اقلیت پر یہ دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اپنی دوسرے درجہ کی شہریت کو قبول کرلیں کیا اکثریت قانونی حکمرانی کو ترک کرکے کیا اپنے نظریہ کی حمایت میں کھڑے ہوسکے گی؟
جولیو رو بیرو(انڈین ایکسپریس 17 ؍مئی 2017ء)
ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین ، ناندیڑ مہاراشٹر
(9890245367)
اس وقت کے آر ایس ایس کے سرسنچالک کے ایس سدرشن سے ملاقات جو بیس برس پہلے ہوئی تھی اس وقت مجھے اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ 85 کے عدد کا کیا مطلب ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی یوپی میں شاندار کامیابی کے بعد میرے ذہن کی آنکھ نے یہ دیکھ لیا کہ وہ 85 کے عدد کا کیا مطلب تھا۔
مجھے اس بات کی وضاحت کرنے دیجئے کہ میری رومانیہ سے لوٹنے کے چند برسوں بعد ہی میرے آئی پی ایس کیہم منصب ڈی ایس وسنت سومنت نے جب آر ایس ایس کے موہن بھاگوت بمبئی آرہے تھے اس وقت ان سے ملنے کے لیے موقع فراہم ہوا کیونکہ موہن بھاگوت میرے ہم منصب کے گھر ہی رکنے والے تھے اور وہاں چند اور مہمانوں کے ساتھ ان سے ملاقات شام کے کھانے پر تھی۔
اس میٹنگ میں میری موجودگی کا احساس کرتے ہوئے ہمارے دوستوں کے اس مجمع کو صرف ایک ہی نکتہ پر توجہ دلائی ، وہ یہ کہ آبادی کا 85 فیصد حصہ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ دوسرے درجہ کے شہری ہیں۔ جب انہوں نے اس الزام کو متعدد بار جب دوہرایا تب میں نے محسوس کیا کہ انہیں مسلم اور کرسچن اقلیتوں کے بارے میں کہنا ہے کہ کس طرح بیس برس پہلے سے ہی پندرہ فیصد آبادی کی منہ بھرائی حکمراں طبقہ کی جانب سے کی جاتی تھی جس کا انہوں نے اظہار کیا۔
مجھے یاد ہے کہ میں اس عدد 85 پر وہ کس طرح پہنچے تھے؟ وہ یقیناًانہوں نے 85 کے عدد میں سکھوں کا شمار کیا ہوگا۔ جبکہ سکھ بھی اس بات سے خوش نہیں تھے کہ انہیں بھی اس میں شامل کیا جائے۔ مجھے اس وقت سے ہی یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ کس طرح سدرشن یا آر ایس ایس اس نتیجہ پر پہنچے کہ 85 فیصد آبادی کو ان کا مستحقہ مقام نہیں مل رہا ہے۔
ہمارے تمام وزرائے اعظم سوا ایک سکھ کے بقیہ تمام ہندو ہوئے ہیں۔ طاقت کا اصل سرچشمہ وزیر اعظم اور اس کے وزرائے کونسل ہوا کرتے ہیں۔ 85 فیصد سے زیادہ وزراء ہندو رہے۔ بہت سے سرکاری ملازمتوں میں دفاع میں بھی ہندو عہدیدار رہے ہیں۔ پھر کہاں سے سدرشن نے یا ان کی تنظیم نے اس قسم کا جذبہ انحطاط جو 85فیصد پر آجاتا ہے اور جس پر گہن 15 فیصد لوگوں نے لگایا ہے۔
اکثریت میں ہی برہمی کا رحجان یا پھر اکثریت والوں کے طبقہ کے الزامات وہ سب ایم ایس گولوالکر کے فلسفہ پر مشتمل تھے کہ کس طرح وہ کرسچن کے مخالف تھے ۔ کیونکہ ان کا یہ کہنا تھا کہ کرسچن غریب لوگوں کو ، دلت اور قبائلیوں کو تبدیلی مذہب کراتے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ سونیا گاندھی ایک کرسچن کی حیثیت سے پیدا ہوئیں جو اطالوی شہری تھیں۔ جسے ہندوستان کے کروڑوں لوگوں نے اپنا قائد کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔
اسی طرح اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے بارے میں تمام وہ الزامات ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ حکومت ان کی پشت پناہی یا ان کی منہ بھرائی اپنی سیاست کے ووٹ بینک کی خاطر کیا کرتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے تمام سہولتیں اور رعایتیں صرف ان کے مذہبی لیڈروں کی حد تک ہی رہی اور ان کے مذہبی قائدین اپنے پرسنل لاء کے دفاع کا مقابلہ کرتے ہوئے عمریں گزار دیں۔ اس طرح مسلم قوم غربت میں زندگی گزارتی چلی آرہی ہے نہ ان کی تعلیم کی طرف اور نہ ہی صحت کی طرف ، بالخصوص عورتوں کی طرف کوئی توجہ نہ دینے کی وجہہ سے وہ پسماندہ ہوچکے ہیں۔
جبکہ دوسری جانب دلت اور قبائلی جو 85 کے عدد والوں میں سے ہیں ان کا شمار غرباء میں اور بے دخل میں کیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس اس بات پر زیادہ توجہ دیتی ہے کہ انہیں ہندوؤں میں شمار کیا جائے۔ باوجود اس کے ان کے لیے سابقہ سے ہی علیحدگی اور چھوت چھات کے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں اور اس طرح اعلیٰ ذات کے ہندو دلتوں کے خلاف اس نظریہ سے سوچتے ہیں کہ ان کا کام ہی ہے کہ وہ مردہ جانوروں کی کھال نکالیں اور اپنی گزر اوقات کریں۔
جب 1953ء میں انڈین پولیس سرویس میں رجوع ہوا اس وقت میں یہ نہیں سوچتا تھا کہ میں ایک ہندو سرزمین پر کرسچن ہوں۔ میرے تمام رفقاء، میرے سینئر، جونیئرس انہوں نے کبھی مجھے اس بات کا احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ میں ان کے درمیان ایک علیحدہ شناخت رکھتا ہوں۔ اس طرح کا ماحول ہماری پولیس فورس میں تھا۔ جہاں مذہب کی بنیاد پر کوئی تمیز و تفریق نہ تھی۔ میری ملازمت کے ابتداء میں میرے سربراہوں میں وسنت ونایک نگرکر جو پونا کے برہمن تھے اس وقت میں بیچلر تھا انہوں نے مجھے اپنے ساتھ رکھا جہاں ان کی بیوی بچے سرکاری کوارٹر میں رہا کرتے تھے۔ ایک برس قبل ہی ان کا انتقال ہوا۔ میں انہیں بھی آج بہت اخلاص کے ساتھ یاد رکھتا ہوں۔
بیس برس پہلے ہی جب میں سدرشن سے ملا اس وقت سے ذات پات کی سو چ میرے ذہن میں آنی شروع ہوئی یعنی اب پچھلے بیس سال پہلے کی بات ہے۔ اگر اس وقت بھی مودی الیکشن لڑے ہوتے تب ہی وہ کامیاب ہوجاتے۔ لیکن ابھی الیکشن کی کامیابی کے بعد مجھے فوراً وہ 85 عدد کے بارے میں یاد آئی کہ کس طرح اکثریت کی حکمرانی اکثریت کے ذریعے اور اکثریت کے لیے شروع ہوئی ۔
ٹھیک ہے 15اعداد و شمار والے لوگ کسی قسم کی شکایت نہیں کرتے اس قسم کے واقعات کیا دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ہندوؤں اور کرسچن کو اکثر الزام لگایا جاتا ہے کہ کس طرح ان کے مذہب کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ جو اکثر مسلم عناصر کی جانب سے ہوتی ہے۔ اسی طرح جیسے کہ یوپی اور ملک کے دیگر حصوں میں جس طرح گؤرکشک اور اینٹیرومیوں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور پولیس ہمیشہ اس بات کی متقاضی رہتی ہے کہ وہ طاقت و قوت والوں کے ساتھ ہی رہے۔ پہلے مظلوم کو گرفتار کرے۔ بصورت ثانی پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اینٹی نیشنل (اسے اینٹی بی جے پی پڑھئے) ہیں۔ وزیر اعظم یہ دلچسپ اور قبول عام والا نعرہ لگاتے ہیں کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس، لیکن اس کے باوجود مسلم ابھی بھی غریبی و پستی میں ہیں۔ احمد آباد میں دیکھے تو وہاں مختلف جگہوں پر ابھی بھی گندگی اور جانوروں کے رہنے جیسے حالات ہیں۔ اس طرح وہ 15 عدد والے لوگ اب وہ یوں سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے بچے اپنے آقاؤں کے بغیر ہی وہ اپنے ملک میں رہتے ہیں۔ لیکن کس طرح یہ 85 عدد والے لوگ قانون کی حکمرانی کا معیار پیش کرسکیں گے۔ کیونکہ یہاں ان کا توازن بگڑ گیا ہے۔ کیا ان کو یہ قائم رکھنا نہیں چاہئے؟ وہ لوگ جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں اور وہ روایتی طور پر اس کا استعمال کرتے جارہے ہیں لیکن واقف کار لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی ہی میں ترقی اور تہذیب والی قوم بن سکتی ہے۔ اس لیے قوم کی ہمت افزائی کی جانی چاہئے بلکہ انہیں برداشت کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس طرح یہ غیر قانونی عمل ان 85 عدد والوں کے لیے بھی داغدار بن جائے گا جیسا کہ وہ دلت اور قبائل کو سمجھتے ہیں۔ اور اس طریقے سے یہ بگاڑ جو پھیل جائے گا وہ تمام کے لیے نقصاندہ ہوگا۔ بنی نوع انسان کا یہ پکا یقین ہے کہ اس طریقے سے لڑکوں کو سزا دینا یا انہیں ایک کے بعد دیگر کوڑے لگاتے جانا جس کی وجہ سے یہاں کے بچوں کو کامیابی کے ساتھ حاشیہ پر لگادیا جائے گا۔ اس لیے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا استعمال صرف 85 کے عدد کے لیے ہی کام نہیں کرسکے گا جیسا کہ سدرشن ان کے لیے چاہتے تھے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں