حکیم نازش احتشام اعظمی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا تنازعہ لگاتار بڑھتا جا رہا ہے اور کیمپس میں حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔دھرنا پربیٹھے طلباء جہاں علی گڑھ پولیس جس نے ہمیشہ ہییونیورسٹی کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیاہے ،ہندویوواہنی اور دیگرانتہاپسند تنظیموں کی شرارت کوقابل مذمت اورشرمناک بتارہے ہیں وہیں طلباء اس بات پر مایوسی کا اظہار کررہے ہیں کہ مصیبت کی اس گھڑی میں کوئی بھی سچے دل سے اوراخلاص کے ساتھ ان کا ساتھ نہیں دے رہاہے۔اساتذہ کرام بالخصوص وائس چانسلر نے توکہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ طلباء کے مخلص اور ہمدرد ہیں۔البتہ اب جبکہ یہ قضیہ عالمی میڈیاتک پہنچ چکاہے اور ہرجانب تھو تھو ہورہی ہے تو اپنے اوپر لگی کالک دھونے میں لگ گئے اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ہمہ دم طلبائے یونیورسٹی کے ساتھ ہیں۔سابق رکن پارلیمنٹ اوراے ایم یوکے سابق طلبہ لیڈر محمد ادیب نے شیخ الجامعہ کی تنقید کرتے ہوئے بجاکہا ہے کہ مقامی رکن پارلیمنٹ جو پہلے بھی یونیورسٹی کو اپنی میلی آ نکھوں سے دیکھتارہا ہے ، اس دسویں پاس جاہل ایم پی کو اے ایم یو جیسے باوقار علمی دانشگاہ کی تقریب میں بلایا ہی کیوں گیا؟
یقیناًیہ سوال اپنی جگہ مسلم ہے اورحالیہ فسادات کی جڑمیں جائیں تو معلوم ہوتاہے کہ اس کیلئے تقریب میں
مدعو مقامی رکن پارلیمنٹ پریم کمار گوتم اوروی سی بھی بالواسطہ طور پر ذمہ دارہیں۔دریں اثنا ئعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے طلبہ کے نام جاری ایک اپیل میں درخواست کی ہے کہ مختلف حلقوں سے یونیورسٹی پر ہونے والے حملوں کے پیش نظر وہ جذبات میں بہے بغیر دانش مندی اور سوجھ بوجھ کا مظا ہر ہ کریں۔ وائس چانسلر نے کہاکہ اے ایم یو مشکل دور سے گزر رہا ہے اور اس موقع کا فائدہ اٹھاکر میڈیا کا ایک طبقہ ، خاص طور سے کچھ ٹی وی چینلس آدھی ادھوری معلومات کے ساتھ لگاتار یونیورسٹی کی شبیہ بگاڑ رہے ہیں۔وی سی صاحب اگر اسی بات کو پہلے سمجھ چکے ہوتے کہ گودی میڈیا کرناٹک انتخابات سے پہلے ایشوزکے طور پر اے ایم یو کاا ستعمال کرنے کی تاک میں بیٹھا ہوا ہے یا اسے بیٹھایا گیا ہے اور جیسے ہی کسی یرقانی نیتا کو کسی بھی بہانے کیمپس میں گھسنے دیا گیا فوراً ہی اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کا کھیل شروع کردیا جائے گا۔اگر انہوں نے پہلے ہی احتیاط برتاہوتا تو شاید ڈھائی درجن طلباء سینکڑوں کیلو خون بہنے سے روکا جاسکتا تھااور گودی میڈیا کو ننگا ناچنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔
بہر حال محمد علی جناح کی تصویر پر شروع ہوئے اس ہنگامہ نے کافی شدت اختیار کر لی ہے اور ہندو تنظیموں نے ماحول خراب کرنے کی جو کوشش گزشتہ دنوں شروع کی تھی اس میں پولس انتظامیہ نے ان کی مدد کر کے حالات کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ اے ایم یو طلبا ہندوتوا ذہنیت کے حامل شدت پسند اور مسلح افراد کے ذریعہ یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے کو لے کر جتنا ناراض ہیں، اتنا ہی ناراض پولس انتظامیہ کی جانبدارانہ کارروائی کو لے کر بھی ہیں۔یونیورسٹی اور اسکے مظلوم طلباء کی حمایت میں اب ملک گیر پیمانے پر مختلف یونیورسیٹیوں کی طلباء تنظیموں اورانصاف پسند عوام کا احتجاج بھی شروع ہوگیا ہے۔مختلف پارٹیوں کے سیاسی لیڈران بھی اس مسلح دہشت گردی کے خلاف طلبائے علی گڑھ کی حمایت میں اتر آئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جے این یو طلبا یونین کی صدر گیتا کماری، راجیو سنگھ ، راماناگا، موہت پانڈے، نجیب کی فیملی، جامعہ سے میران حیدر، بپت شدادھا وغیرہ یہاں آکرطلباء کے احتجاج کی حمایت کررہے ہیں۔علی گڑھ کے طلبا کی حمایت میں مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی رام پور، شبلی کالج اعظم گڑھ، لکھنو یونیورسٹی، الہ آباد یونیورسٹی، حیدرآباد یونیورسٹی،للت نارائن مشرمتھلا یو نیو ر سٹی دربھنگہ اوربنارس ہندو یونیورسٹی کے طلبا صدر دیپک راج گروہ کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور فرقہ پرستوں کے خلاف حکومت سے کارروائی کا مطالبہ کیاگیا۔اب آئیے اس جڑکو سمجھیں جو یونیورسٹی پر دہشت گردانہ حملے کرنے کا بنیادی طور پر ذمہ دار ہے۔اس سلسلے میں عرض ہے کہ بات شروع ہوئی تھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آر ایس ایس کی شاکھا کھولنے کی درخواست سے، جسے کسی بھی حال میں قبول نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آر ایس ایس خود کو ایک ثقافتی تنظیم باورکرانے کے جھوٹے اعلا نا ت کرتی ہے، لیکن اس کی حقیقت کیا ہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے، سنگھی انتہاپسندانہ پالیسی اور نظریات سے ساری دنیا واقف ہے۔بات یہاں سے اچانک جناح کی تصویر تک پہنچ گئی۔جناح کی تصویر ایک تاریخی نشان کی طرح گزشتہ 80 سال سے یونین ہال میں لگی ہوئی ہے۔ ہوا یوں کہ 1938 میں یونین نے جناح کو اسٹوڈنٹس یونین کی لائف ٹائم ممبر شپ کے اعزاز سے نوازا تھا، اس میں کوئی ایسا اعتراض اس وقت نہیں کیا گیا کیوں کہ باقی رہنماؤں کی طرح جناح بھی ایک ہندوستانی رہنما تھے۔ جناح کی طرح، نہرو ، آزاد اور گاندھی جی کی بھی تصاویر یونین ہال میں موجود ہیں۔ البتہ ساورکر اور گوڈسے کی تصویر نہیں ہے، جس سے آر ایس ایس کو بے پناہ محبت ہے۔جناح کی اس تصویر کا کوئی ذکر آج تک نہیں ہوا اور نہ جناح کے بارے میں کبھی کوئی بات ہوئی، نہ ہی گوڈسے کے مجسموں کی طرح کبھی کسی کی گلپوشی ہوئی۔ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کسی نے تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جیسا کہ آج ہندو توا د یو ں کا روزانہ کا کام بن گیا ہے۔ دھیان رہے کہ تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ صرف خود کو دھوکہ دینا ہوتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ساؤتھ ایشیا سالیڈاریٹی گروپ (ایس اے ایس جی) کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر ہندوتوا بلوائیوں کے وحشیانہ حملے کی سخت مذمت کی گئی ہے جس میں گزشتہ بدھ کئی طالب علم زخمی ہو گئے تھے اور بہت سوں کو شدید چوٹیں آئی تھیں۔یعنی اب یہ معاملہ ہندوستان تک محدود نہیں رہ سکا بلکہ فطائی شرارت کی خبریں عالمی میڈیا تک پہنچ چکی ہیں۔ایس اے ایس جی کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اس حقیقت کے تناظر میں کہ جناح کی تصویر طلبا یونین کے ایک کونے میں اْس وقت بہت سے سیاست دانوں کے ساتھ 1938 سے لگی ہوئی ہے اور 80 سال بعد ہندوتوا گروپوں کا اچانک اس کے خلاف مظاہروں کا خیال جاگا ہے اس سے ان کے حقیقی اور مذموم ارادے بالکل واضح ہو جاتے ہیں، یعنی نفرتوں کو پھیلا یا جائے اور 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کے حق میں ووٹ جمع کئے جائیں۔ اے ایم یو پر حملہ کرنے سے پہلے ہندوتوا کے اقتدار کے ان حامیو ں کو اپنے قائد لال کرشن اڈوانی سے سوال کرنے چاہئے تھے اور بی جے پی کے بانی ممبرجسونت سنگھ کی کتاب پڑھنی چاہئے تھی۔ دونوں ہی نے جناح کی تعریف کی ہے‘‘۔مگرسچائی یہ ہے کہ جب کوئی تشدد منصوبہ بند ہوتواس کو انجام دینے والے نہ کسی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اورنہ انہیں اس بات کا احساس رہتاہے کہ ان کے قدموں سے ملک ،حکومت اور سماج کی رسوائی ہوگی اور ساری دنیامیں ان کے تشدد کی وجہ سے براہ راست حکومتیں تنقیدوں کا نشانہ بنتی ہیں ۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ’’ ہندوستان میں دندنا رہی فسطائی طاقتیں اختلاف رائے اور آزادی اظہار کے حق سے عوام کو محروم کرنا چا ہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پہلے جے این یو پر حملہ کیاجادھو پور یونیورسٹی ان کی شرانگیزیوں کے زدپر ہے،کچھ دنوں پہلے بنارس ہندو نیورسیٹیوں کی طالبات بھی زعفرانی ماحول میں انسانیت اور شرافت کو شرمندہ کی کرنے وجہ سے اپنااحتجاج درج کراچکی ہیں اور اب ان کے نشانے پر اے ایم یو ہے۔یہ بات خاص طورپر قابل مذمت ہے کہ اتر پردیش پولیس نے حملہ آوروں کی مدد کی جن شرپسندوں کا تعلق اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ کی تنظیم ہندو یووا واہنی سے ہے۔بہر حال یہ بات’’کسی کو پسند ہو یا نہ ہوجو واقعات تاریخ میں واقع ہوچکے ہیں انہیں تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ عالمی شہرت یافتہ الیکٹرانک صحافی رویش کمار نے تو یہی بات کئی دن پہلے مفصل طریقے سے اپنے بلاگ میں اور پرائم ٹائم شو میں بھی کہی ہے کہ جناح اور یونیورسٹی ایک تاریخ ہے اوراس کی تصویر کو ہٹاکر ہندوتوا کے غنڈے اس تاریخی حقائق کو بدل نہیں سکتے۔ اور تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جناح جنگ آزادی میں حصہ لیا اور نوآبادیاتی نظام کے سب سے بڑے مخالف شہید بھگت سنگھ کا مقدمہ لڑا تھا۔جس جناح کو یرقانی گروہ مسلمانوں کے سرپر اپنے گودی میڈیا کے ساتھ مل کر تھوپنا چاہتاہے، اسے ہندوستان کے وفادار مسلمان 1947میں ہی مسترد کرچکے ہیں ۔ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ہندو انتہا پسندی کے معمار وی ڈی ساورکر نے خود دو قومی نظریہ تشکیل دیا تھا اور جناح کی مانگ سے 16 سال قبل تقسیم کا مطالبہ کیا تھا،لیکن ہمارے لئے یہ موضوع بحث نہیں ہے ۔اطمینان کی بات یہ ہے کہ جس مقصد کیلئے فرقہ پرست عناصر نے اے ایم یو میں شرانگیزی کی تھی وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا اورامید ہے کہ اگر مظلوم طبقات نے اسی طرح سوجھ بوجھ اور تحمل سے کام لیا تو آئندہ بھی یہ عناصر اسی طرح منہ کی کھاتے رہیں گے۔
09891651477
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں