک روایت میںہے کہ تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آچکا ہے تم اس کے لیے نیت پہلے ہی درست کر لو، اس مہینے میں (اپنے اور اپنے اہل و عیال کے) نان نفقہ میں فراخی کرو۔ (کنز العمال)
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رمضان کے مہینےمیں نان نفقہ کے متعلق وسعت سے کام لو، کیوں کہ اس مہینے میں (اپنی ذات پر اور اہل و عیال پر) خرچ کرنا ایسا ہے جیسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ (الجامع الصغیر)
رمضان کو مواسات، ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ قرار دینا، اپنے آپ میں ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ روایات میں ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺرمضان کے مہینے میں قیدیوں کو آزاد کر دیا کرتے تھے اور ہر مانگنے والے کو دیا کرتے تھے۔ (بیہقی شعب الایمان)
حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺسب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کرتے تھے تو آپ اور زیادہ سخی اور فیاض ہوجاتے تھے۔ آپ ﷺبھلائی اور خیر کے کاموں میں تیز ہوا سے بھی زیادہ فیاضی اور سخاوت فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری)
ہم میں سے بہت سے لوگ رمضان کے اس پہلو سے واقف ہی نہیں ہیں کہ یہ ہمدردی کا مہینہ ہے، ہم روزے بھی رکھتے ہیں، نمازیں بھی پڑھتے ہیں، تراویح کی نماز بھی مستعدی کے ساتھ ادا کرتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں، لیکن اس مہینے کا جو پیغام ہے، اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، یقینا ًیہ تمام کام اجرو ثواب کے ہیں اور ایک ایک عمل پر ہمیں ستر ستر گنا ثواب ملنے والا ہے، لیکن یہ ثواب تو صرف ہمیں ملے گا، ہمارے ذریعے دوسروں کو اس ماہ مبارک میں کتنا فائدہ پہنچا، ہم نے رمضان کی مقدس ساعتوں میں کبھی اس سوال پر غور نہیں کیا؟
اس مہینے میں اللہ کی رحمتوں کی وجہ سے اور عبادتوں کے تسلسل کے باعث ہمارے دلوں میں نرمی پیدا ہوجاتی ہے، طبیعت خیر کے کاموں کی طرف مائل ہونے لگتی ہے، ہمیں اپنے دلوں کی اس نرمی اور خیر کی طرف طبیعتوں کے اس میلان سے اس ماہ مقدس میں پورا فائدہ اٹھانا چاہیے،اور فائدہ اٹھانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ہمارے عزیز و اقارب میں، اپنے حلقہ تعارف میں اور پاس پڑوس میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو اپنی کم آمدنی کے باعث اس مہینے کی ظاہری نعمتوں سے مستفید نہیں ہوسکتے، کیا یہ اچھا لگتا ہے کہ ہمارے دسترخوان پر طرح طرح کی نعمتیں سجی ہوئی ہوں اور انواع و اقسام کے کھانے رکھے ہوئے ہوں، دوسری طرف ہمارے قریب کے کچھ لوگ نانِ جویں کو بھی محتاج ہوں یا روکھا سوکھا کھا کر پیٹ بھر رہے ہوں، عید سرپر ہے ہماری ذمہ داری ہے کہ عید کی مسرتوں میں ان لوگوں کو بھی شریک کرلیں جو اپنی تنگ دستی کے سبب اس دن بھی روز کی طرح نظر آنے والے ہیں اور رمضان کو ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ بلا وجہ قرار نہیں دیا گیا، اس میں صاحب حیثیت مسلمانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ ضرورت مند انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری بھی اس ما ہ مبارک کی ایسی ہی عبادت ہے جس پر ستر گنا اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ کیا ہم یہ ثواب کمانے کے لیے تیار ہیں؟
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں