یہ انٹرنیٹ نیوز پورٹل بھی آپ کے ہیں۔۔۔خدارا انہیں نظر انداز نہ کیجئے!

0
2111
سوشل میڈیا لوگوز ؛فائل فوٹو
All kind of website designing

میم ضاد فضلی

دور حاضر کے اردوادیبوں کو۔ چاہے ان کا تعلق جدیدیت سے ہو یا ما بعد جدیدیت سے، میں جدید ادیب ماننے سے انکار کرتا ہوں جن کو کمپیوٹر سے ذرا بھی تعلق نہیں ہو،حالانکہ یہ جدید تکنالوجی دور حاضر کی ایک بڑی ضرورت بن چکی ہے۔ آج کا ادیب اکثر اپنے مضامین اردو سافٹ ویر ان پیج یا صفحہ ساز میں ٹائپ کروا کے پرنٹ لے کر رسائل کو بھیجتا ہی ہے، وہ زمانہ تو اب چلا ہی گیا ہے کہ ہاتھ سے لکھیں اور کئی کاپیاں بنائیں۔ اب تو کمپیوٹر کا دور دورہ ہے۔ اور اگر اس دور میں بھی کوئی اس حقیقت سے انکار کرے تو مجھے اس کی اردو دوستی پر شک ہے۔ صفحہ ساز اور ان پیج کا یہ احسان تو ماننا ہی پڑے گا کہ اس نے اردو کو کمپیوٹر ٹائپنگ کی سہولیات فراہم کرکے بہت ساری دقتوں اور ہاتھوں سے کاغذکے سینے سیاہ کرنے کی بے انتہا پریشانیوں سے نجات دلادی ہے۔مگر ان ساری سچائیوں کے باوجود اگر کوئی آن لائن پورٹلس کی اہمیت و مقبولیت سے انکار کرتاہے تو یہی کہا جائے گا کہ انکاری طبقہ ابھی بھی پتھر کے زمانے میں سانس لے رہا ہے ۔خیال رہے کہ اس حقیقت سے انکار کرنے والے طبقہ کی اکثریت طویل العمر بزرگوں کی ہے ،جن کی تعداد روز برز گھٹتی جارہی ہے اب توایسے بزرگ اردو قاریوں کی تعداد جو کاغذی اخبارات تک محدود ہیں فقط 13فیصد رہ گئی ہے۔ جبکہ تازہ دم اور نوجوان اردو طبقہ کاغذی اخبارات میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا اور پورٹل ریڈروں کا تناسب90فیصد سے متجاوز ہے اور غالب امکان ہے کہ آئندہ پانچ دس برسوں میں کاغذی اخبار پڑھنے والے قاریوں کی تعدادگھٹ کر دوچار فیصد تک ہی محدود رہ جائے۔
اطلاعاتی انقلاب اور انفارمیشن تکنا لوجی کی روز بروزبڑھتی ہوئی مقبولیت نے اردوآبادی کو اخبارات کے گٹھر ڈھونے اور اسے محفوظ کرنے کی غیر ضروری دشواریوں سے نکال کر کافی آگے پہنچا دیا ہے۔انفارمیشن تکنالوجی کے ماہرین اور مبصرین کا ماننا ہے کہ اب کاغذی اخبار ات کے دن قصہ پارینہ ہوچکے ہیں ،اب کسی کوبھی دنیا کی سرگرمیوں ،جرائم کی خبروں اور ہر نوعیت کے پروگراموں یعنی دینی ودنیوی اجلاس،سیاسی کانفرنسوں اور دعوتی حلقوں کی ساری تفصیلات جاننے کیلئے کل صبح چائے کی میز پر آنے والے کاغذی اخبارات کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے۔آج کا دور تو جدید اطلاعاتی تکنالوجی کے انقلاب کا ہے۔اب تو خبروں کی ترسیل و اشاعت کا کام عوامی محاورہ ’چٹ منگنی پٹ بیاہ ‘ کی طرح آسان ہوگیا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اب کوئی پروگرام شروع ہی ہوتاہے کہ اس کے ساتھ ہی پروگرام کی لائیو خبریں اور تفصیلات موبائل اور کمپوٹر کی اسکرین پر دوڑنے لگتی ہیں۔
مگر وہ طبقہ جسے ڈھنگ سے اسمارٹ فون پکڑنا بھی نہیں آتا یا درازی عمر کی وجہ سے موبائل پکڑتے ہی ان کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں ،ایسے بزرگوں کی جانب سے اگر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کاغذی اخبارت کی حیثیت ابھی باقی ہے تو یہی کہا جائے گا کہ بڑے میاں آپ کا وقت رخصت ہوچکا۔ آپ موٹی کتا بیں پڑھنے اور تمام علوم وفنون کی معلومات حاصل کرنے کیلئے دیمک اور دھول زہ اور اٹی ہوئی لائبریریوں میں غوطہ زن رہئے ۔اور یہ جان لیجئے !کہ جدید اطلاعاتی تکنالوجی سے آراستہ آپ کی نئی نسل ماضی کا حصہ بن چکی کھنڈروں میں تبدیل لائبر یر یو ں کی محتاج نہیں رہ گئی ہے۔آج کا دور تو ہر نوعیت کی سہولتوں سے آراستہ ڈیجیٹل لائبریری سے استفادہ کرنے کا ہے۔جہاں کا سرچ انجن اس قدر مضبوط ہے کہ کسی بھی موضوع پر ہزاروں سال پہلے جمع کیاگیا علمی مواد ایک کلک پر ہی آپ کے سامنے آجاتا ہے۔
اب ایک خبر کو کسی ایک پورٹل کے ذریعہ واٹس ایپ گروپ اور فیس بک ،ہنگاؤٹ ،ٹیوٹراور ٹیلی گرام ایپ کی مدد سے چند منٹوں میں ہزاروں لوگوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔اس کے برخلاف کاغذی اخبارات کے علاقے اور وقت بھی محدود ہوتے ہیں اور وہاں سے تراشیدہ کٹنگ کو محفوظ رکھنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔جبکہ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل سہولیات نے یہ ساری مشکلات دور کردی ہیں۔اس کے بعد بھی اگر کوئی جدید انفارمیشن ٹکنالوجی کی افادیت سے انکار کرتا ہے تو یہی کہا جائے گا کہ ؂
گرنہ بیند بروز شپرۂ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
ابھی دوتین روز قبل میں ایک جگہ چند صحافی دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ،جہاں باتوں ہی باتوں میں یہ موضوع بھی زیر بحث آ گیا کہ نیوز پورٹل ہر قسم کی بندشوں ،رکاوٹوں اور مفاد پرستی سے لاپرواہ اور چاپلوس اخبار مالکان کے خوف سے آزاد ہوکر ملی وملکی ،سماجی وسیاسی خبروں ،تجزیوں اور تنقیدوں و تبصروں اپنی لگاتار محنتوں اور خلوص کے ساتھ ملک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچا دیتا ہے ،حتی کہ سرحدی چہار دیواریوں کو بے معنی کرکے آپ کی ساری خبروں،سر گرمیوں اور خدمات کوبین الاقوامی سطح پر عام کردیتا ہے۔بعض نیوز پورٹل ایسے بھی ہیں جو سوشل سائٹس کی مدد سے ایک ہی بار میں 40-40ہزار لوگوں تک رسائی حاصل کرچکے ہیں ۔ اس کے باوجود میڈیاکی شکل میں عوامی خدمات انجام دینے والے ان میڈیا پورٹلس کی حوصلہ فزائی نہیں کی جاتی ،ہماری ملی تنظیمیں اور سیاسی وڈیرے اگر ان کی مادی مددکرکے انہیں مضبوطی عطانہیں کرتے اور ملت کی آواز بننے سے انہیں روکے رکھتے ہیں تو یہی کہا جائے گہ ہماری ملت کے عظیم و مخلص قائدین اور ملت کی رفاہی تنظیمیں تنگ نظر،تنگ فکر اور سطحی سوچ کے حامل ہیں۔ ان کی جیبوں سے ان خبارات کیلئے ہزاروں روپے کے اشتہار دیے جاسکتے ہیں، جن کا سرکولیشن200بھی نہیں ہے ۔مگر نیوز پورٹل جو ہمیشہ فعال اور ملت کی چوکیداری میں رت جگا کا کردار اداکرتے ہیں شاید انہیں ہمارے یہ ملی قائدین اپنا نہیں سمجھتے۔ 

8076397613

 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here