*ایم کے احسانی
ملک میں کسانوں کی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ناسک سے ممبئی کی دوری ۶۶ ۱ کیلومیٹر ہے۔لاکھوں کسان غصہ میں ناسک سے ممبئی کے لیے کوچ کر گئے۔مہاراسٹر سرکار کو جھکنا پڑا اور انکے مطالبات کو تسلیم کیا جسکے بعد ہی کسانوں کی واپسی ممکن ہو سکی۔ایسا ہی نظارہ جمعرات کے روز لکھنؤ میں دیکھنے کو ملا۔لاکھوں کسان لکھنؤ کی سڑکوں پر نظر آئے۔انہیں امید تھی کہ انکے مطالبات بھی مہارسٹرا کے کسانوں کی طرح تسلیم کر لیے جائیں گے۔حالانکہ زراعت ماہرین اور اقتصادی منصوبہ بنانے والے اور کسانوں کے رہنما بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قرض کی معافی یا پیداوار کے مطابق کم سے کم قیمتوں کا تعین مسائل کا ٖ صرف فوری حل ہی ہے۔لیکن انکے بنیادی مسائل کے حل کی تلاش ہنوز جاری ہے۔حقیقت تو یہ بھی ہے کہ کسانوں کا مسئلہ دنیا کے تمام ممالک میں ہے اور سبھی اپنی اپنی طرح مسائل کا حل تلاش کرنے میں لگے ہیں۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم فوری راحت دینے سے آگے کی نہیں سوچ رہے ہیں۔ہندستان کی زرعی صورتحال سنگین بحران سے دوچار ہے۔کسان یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ انکے مسائل کا انکے سڑک پر اتر جانے ہی ممکن نہیں بلکہ بنیادی مسائل کا حل سنجیدگی کے ساتھ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ملک کی ہر ریاستوں کے کسان کے مسائل جدا جدا ہیں۔ایک مسئلہ کامن ہے کہ کسانوں کو انکی پیداوار کی مناسب قیمت ملے جس سے انکو فائدہ ہو سکے۔
پنجاب میں کھیتی سب سے اہم مانی جاتی ہے۔گیہوں کے معاملے جہاں پنجاب آگے ہے وہاں گنا کی کھیتی میں مہاراسٹرا سر فہرست ہے۔ویسے پیاز کے لیے ناسک مشہور ہے تو چاول کے معاملے میں بہارکا نام بھی لیا جاتا ہے۔تاہم بہار کے کسانوں کا مسئلہ اسقدر سنگین نہیں ہے کہ انہیں خودکشی کے لیے مجبور ہونا پڑے۔حکومت بہار نے کئی روڈ میپ جاری کیے ہیں لیکن وہ یہ بتا نہیں رہے ہیں کہ ان روڈ میپوں کے نتائج کیا رہے ہیں۔کسان آگے بڑھے یا اسی طرح مسائل سے گھرارہے؟ یہ سوال سب سے اہم ہے۔بہار کا سب سے برا مسئلہ منظم کھیتی کا فقدان ہے۔جب کسانوں کو کوئی متبادل دکھائی نہیں دیتاتب انہیں سڑکوں پر آجانے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔سیکڑوں کیلو میٹر کا سفر کوئی آسان کام نہیں ہے۔آفرین کسانوں کے عزائم کو جب وہ ۱۶۶ کیلومیٹر کی دوری سے بھی خائف زدہ نہیں ہوئے اور خکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ہم یہ مانتے ہیں کہ سبھی ریاستی حکومتوں کو کسانوں کے مسائل کے حل کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔پنجاب کی معیشت زراعت پر منحصر ہے جہان بہار کے مزدور انکی ضرورت بن چکے ہیں۔پنجاب ایک ایسی ریاست جہاں دس سال میں کسانوں کے سبھی قرض معاف کر دیے گئے اور انہیں مفت بجلی بھی دی جا رہی ہے۔پیداوار کے لیے کم سے کم حمایتی قیمت دینے کے لیے سرکار کی مشنری سرگرم ہے۔کسانوں کے مسائل کو گہرائی کے ساتھ سمجھنا بہت آسان نہیں ہے لیکن چند بنیادی باتوں کو تو سمجھا ہی جا سکتا ہے۔زرعی معاملوں کے جانکار یہ مانتے ہیں کہ ایک دہائی میں پیدہوار میں اضافہ ہواے۔جس سال کسانوں کاپیداوار بڑھتا ہے اس سال بازار میں قیمتیں گھٹتی بھی ہیں۔ملک میں ترقی کی شرح نمو ۷ فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔زراعت کے معاملے کی رفتار سست ہے۔جب بازرمیں قیمت گھٹتی ہے تو کسانوں کو نقصان ہوتا ہے۔
اس میں شک نہین کہ کسانوں کا مسئلہ بین لاقوامی ہو چکا ہے ،لیکن ہمارے ملک کے کسان کئی ریاستوں میں زیادہ پریشان ہیں۔کچھ ریاستی حکومتیں ۴۔۵ فیصد کی شرح سے قرض دیکر واہ وہی ضرور حاصل کر لیتی ہیں لیکن کسانوں کے بنیادی مسائل کے حل کی طرف دھیان نہیں دیتی ہیں۔کسانوں کی بڑھتی بے چینی ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کر سکتی ہے۔کسانوں کے مسائل پرسیاست کی نہیں بلکہ انکے حل کی کوششوں پر دھیان مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت بہار کسانوں کے معالے کو ترجیح دینے کا کام ضرور کر رہی ہے لیکن جس روڈ میپ کی بات کر رہی ہے اسکی کامیابی یا ناکامی کی تفصیلات سے عوام کو باخبر کرانا بھی ضروری ہے۔زرعی بحران پر قابو پایا جانا آج وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔
(بشکریہ یو این این)
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں