میم ضاد فضلی
سعودی عرب کے ولی عہدپرنس محمد بن سلمان نے عمائدین یہودی تنظیموں کے سربراہ سے ملاقات کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو امریکہ کی جانب سے تجویز کردہ امن معاہدے کو قبول کرنا ہوگا یا اسے اپنی بکواس بند کرنی ہوگی۔انہوں انتہائی بے شرمی سے دوٹوک لفظوں میں کہا ہے کہ سعودی عرب کو اس کے ذاتی بہت سے مسائل ہیں، لہذا فلسطین ہماری پہلی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔بتایا جاتا ہے کہ محمد بن سلمان کی اس غیر متوقع دھمکیوں کو سننے کے بعد شرکاء اپنی کر سیوں سے اوندھے منہ گرپڑے۔
اب سوال یہ ہے کہ قیام امن کیلئے امریکہ اپنی جن شرطوں کو قبول کرنے پرفلسطین کومجبور کررہا ہے بادی النظر میں اسے کوئی قوم قبول کرسکے گی یانہیں؟ اور کرے گی بھی تو اسے خود کشی کے مترادف ہی کہا جائے گا۔ میر ی معروضات کو قدرے وضاحت سے سمجھئے تو شاید
بات اچھی طرح سمجھ میں آسکے ۔اس میں دو رائے نہیں کہ کوئی بھی طاقتور اورسپرپاور حکومت کی طرف سے کسی بے بس ریاست کے اندرقیام امن کیلئے جو شرائط رکھی جاتی ہیں اس میں کمزور طبقے یا ریاست کا دھیان نہیں رکھا جاتا۔ذرا ماضی میں جاکر دیکھیں تو معلوم ہوگا کی اسرائیل ۔ فلسطین کے درمیان مصالحت کرانے کی غرض سے امریکہ ہمیشہ مذاکرات کا یکطرفہ ایجنڈا پیش کرتارہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے بنائے گئے معاہدہ نامے اور ایجنڈے ہمیشہ جانبدار رہے ہیں اور اس نے جب بھی دونوں ممالک کے درمیان قیام امن کیلئے ایجنڈے یامفاہمت نامے پیش کئے ہیں اس میں اسرائیل کے مفادات کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ امریکہ کی یہ چال اورپالیسی اتنی جانبدارانہ اور واضح رہی ہے کہ وہ ہمیشہ ننگا ہوتا رہا ہے اور اس کے اسرائیل نواز اور فلسطین مخالف ایجنڈوں کی دنیا بھرمیں تنقید کی جاتی رہی ہے۔ امریکہ اسرائیل سے کس درجہ قربت رکھتاہے اس کی زندہ مثال ظالم ٹرمپ کی وہی پالیسی ہے جس کے تحت اس نے کہاتھا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر امریکہ قبول کررہا ہے اور اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کے احکامات ت بھی نامعلوم باپ کی اولاد ٹرمپ نے دے دیے تھے۔ اس کی دوغلی پالیسی کا واضح ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ جب2012میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو ممبر بنایا تو امریکہ نے اس فیصلہ کی شدید مخالفت کی تھی۔ کیا ان سارے حالات کے باوجود یہ مانا جاسکتا ہے اسرائیل ۔ فلسطین کے درمیان قیام امن اور سمجھوتہ کیلئے امریکہ نے جو صلح نامہ بنایا ہوگا اس میں مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کی کوئی بات ہو گی۔ اگر آج تک وہاں امن معاہدے کی تمام کوششیں ناکام ہوتی رہی ہیں تو اس کا سبب امریکہ کی یہی دوغلی پالیسی رہی ہے، اس نے یہاں کے مسائل کو ہمیشہ ایک آنکھ سے ہی دیکھا ہے۔تاہم اب تک فلسطینیوں کیلئے اطمینان بخش بات یہ رہی ہے کہ اوپری دل سے ہی سہی مگر سعودی عرب فلسطینیوں کے مفادات کے بارے میں بولتا رہا ہے ۔محمد بن سلمان کو شاید یہ بات بخوبی معلوم ہوکہ اس کے جد امجد شاہ فیصل کی شہادت کے سلسلے میں بھی تجزیہ نگاروں کا ایک طبقہ بارہا یہی کہتا رہا ہے کہ انہیں موت کے گھاٹ اتار نے میں امریکہ کا ہی ہاتھ تھا جو فلسطین کے امور میں کھل کر بولا کرتے تھے۔حالاں کہ خلیجی ڈپلومیسی اور سیاسی امور کے ماہرتجزیہ نگاروں کا ایک خیال یہ بھی رہا ہے کہ خلیج میں اس وقت اسرائیل کا سب سے بڑا بہی خواہ اور ہمدرد ملک سعودی عرب ہی ہے، مگر سعودی حکمران ظاہر میں کچھ ہمدردی کے الفاظ بول کر فلسطینیوں کی دعائیں لینے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں،اس کی سوچ یہ رہی ہے کہ دنیاکے مسلمانوں کو مسئلہ فلسطین کے تعلق سے بے وقوف بناتے رہیں اوراپنے اجداد اسرائیل اوراپنے آقاامریکہ سے رشتے میں کوئی ترشی بھی نہ آئے۔
تجزیہ نگاروں کی اس رائے کے پیچھے کچھ حیرت انگیزاور خاص دلائل بھی ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اور وہ ہے سعودی فرمانرواؤں کایہودیوں سے نسلی تعلق۔ایسے میں اگر حجاز مقدس کے غاصب حکمراں مذہب سے اوپر جاکر اپنے باپ دادا کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔اسرائیل و آل سعود کے مذاہب اگرچہ الگ ہوگئے ہوں مگر دونوں کا نسلی رشتہ برقرار ہے اورایک ہی خون دونوں کی رگوں میں دوڑ رہاہے۔لہذا شاہ سلمان کے ولی عہد نے کچھ نیا نہیں کیا ہے ،البتہ جو کام پرنس محمد بن سلمان کے باپ دادا نہیں کر سکے اس حوصلہ آزما کام کو پورا کرنے کی ہمت وہ دکھا رہے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ویسے بھی ان کے یہاں الگ مذہب پر قائم رہتے ہوئے عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں شادی بیاہ جائز ہے۔لہذاولی عہد کے اس بیان پر مسلمانوں کو بوکھلانا نہیں چاہئے ،بلکہ اس سے سبق لینا چاہئیاورمسلمانان عالم کویہ بات گانٹھ میں باندھ لینی چاہئے کنعانہ کا یہ یہودی خاندان بھلے سے مذہب اسلام کومانتاہے مگر مسلمانوں کے مقابلے زیادہ ہمدردی یہودیوں سے رکھتاہے ، اس کے ذہن میں اقتدار اور اپنے یہودی بزرگوں کے مفادات سے سب سے زیادہعزیزہیں۔ محمد بن سلمان نے اس حقیقت کو اپنے بیان کے ذریعہ مزید واضح کردیا ہے،جوطبقہ یہود نواز شاہ خاندان کا کاسہ لیس ہے اسے بھی محمد بن سلمان کے حالیہ بیان سے شدید تکلیف پہنچی ہے ،ان کا خیال تھا کہ جس طرح یہ یہودی خاندان درپردہ اسرائیل کی حمایت کررہاتھا اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو الوبنارہا تھااسی راہ پر گامزن رہنا چاہئے اور اس راز کو افشاں نہیں کرنا چا ہئے ۔مگرواقعہ یہ ہے کہ سچائی ہمیشہ پردے میں نہیں رہ سکتی ،اسے کسی نہ کسی بہانے منظر عام پر آناہی پڑتاہے اور شاطروں کی زبان سے ہی مظلوموں کارب اس کوظاہر بھی کرادیتاہے۔
مسلمانوں کیلئے باعث اطمینان بات یہ ہے کہ یہ راز اسرائیل کے گریٹر اسرائیل کے خوابوں کی تکمیل سے پہلے ہی افشاں ہوگیا، وہ کام جو شاہ خاندان کے وڈیریپچھلے دروازے سے کرتے تھے وہی کام محمد بن سلمان سامنے آکر کر رہے ہیں تو اس میں حیرت کی کونسی بات ہے۔
خبروں کے مطابق پرنس محمد بن سلمان نے متاثر کن یہودی تنظیموں کے سربراہ سے ملاقات کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی یاتوامریکہ کی جانب سے مجوزہ امن معاہدے کو قبول کریں یا اپنی بکواس بند کردیں،شاہ سلمان کے بیٹے کو اقتدار کے غرور نے اتنا اندھا کردیا ہے کہ اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ ظلم کا نشانہ بنائے گئے لوگوں کے دل پر کیا گزرتی ہے جن سے جبراً ان کے آشیانے چھین لئے جاتے ہیں اورخاموش شب کے سناٹے میں ان کے گھروں پر بموں کی بارش کرکے پوری نسل کا نام و نشان مٹادیا جاتاہے۔عیاشی کرنے والے وڈیروں کی اولادوں کو ایسے مظلوموں کے درد کا احساس کبھی نہیں ہوسکتا۔محمد بن سلمان پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اپنے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے کوئی پالیسی مرتب کررہا ہے تو اس میں وہ پوری طرح آزاد ہے۔انہوں نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب کو اور بھی بہت سے مسائل ہیں، لہذا فلسطین اس کی پہلی ترجیح نہیں ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی دورے میں 27 مارچ 2018کو پرنس محمد بن سلمان نے نیویارک میں امریکہ کی مختلف تنظیموں کے سربراہوں کے ساتھ ایک بند کمرے میں ملاقات کی تھی،جس میں محمد بن سلمان نے اس اجلاس میں فلسطینی صدر محمود عباس کی سخت تنقید کی تھی۔ یہ معلومات اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایک سفارتی کیبل سے حاصل کی گئی ہے، جسے نیویارک میں اسرائیلی قونصل خانے میں بھیجا گیا تھا۔علاوہ ازیں 3 امریکی اور اسرائیلی لوگوں کو ہی اس خفیہ میٹنگ کے سلسلے میں بتایا گیا تھا۔
یہودی تنظیموں کے سربراہوں کے ساتھ اجلاس میں محمد بن سلمان نے کہا کہ فلسطینیوں کو آزادی کیلئے اپنی جدوجہد چھوڑ کر امریکہ کے ذریعہ تھوپے گئے امن معاہدے کی پیشکش کوقبول کرلینا چاہئے۔
محمد بن سلمان نے یہودیوں مذہبی سربراہوں کے درمیان کہاکہ’’ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران، فلسطینیوں نے تشدد کی قیادت کی اور امن کیلئے امریکہ کی قراردادوں کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ فلسطینیوں کو امن کی پیشکش قبول کرنی چاہئے یا بات چیت کرنے کے لئے آگے آناچاہئے یا انہیں آزادی کیلئے اپنی بکواس بند کردینی چاہئے۔ ان خیالات کے اظہار کیلئے محمد بن سلمان نے فلسطینیوں کے لئے ’’شٹ ڈاؤن‘‘ کا لفظ استعمال کیاتھا۔
محمد بن سلمان نے یہودیوں کے ساتھ مل کرفلسطینیوں کے سامنے یہی دو نکات پیش کیے ہیں۔اس موقع پر انہوں نے یہودیوں پریہ واضح کر دیا کہ فلسطینیوں کا مسئلہ سعودی حکومت یا لوگوں کی پہلی ترجیح نہیں ہے، کیونکہ سعودی عرب کے بہت سے دوسرے مسائل ہیں جو فوری طور پر نمٹنے کے لئے ضروری ہیں۔محمد بن سلمان نے یہودی تنظیموں کے قائدین کو یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ نہ صرف سعودی عرب بلکہ تمام خلیجی ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے مذاکرات میں بڑی پیش رفت کریں گے۔
ویب سائٹ نے اپنے ایک ذریعے (جو اس میٹنگ میں موجود تھا) کے حوالے سے کہاہے کہ جب اس میٹنگ میں شریک (یہودی تنظیموں کے سربراہان) نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی فلسطین کیخلاف یہ باتیں بغورسنیں تو کسی کو بھی یقین نہیں آیا اوران کی کرسیاں ڈگمگانے لگیں۔
غور طلب ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل ۔فلسطین امن معاہدے کا ڈرافٹ مکمل ہو چکاہے۔واضح رہے کہ یہ معاہدہ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوری کوشنیر نے مرتب کیا ہے، وہ پہلے سے ہی اس معاہدے پر محمد بن سلمان کو اعتماد میں لے چکے ہیں ۔خیال رہے کہ ’’ جیرڈ کوری کوشنیر‘‘ایک بااثر یہودی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور ان کی بیوی اور امریکہ کی دختر اول ایوانکا ٹرمپ نے بھی شادی کے وقت عیسائی مذہب ترک کرکے یہودی مذہب کوقبول کر لیا تھا۔ہم نے اس امن معاہد کے متعلق شروع میں ہی ساری تفصیل پیش کردی ہیں کہ امریکہ کے سرکاری داماد کے ذریعہ تیار کردہ وہ مسودہ کتنا شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوگا۔
08076397613
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں