دربھنگہ (نمائندہ) معرو شاعر سلطان شمسی کے شعری مجموعہ ’’ریت کا سفر‘‘ کا رسم اجراء المنصورایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ دربھنگہ کے زیراہتمام مقامی ڈان باسکو اسکول، بی بی پاکر، دربھنگہ کے کانفرنس ہال میں زیرصدارت پروفیسرحافظ عبدالمنان طرزی منعقد ہوا جس میں مہمان خصوصی کے طور پر سابق وزیرمملکت امور داخلہ حکومت ہند ڈاکٹرشکیل احمد، مہمانان اعزازی کے طور پر کیوٹی اسمبلی حلقہ کے ایم ایل اے ڈاکٹر فراز فاطمی، ضلع اقلیتی فلاح و بہبود دربھنگہ کے آفیسر وسیم احمد، بیداری کارواں کے قومی صدرنظرعالم، پروفیسرشاکرخلیق شامل ہوئے۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹرمنصورخوشتر اور غضنفرجلال عرف گگن نے مشترکہ طور پر انجام دیا۔ اس موقع پر سبھی مہمانوں کا استقبال ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصورخوشتر، خازن ڈاکٹر انتخاب ہاشمی اور غضنفرجلال عرف گگن نے شال، ٹوپی اور بوکے دے کر کیا۔پروگرام کی شروعات قومی ترانہ اور استقبالیہ گیت سے ہوا۔ سبھی مہمانوں نے پروگرام کا باضابطہ افتتاح شمع روشن کرکیا۔اس موقع پرسلطان شمسی کی کتاب ’’ریت کا سفر‘‘ کا رسم اجراء کرتے ہوئے تقریب سے خطاب میں مہمان خصوصی ڈاکٹر شکیل احمد (سابق وزیر مملکت برائے امور داخلہ حکومت ہند ) نے کہا کہ مبار کباد دیناچاہتا ہوں سلطان شمسی صاحب کو جنہو ں نے مجھے اس مبارک موقع پر مدعو کیا ہے ۔ سچ ہے کہ اس ملک میں اردو کچھ پیچھے ہٹ رہی ہے ، اس کیلئے میں نہ تو حکومت کو ذمہ دار مانتا ہوں اور نہ اردو کے نام نہاد د شمنوں کو ذمہ دار مانتا ہوں ۔ میں ذمہ دار مانتا ہو ں خود اردو والوں کو،جن کی وجہ سے اردو بدنام ہوگئی کہ وہ صرف ایک مذہب کے ماننے والوں کی زبان ہے ۔ اردو والے ہی اس سے دھیرے دھیرے کنارہ کشی اختیار کرتے جارہے ہیں ۔ چونکہ روزگار سے اردو کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے اس لئے پچھلے ایک دہائی میں لوگ اردو کی تعلیم حاصل کرنے سے کترانے لگے ہیں اور اردو جتنی تیزی سے آج سمٹ رہی ہے اور ہم نے اس کی روک تھام نہیں کی تو حالات بگڑ سکتے ہیں ۔مبارک باد کے مستحق ہیں وہ لوگ جنہوں نیان حالات میں بھی اردو کا چراغ جلا رکھا ہے اور ان میں سے ایک نام سلطان شمسی صاحب کا ہے۔ ان کے مجموعہ کلام ’’ریت کا سفر ‘‘ میں حمد و نعت، غزل اور نظم کی شکل میں معیاری اور پایہ کے اشعار ہیں ۔انہوں نے ہر دور اور فکر کی شاعری کی ہے موجودہ ماحالات پر بھی کچھ اشعار ہیں ۔ پہلے اردو شاعری اور غزلوں کے بارے میں ایک خاص تاثر تھا ۔ لیکن سلطان شمسی نے جہاں غزلوں کو شراب پلایا ہے وہیں سماج اور معاشرہ کو نیم کا رس بھی پلانے کی کوشش کی ہے ۔ ایک طرح کی شاعری سے الگ ہو کر ہر رنگ کی شاعری کی ہے ۔ شاعرصرف قلم اٹھاتا ہے لیکن شمسی صاحب کی شخصیت ہے کہ وہ چناؤ کے وقت پارٹی کا پرچم بھی اٹھاتے ہیں ۔موصوف کردار کے پکے ، زبان کے پکے اور عمل کے پختہ ہیں ،جس محکمہ میں کام کرتے تھے اس کا میں منسٹر ہوا کرتا تھا اور بلا شبہ وہ میرے قریبی لوگو ں میں سے ہیں ۔ لیکن منسٹر سے نزدیکی کے باوجود انہو ں نے کبھی کسی پر رعب نہیں جمایا اور نہ ہی اپنے ماتحت کو غلط کام کرنے کا دباؤ بنایا ۔ اس لئے وہ صرف قلم سے ہی نہیں بلکہ کردار سے بھی مضبوط ہیں ۔ ڈاکٹر احمد نے مزید کہا کہ اردو کے سمٹنے کی بڑی وجہ ہمارا مذہب سے دورہوجانا بھی ہے ۔حالانکہ پچھلے بیس سالوں میں مسجدیں بڑھی ہیں ۔ عبادہ گاہیں بڑھی ہیں ۔ عبادت کرنے والو ں کی تعداد بڑھی ہے ۔لیکن تمام مذاہب کی بنیادی تعلیم آپسی بھائی چارگی کا ماحول، یہ کمزور ہوا ہے ۔ ہم مسلمانوں کو حکم ہے کہ مذہب پر عمل کریں اور دین کی دعوت دیں ۔ ان کو بھی جو صرف نام سے مسلم ہیں اور انہیں بھی جودوسرے مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ مگر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم نے آدھا کام کیا اور دین کی دعوت دینا کے سلسلہ چھوٹ گیا ہے ۔ جب دعوت کیلئے ایک ساتھ بیٹھیں گے تبھی بہت سی بدگمانیاں دور ہوگی ۔ یہ بدگمانی کہ اردو کہیں باہر سے آئی ہے بڑی شدت کے ساتھ پھیلائی جارہی ہے ۔ میں بتا دوں کہ اردو اور ہندی کو ایک ہی شخص نے برج بھاشا اور کھڑی بولی سے اردو اور ہندی کی شکل میں فروغ دیا ہے اور وہ ہیں حضرت امیر خسرو ،امیرخسرو نے اردو فارسی اور ہندی دونوں زبانوں میں چوپائیاں کہی ہے اور دونوں کو ترقی دی ہے ۔ یہ غلط فہمی دور ہونی چائیے کہ اردو کہیں باہر سے آئی ہے ۔ اردو دنیا کے صرف تین ملک میں ہی بولی جاتی ہے اور وہ ۱۴اگست ۱۹۴۷ء سے قبل کے ہندوستان کی زبان ہے ۔ ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش ان تین ملکو ں کے لوگ جہاں کہیں گئے اپنے ساتھ اردو لے گئے ۔ اس کے علاوہ ایک اور غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ مسلم بادشاہوں نے تلوار کے زور سے اسلام پھیلایا ہے ۔یہ جان کر تعجب ہوگا کہ اتر پردیش صوبہ جہاں ۱۸ سے ۲۰ فیصد مسلم آبادی ہے اور مرآباد شہر جہاں ۴۹ فیصد مسلم آبادی ہے لیکن جن شہروں سے مسلم بادشاہوں نے حکومت کی ،آگرہ شہریہاں سب سے کم مسلم آبادی 8.9فیصد ہے ۔ دہلی کے آس پاس کوئی بڑی مسلم آبادی نہیں ہے ۔بادشاہ اورنگ زیب نے اورنگ آباد میں حکومت کی ہے لیکن یہاں بھی مسلم آبادی نہیں ہے لہٰذا اس بدگمانی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چائیے ۔در اصل اسلام ہمارے صوفیوں اور علماء دین کی وجہ سے پھیلا ہے ۔ تاج محل اور ان چیزیوں کے بارے میں جوہمارے آباؤ اجداد سے جڑی ہوئی ہیں ۔ گمراہ کیا جارہے جبکہ مسلم حکمرانوں کے دور ۱۷ ویں صدی میں ہندوستان کا دنیا کی جی ڈی پی میں حصہ داری فیصد 17فیصد تھی ۔ 18ویں صدی میں 23فیصد تھی اور جب انگریزہندوستان چھوڑ کر گئے تو 0.1فیصد جی ڈی پی میں حصہ داری رہ گئی تھی ۔ کچھ لوگ اب کہنے لگے ہیں کہ انگریز بڑے اچھے تھے اور جو مسلم حکمراں آئے تھے وہ لٹیرے تھے ۔در اصل ہم نے تاریخ پڑھنا چھوڑ دیا ہے ۔ تاریخ کے مطالعہ سے ہی سچائی سامنے آئے گی اور اسے ہم بتاسکیں گے۔ ہندوستانی مسلمان کو بھی دوسرے مسلمان کو بھی دہشت گرد بتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ ہندوستانی مسلمانوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کا دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ کشمیر میں بیس سالوں سے دہشت گردی ہورہی ہے اس میں کچھ مقامی لوگ ہیں اور کچھ پاکستان سے بھی بھیجے جاتے ہیں ۔ لیکن جب کشمیر کی دہشت گردی میں بہار ، بنگال ، اتر پردیش ، راجستھان کیرالہ اورگجرات کا مسلمان کبھی شریک نہیں ہوا اور نہ مارا گیا۔جب ایک ملک اور ایک مذہب رہتے ہوئے بھی کشمیر کی دہشت گردی میں شامل نہیں ہوا تویہاں کے لوگ کیسے القاعدہ اور آئی اے آئی ایس میں شامل ہوسکتے ہیں ۔ جن سے نہ توبات تعلقات اور نہ کوئی رابطہ ۔ ایک جماعت کی طرف سے کدورت ، نفرت پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اسے دور کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں اپنی باتیں بتانے کی ضرورت ہے ۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیوٹی اسمبلی حلقہ کے ایم ایل اے ڈاکٹر فراز فاطمی، ضلع اقلیتی فلاح و بہبود آفیسر وسیم احمد،پروفیسر شاکرخلیق اور صدر جلسہ پروفیسر عبدالمنان طرزی، ڈاکٹرقمرالحسن، انورآفاقی، منظرسلیمان، احسان عالم وغیرہ نے کہا کہ سلطان شمسی کی شاعری حقیقت پر مبنی ہے۔ انہوں نے جو سماج کے اندر کے درد کو بیان کیا ہے۔ سلطان شمسی نے متھلانچل میں مشاعرے کو ایک نام دیا اور ادبی وغیرادبی تنظیموں سے ہمیشہ جڑے رہے۔ انہوں نے دائرہ ادب کے زیراہتمام کئی کل ہند مشاعرے کا انعقاد کیا۔ اپنے خطاب میں آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدر نظر عالم نے کہا کہ سب سے پہلے میں مبارکباد دینا چاہوں گا اپنے چھوٹے بھائی ڈاکٹر منصورخوشتر اور ڈاکٹر انتخاب ہاشمی کو جنہوں نے ’’ریت کا سفر‘‘ کااجرا اپنے ٹرسٹ کے زیراہتمام منعقد کروایا اور تمام محبانِ اُردو کو ایک ساتھ جمع ہونے کا موقع فراہم کیا۔میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے اُردو کی خدمت کی ہے۔ میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ زبان خدمت کی محتاج نہیں ہوا کرتی ۔ ہم آپ اِن سے جڑکر اپنے آپ کو دُنیا میں متعارف کرواتے ہیں اور پھر اپنی ایک پہچان قائم ہونے کے بعد اِسے خدمت کا نام دے کر اپنی خودغرضی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ مسٹر عالم نے مزید کہا کہ سلطان شمسی اپنی قائدانہ صلاحیت کی وجہ کر بھی جانے جاتے ہیں۔ بحیثیت شاعر تو اِن کا مقام شاعری کے اُفق پر مسلم ہے۔ یہ وقت اِن کی شاعری پر تبصرہ کا نہیں البتہ بتادوں کہ سلطان شمسی کی شاعری اپنی ذات کا اعتراف ہے۔اِنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانوں کے کرب کے بیچ گزاری ہیں۔اِن کی شاعری میں گزرے ہوئے لمحات کی دُھن سنی جاسکتی ہے۔اِن کی شاعری اپنی بے چین روح کی ترجمانی تو کرتی ہے پر قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تشنگی ابھی باقی ہے۔ اُمید ہے کہ ان کا یہ شعری مجموعہ ’’ریت کا سفر‘‘ آپ تک بھی پہنچے گا، وہاں اِن کی شاعری براہِ راست دیکھی جاسکتی ہے۔ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصورخوشتر نے اپنے خطاب میں کہا کہ دربھنگہ، اردو زبان وادب کے آغاز و ارتقا کے دنوں سے ہی شعر وادب کا ایک اہم گہوارہ رہا ہے اور آج تو ملک کے کسی بھی ضلع سے اردو ادب و صحافت کی خدمت کے لئے بہت آگے ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی معمولی سا خیال کسی بڑے کام کا محرک بن جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ میرے دادا سید الطاف حسین حکیم دمری تھے ۔ ان کے ایک صحبت یافتہ محترم شخص (رشی بابو ، قادرآ باد دربھنگہ جو ابھی حیات سے ہیں) سے معلوم ہوا کہ میرے داد ا ہر سال ایک مشاعرہ پابندی سے منعقد کرایا کرتے تھے ۔ میں نے اپنا سعادت مندانہ فرض سمجھا کہ ان کے ہی قطعہ اراضی(ڈیہہ) پر ایک ٹرسٹ قائم کروں اور اس ادبی روایت و وراثت کو آگے بڑھاؤں۔ اس غرض سے میں نے ۲۰۰۶ء میں یہ ٹرسٹ قائم کیا جس کا ۲۰۱۰ء میں رجسٹریشن ہوا ۔ تب سے میں نے آپ کی دعاؤں اور اپنے عزم و ارادے کی بناپر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اس ادارے نے آٹھ سال کی مدت میں مندرجہ ذیل امور بخوبی انجام دیئے۔باہر سے آئے ہوئے ادباء و شعراء کی یہ ٹرسٹ اعزاز پوشی کرتا ہے۔ وہیں اپنے ضلع کے جو ادباء و شعراء اپنی معاشی ذمہ داریوں کے سبب باہر ہیں ان کی تشریف آوری پر ان کے سلسلہ میں بھی اعزاز پوشی کا فرض انجام دیتا ہے۔ قومی و بین قومی سطح کے سیمینار اس نے منعقد کرائے ، تقریباً دو درجن فنکاروں کی کتابوں کا طباعتی اہتمام کیا ہے۔ اس ادارے کے تحت اب تک ۱۴۵ ؍ادبی ، شعری اور ثقافتی پروگرام منعقد ہوئے ہیں۔ اس کے زیر اہتمام سہ ماہی ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ کی اشاعت کا مرحلہ انجام پاتا ہے۔ جس کے قاری اپنے ملک کے علاوہ اردو کی نئی بستیوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔آج سلطان شمسیؔ صاحب کی کتاب ’’ریت کا سفر‘‘ کا رسم اجراء عمل آیاہے۔ دربھنگہ کے ادبی افق پر سلطان شمسی ایک جانا پہچانا نام ہے۔ انہوں نے شاعری کے کئی اصناف پر طبع آزمائی کی ہے ۔ لیکن غزل گوئی ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ان کی غزلوں میں جذبۂ دل کی کیفیت کا رنگ نکھرا نکھرا ہے۔ شاعری کے علاوہ انہوں نے کئی ادبی محفلیں آراستہ کیں اور مشاعروں کا انعقاد کیا۔پروگرام میں سلطان شمسی کو شکور احمد ایوارڈسے نوازا گیا ساتھ ہی المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ کی جانب سے توصیفی سند بھی دیا گیا۔ اس موقع پر فردو علی کو ایس ایم اجمل فریدؒ ایوارڈ، نثاراحمد اورڈاکٹر عقیل صدیقی کو سیدالطاف حسین دمری ایوارڈ سے نوازا گیا۔اس موقع پر موجود لوگوں میں کوثرامام ہاشمی، ڈاکٹر سیدظفرآفتاب حسین، ڈاکٹرقمرالحسن، عنبرامام ہاشمی، نیازاحمد، چودھری محمود عالم، اقبال شیدا، پروفیسر خادم حسین، شہاب الدین، عبدالدود قاسمی، لئیق واجدی، ڈاکٹر آفتاب عالم، وصی احمد شمشاد، چندن جھا، انور کمال، ڈاکٹر قیصرہلال، پروفیسر اختر بلال، عبدالمتین قاسمی، احتشام الحق، قیصرنظامی، شکیل احمدسلفی، پروفیسرزاہدرضا، اسرارالحق لاڈلے، انجینئر فخرالدین قمر، محمد ہاشم، مہدی رضا، مظفرعالم، ہبان قیصر، عفان قیصر،ڈان باسکو اسکول کے ڈائرکٹر ایس ایچ اے عابدی،نورالہدیٰ، ڈاکٹرمرتضیٰ اسراہوی،علاء الدین حیدر وارثی،منظرسلیمان، احسان عالم، انورآفاقی، مشتاق اقبال، منظرالحق منظرصدیقی، عون احمد، علی حسن انصاری، نوشاداحمد، فردوس علی، محمد شمشاد،راجا خان، محمد نوشاد، محمد افضل، جاویداختر، عاقل زیاد،سمیرخان، اشرف علی، مظفراقبال ، محمدارشد، محمد ہیرا اوزاعی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں