سندی تحقیق کے معیار کی بقا کے لیے عرق ریزی ناگزیر:شاہدمہدی

0
2121
تصویرمیں مائک پر سید شاہدمہدی،سیدرضاحیدر،پروفیسر ارتضی کریم،پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی،پروفیسر طلعت احمد،مصاعد قدوائی،عارف نقوی ، پروفیسر چندر شیکھر اور ڈاکٹر نریش 
All kind of website designing

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان و غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی ریسرچ اسکالر سمینار کا آغاز

نئی دہلی:قومی کونسل براے فروغ اردو زبان اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام بین الاقوامی ریسرچ اسکالر سمینار کی افتتاحی تقریب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ریسرچ کے حالات اب اس لئے اچھے نہیں رہے چوں کہ اس کا تعلق اب جاب سے ہوگیا ہے۔ حالاں کہ اس بھی اپنی مجبوری ہے۔ سہولت کی کمی اورا س کی زیادتی دونوں ہی تعلیم کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یہ ایک اچھا فورم ہے۔ جہاں آپ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں۔ یہاں افتتاحی اجلاس میں رسمی کم ضروری باتیں زیادہ کہی گئی ہیں۔ تحقیق کے معیار کے زوال کے معاملے میں ریسرچ سپر وائزر بھی ذمہ دار ہیں۔ بلکہ برابر کے ذمے دار ہیں، معیار اور زوال دونوں معاملے میں نظام پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ریسرچ کے معیاری کام کو بھی نظرمیں رکھنا چاہیے۔ تحقیقی کام پر عرق ریزی کی اشد ضرورت ہے۔ مثالی تحقیقی کاموں کو ہم طلبہ کو دکھائیں اور انہیں پڑھائیں۔ تاکہ وہ عملی طور پر اس سے روشنی حاصل کرسکیں ۔
مہمان خصوصی کی حیثیت سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد نے کہا کہ میں جب سے جامعہ میں آیا۔ اس سمینار میں شامل ہواہوں، میں اپنے ریسرچ اسکالروں سے یہی کہوں گاکہ آپ اعلی درجے کی تحقیق کریں اور اردو کی اس روش کو ختم کریں ،جو اب تک جاری ہے۔ سائنس میں ریسرچ کا معیار آگے بڑھ رہا ہے ۔ توزبان وادب کی ریسرچ کا معیار کیوں زوال کی طرف گامزن ہے۔اس سوال پر غورکرنے کی ضرورت ہے ۔ اچھے معیار کا ایک پیپر بھی آپ کو جاب دلاسکتا ہے۔اس لئے زود نویسی نہیں معیار پر توجہ دیں۔ مجھے لگتا ہے اردو وفارسی میں بھی ماسٹرز کی سطح پر پیپر لکھوانا چاہیے۔ آپ کا دائرہ بڑا ہونا چاہیے۔ آپ کے پاس زیادہ سہولتیں ہیں اور آپ کے پاس ڈیٹا بھی زیادہ ہے۔ اگر آپ نے وقت کی اہمیت کو سمجھاتو سمجھ لیں کہ وقت بھی آپ کیساتھ انصاف کرے گا۔
مہمان ذی وقار کی حیثیت سے جرمنی سے تشریف لائے معروف اسکالر عارف نقوی نے کہا کہ ہم تو یہاں یہ بھی دیکھنے آئے ہیں کہ یہاں کیا کام ہورہاہے تاکہ ہم جرمنی میں اس پر عمل کرسکیں۔ ہمیں تحقیقی کام پر زیادہ زور دینا چاہیے، ہماری ریسرچ کی زبان ایسی ہونی چاہیے تاکہ بعد کے طلبہ کو پڑھنے میں آسانی ہو۔ہمیں روایتی طریقے سے آگے بڑھ کر عالمی نقطہ نظر کے ساتھ ریسرچ کرنی چاہیے ۔مجھے اردو کا مستقبل کافی شاندار لگ رہاہے میں اردو کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں۔
مصاعد قدوائی، وائس چانسلر،جامعہ اردو، علی گڑھ نے بحیثیت مہمان ذی وقار کہا کہ زبان وادب کسی مذہب وقوم تک محدود نہیں ہوسکتے۔ تحقیق کا کام زندگی کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے نوجوانوں میں جستجو ہواور وہ لگن کیساتھ تحقیقی کام کرسکیں۔
ممتاز اردو اسکالر ڈاکٹر نریش نے کہا کہ آپ ری سرچ کررہے ہیں، سرچ نہیں کررہے ہیں، سرچ کا کام پہلے ہوچکا ہے۔آپ تحقیق کا کام توکررہے ہیں مگر یہ سوچیں کہ تعلیمی استعداد کے معاملے میں آپ کہاں ہیں، جس ادیب و شاعر پر ہم کام کرنا چاہتے ہیں تو پہلے سے طے کرلیتے ہیں کہ اسے عظیم بنانا ہے،یہ غلط رویہ ہے۔ سہو کہاں نہیں ہوتا ہے۔ ہرشخص سے سہو ہوتا ہے۔ تحقیق میں اس کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔ آپ کی تحقیق کا مقصد ادراک کو وسعت دینا ہے اس کا خیال رکھیں۔
معروف فارسی اسکالر پروفیسر چندر شیکھر،استاذ شعبہ فارسی، دہلی یونیورسٹی نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ ریسرچ کے طریقۂ کار اور نصاب میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ میری تربیت بھی اسی غالب انسٹی ٹیوٹ میں ہوئی ہے۔ آج آپ اپنا نقطہ نظر بدل سکتے ہیں اب تحقیق کے لیے ماحول زیادہ سازگار ہے۔ پہلے جعلی نسخے بہت تیار کئے جاتے تھے،انٹرنیٹ کی اہمیت اور اس کی خرابی اپنی جگہ مگر کوشش کیجیے کہ جو کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور مہیا ہیں تو اسے ہارڈ کاپی پر ہی پڑھیے۔ متن شناسی بہت ضروری ہے۔متن شناسی کے دوران حالات اور جغرافیے پر ضرور توجہ دیں ،مختلف لغات کا استعمال کریں ، فارسی اور اردووالوں سے میری اپیل ہوگی کہ وہ ورناکلر لینگوج ضرور سیکھیں۔ تحقیقی کام صرف سند حاصل کرنے اور لیکچررشپ حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔
پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی، سکریٹری غالب انسٹی ٹیوٹ نے استقبالیہ گفتگو میں کہا کہ میں آپ سب کا پرجوش استقبال کرتاہوں۔آپ سب ہمارے ادارے سے عرصے سے منسلک رہے ہیں۔ آپ سب ہمیشہ ہمارا ساتھ دیتے ہیں ۔ریسرچ اسکالر سمینار کے رواج کا منبع غالب انسٹی ٹیوٹ ہی ہے۔خوشی کی بات ہے کہ اب ہر جگہ ریسرچ اسکالر سمینار منعقد ہورہے ہیں۔غالب انسٹی ٹیوٹ نے اپنے پروگراموں کو بڑے اور معیاری افراد تک محدود نہیں رکھا۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ریسرچ اسکالر باہم ملیں اور ایک دوسرے کے کاموں کو سمجھیں اور ریسرچ کی بہتر تفہیم کرسکیں۔ اس سمینار کا مقصد ریسرچ اسکالروں کا آپسی تبادلہ خیال ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہندوستان اور ہندوستان کے باہر کی یونیورسٹیوں سے بھی اس سمینار کو اچھا ریسپانس ملتا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ اور غالب انسٹی ٹیوٹ جیسے دیگر ادارے فارسی کے فروغ ورواج کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ایک برس کے اندر غالب کی تمام فارسی کتابوں کے تراجم شائع ہوسکیں۔
پروفیسر ارتضی کریم، ڈائرکٹر قومی کونسل براے فروغ اردو زبان نے سمینار کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ دوسروں پر منفی خیالات کا اظہار کرنے بعد اپنا بھی خیال رکھیے۔مستقبل آپ کے ہاتھوں میں ہے۔یہ کتنا بڑا اعزاز ہے کہ اس عمر میں آپ کو ساری سہولیات دی جارہی ہیں۔ ہمارے زمانے میں یہ تصور نہیں تھا۔ آج یہ سب جو ہورہاہے وہ ہمارے زمانے کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ کا دل بہت بڑا ہے انہوں نے ہماری درخواست پر غور کیا اور سمیناروں میں ریسرچ اسکالروں کو موقع ملنے لگا۔یونیورسٹی کا نظام تو وہی ہے مگر آج کیا ہوا کہ ریسرچ پیپر ماخذ کی حیثیت حاصل نہیں کرپاتے ،جب کہ پچھلے زمانے میں اکثر پیپر ماخذ کی حیثیت حاصل کرجاتے تھے،اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اس پر وقت دیں گے، جدوجہد کریں گے تو یقیناً آپ کی کتاب بھی ماخذ کی حیثیت حاصل کرے گی ۔ اردو کو اردو والوں کی نظر لگ گئی ہے۔ یہ معمولی اسٹیج نہیں ہے۔ ملک کے دوبڑے اداروں نے آپ کے اعزاز کے لیے یہ انتظام کیا ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ بیرون ممالک کے ریسرچ اسکالراس سمینار میں شریک ہورہے ہیں ۔ آپ تمام کا بہت بہت شکریہ میں آپ تمام کا استقبال کرتاہوں،میں اس سمینار کو اگزیکٹیو بورڈ میں ڈال دوں گا تاکہ یہ سمینار قومی کونسل براے فروغ اردو زبان کے تعاون اور اشتراک سے کبھی محروم نہ ہو۔
افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سید رضا حیدر، ڈائرکٹر غالب انسٹی ٹیوٹ نے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام پروگراموں میں ریسرچ اسکالر سمینار سب سے اہم ہے، ریسرچ اسکالر سمینارکا سب سے بڑا فائدہ ریسرچ اسکالروں کوہوتا ہے، میری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسکالروں کو شامل کیا جائے،غیر ملکی یونیورسٹیز کے علاوہ ہندوستان کی تقریباتمام یونیورسٹیوں کی نمائندگی یہاں ہورہی ہے ۔ ریسرچ اسکالر سمینار کا بہتر انعقاد اس لیے ضروری ہے کہ آج کے اسکالر ہی کل کے ادیب وناقد ہیں۔انہی کو زبان کی بقا اور اس کے فروغ کو یقینی بنانا ہے۔اس لئے انہیں آگے بڑھانا ناگزیر ہے۔ آج اسکالروں کو تمام تر سہولیات حاصل ہیں۔مگر آج ریسرچ کا معیار کیوں زوال کی طرف گامزن ہے یہ وہ سوال ہے، جس پر ہمیں غور کرنا ہے۔خیال رہے کہ افتتاحی اجلاس میں موجود تمام مہمانوں کا استقبال غالب انسٹی ٹیوٹ کی کتابیں پیش کرکے کیاگیا۔ 
افتتاحی اجلاس کے بعد بین الاقوامی ریسرچ اسکالر سمینار کا پہلا اجلاس منعقد ہوا،جس کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آرٹس فیکلٹی کے ڈین اور شعبہ اردو کے استاذ پروفیسر وہاج الدین علوی اور معروف شاعر و ناقد پروفیسر احمد محفوظ، استاذ شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اور نظامت غزالہ فاطمہ نے کی۔ اس سیشن میں علی ظفر، اسماء، مقصود حسین شاہ، مدثر رشید،محمد ریحان، سیدہ خاتون نے اپنے مقالات پیش کیے۔بین الاقوامی سمینار کے آخری سیشن کی صدارت شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹرابوبکر عباد اورفارسی کے معروف اسکالر ڈاکٹر شمیم الحق صدیقی نے کی ۔ اور نظامت امیر حمزہ نے کی۔ اس سیشن میں نازیہ تسکین،محمد مدثر، موسیٰ، ارشد احمد کوچے، روبی،سعیدالحسن،راشدہ خاتون، نور اشرف نے اپنے مقالات پیش کئے ۔افتتاحی اجلاس سے لے کر شام کے دوسرے اجلاس تک بڑی تعداد میں ہندوستان کی تقریبا پچاس یونیورسیٹیوں کے ریسرچ اسکالرز موجود تھے ۔بیرون ملک میں ترکی ،ایران ،بنگلہ دیش ،جاپان اور ماریشس کے بھی ریسرچ اسکالرز اس سمینار میں موجود ہیں ۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here