اقلیتوں اور کانگریس کی ضرورت عمران پرتاپ گڑھی!

0
1284
کانگریس پارٹی اقلیتی شعبہ کے قومی صدر عمران پرتاپ گڑھی عوام کے امنڈتے ہوئے سیلاب سے خطاب کرتے ہوئے۔۔۔فائل فوٹو
کانگریس پارٹی اقلیتی شعبہ کے قومی صدر عمران پرتاپ گڑھی عوام کے امنڈتے ہوئے سیلاب سے خطاب کرتے ہوئے۔۔۔فائل فوٹو
All kind of website designing

ڈاکٹر میم ضاد فضلی

کسی بھی تنظیم یا جماعت کے لئے یہ بات ناگزیر ہے کہ اسے اگر اس کی کھوئی ہوئی زمین واپس لینی ہے تو سب سے پہلے اپنے اندر تبدیلی لانی ہوگی، اور اپنی کارکردگی سے بد گما ن کرچکے لوگوں کے دلوں میںدوبارہ بھروسہ پیدا کرنے کے لیے خود کو خارزار وادیوں کی منزل کا عادی بنانا ہوگا، جو ہر کسی کے بس بات نہیں ہے۔ یہ کوئی معمولی نوعیت کی سیدھا اور سپاٹ سی شاہراہ نہیں ہے کہ کوئی بھی اس پر قدم ڈال دے اور کسی بھی قسم کی پریشانی کے بغیر اپنے مشن میں کامیاب ہوکر لوٹ آئے، بلکہ یہ ’’ جوئے شیر ‘‘لانے والا کام ہے۔ شہنشاہ ِ تغزل حضرت جگر مرادآبادی نے مقصد کے حصول کے لئے کی جانے والی آبلہ پائی کو اپنے ایک مصرع میں سمودیا ہے ؎

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

اس حوالے سے جب ہم ملک کی سب سے قدیم اور دوسری بڑی سیاسی جماعت آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی کار کردگی کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو کئی ایسے موڑ سامنے آتے ہیں، جہاں سےمعلوم ہوتا ہے کہ اقلیتوں کو کانگریس سے بیز ار کرنے میں غیروں سے زیادہ اپنوں نے کلیدی رول ادا کیا ہے۔بقول’’ مہتاب رائے تاباںؔ‘‘ ؎

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

ایک سرد و گرم چشیدہ صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہونے کے ناطے اگر میں ان کرداروں کے نام کھول دوں تو کانگریس پارٹی میں اقلیتی شعبے کے درجنوں چہرے ایسے مل جائیں گے، جنہوں نے عہدوں کا غلط استعمال کیا ہے، پارٹی میں جب یہ عناصر منصب اقتدار پر فائز تھے تو مختلف حیلوں اور بہانوں سے یہ عہدہ بردار قوم کی ضرورتوں اور تقاضوں سے اوپر اپنے مفادات کو رکھا کرتے تھے اورعہدے کا ناجائز استعمال کرکے مالی طورپر اپنی تجوریوں میں اضافے کرتے رہے اور ’’ جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا ‘‘ والے محاورے کو سچائی کا جامہ پہناتے رہے ۔ آپ کو یہ جان کر شدید ٹھیس پہنچے گی کہ کل آپ کانگریس کے جن سیاسی نمائندوں اور پارٹی کے بعض سینئر عہدیداروں کی انسانیت دوستی ،غریب پروری اورخورد نوازی والے اوصاف کی قسمیں کھایاکرتے تھے، وہ تو اعلیٰ درجے کے مفاد پرست اور خود غرض نکلے ۔
ہاں ! ماضی میں کانگریس کے بیشتر مسلم لیڈروں نے وہی کارنامے انجام دیے ہیں، جسے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں واضح کیا ہے۔ بہر حال اپنوں کی دجل کا ریوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ سابق عہدیداروں نے اپنی ذمے داریوں کوایمانداری سے انجام نہیں دیا ،بلکہ اپنے گرد چمچوں ، موالیوں اور ذاتی سکریٹری و پرسنل آفس اسٹاف نام کا مضبوط حصار قائم کرلیا، جس کی وجہ سے خاص طور پر مسلم اقلیت کانگریس پارٹی سے دور ہوتی چلی گئی۔ اس وقت کانگریس کے اقلیتی شعبہ کی حالت اس قدر مایوس کن ہوگئی تھی کہ اقلیتی امور کے عہدیداران سے ملاقات کرنا بھی صدر جمہوریہ سے ملاقات کا اپوائنٹمنٹ حاصل کرنے سے زیادہ مشکل تھا۔ان کے ارد گرد منڈلانے والے مصاحبین اور اپنی چوکھٹوں پر بٹھائی ہوئی فوج کو کسی شکل میں بھی راضی کرکے ہی ، چاہے وہ بند مٹھی کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو ، ضرورت مندو ں کو کانگریس پارٹی کے ان اقلیتی عہدیداروں کے دربار میں نیازمندی کا موقع ملا کرتا تھا ۔2009 کے بعد جب سے کانگریس کے خلاف اقلیتوں کی ناراضگی اور مایوسی کا جو ماحول فرقہ پرست عناصر نے بنایا تھا۔ پورے اعتماد اور بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس پارٹی کے خلاف

ڈاکٹر میم ضاد فضلی
ڈاکٹر میم ضاد فضلی

 اقلیتوں کو متنفر اور ناراض کرنے کے لیے جس طرح کے بھگوا جال بچھائے گئے تھے ، اس کترنے اور بی جے پی کے دام ِ فریب سے نجات دلانے کے لیے کانگریس ا قلیتی شعبہ کے سربراہان کبھی اپنی کرسی نیچے نہیں اترے اور اقلیتوں کے درمیان جانے اور ان کے مسائل سے آگاہ ہوکر انہیں مدد پہنچانے کی بجائے ہمیشہ عوام سے لاتعلق رہے۔
خیال رہے کہ یہ کوئی بے بنیاد الزام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک صحافی کے مشاہدات ہیں ،جس کا اس نے عملی طورپر برسوں پر تجربہ کیا ہے۔اس سے خودہی سمجھا جاسکتا ہے کہ ان حالات میں پارٹی اپنے ووٹروں کا اعتماد پاسکے گی یا ان سے دور ہوتی چلی جائے گی ۔ یقیناً اس کا جواب یہی ہونا چاہئے کہ اس طرز سیاست سے تو غیروں کے قریب آنے کی بات ہی نہ کی جائے ، اپنے بھی دور ہوجائیں گے ،بلکہ ہمیشہ کے لئے دشمن بن جائیں گے۔
آج اگر خاص طور پر مسلم اقلیتیں کانگریس سے دور ہوگئی ہیں تو اس کے ذمے دار کوئی دوسرے نہیں ، بلکہ اس کے اپنے ہی ہیں، جنہوں نے کبھی بھی زمین پر اترنے کی زحمت نہیں کی اور ہمیشہ پیراشوٹ کلچر میں مگن اور اپنے فرائض سے لاپرواہ رہے۔لہذا کانگریس کے لئے ضروری تھا کہ وہ سب سے پہلے اپنی نشأۃ ثانیہ کے لیے دیانتدارانہ پالیسی اختیار کرتی اور اپنے کارواں میں ایسے نفوس کو شامل کرتی جس کے اندرمظلوموں ، غریبوں اور محروم طبقات کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ کانگریس پارٹی نے دیر سے سہی پارٹی کی تطہیر کا عمل شروع کردیا ہے اور انہوں اپنے قافلے میں افراد سے زیادہ افراد ساز لوگوں کو شامل کرنے اور انہیں آزادانہ طور پر ملک کی فرقہ پرست سیاست کے خلاف مضبوط محاذ قائم کرنے اور آزادانہ طور پر میدان میں اترنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ساتھ ہی انہیں تعاون اور سہولیات بھی دی گئی ہیں،انہیں بالکل تنہا بھی نہیں چھوڑا گیا ہے،بلکہ پارٹی جو پارٹی اعلیٰ قیادت ہر پل ان کی پشت پر کھڑی ہے جو کانگریس پارٹی کے لئے خوش آئند بات ہے۔
خیال رہے کہ اعتماد سازی کی اس ضرورت کو وہی شخص عملاً بہتر ڈھنگ سے انجام تک پہنچا سکتا ہے ، جس کے عمل میں اخلاص ہو اور لٹے پٹے طبقات کو مشکلات سے نجات دلانے کے لیے انسانی اور قومی ہمدردی کے نیک جذبات اس کے کلیجے میں پھڑ پھڑا رہے ہوں۔وہ ملک و قوم کی خوش حالی کو ہی اپنی زندگی کا اہم مقصد بناکر میدانِ عمل میں اترا ہو،اپنی قوم کی تباہناکی نے اس کا سکھ چین ، حتیٰ کہ راتوں کی نیندیں بھی اس سے چھین لی ہوں۔ لہذا اب اسی نہج پر پارٹی کی تشکیل نو کانگریس سربراہ محترمہ سونیا گا ندھی اور پارٹی کے اعلیٰ قائدراہل گاندھی کے لئے ضروری ہوگئی تھی ، جسے انہوں نے بہترین انداز میں انجام دیاہے۔
اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اقلیتوں کے حضور میں جانے کے لئے کانگریس پارٹی نے ایک ایسی ہی شخصیت کاا نتخاب کیا ہے جو کبھی بھی وی آئی پی کلچرکا حامی نہیں رہا ہے۔ ہر قسم کی عزت و شہرت حاصل ہونے کے باوجوداس نے مشاعروں کے اسٹیج سے لے کر سیاسی کانفرنسوں تک حاشیے پر بیٹھے ہوئے طبقات سے اپنا رشتہ استوار رکھا۔کانگریس کو اقلیتوں کے درمیان بھیجنے کے لئے عمران پرتاپ گڑھی جیسا کوئی بھی نمائندہ نہیں مل سکتا تھا، جس کی زندگی کے لیل و نہا ر چڑھتے سورج کی طرح بے داغ اور انسانیت کی خدمت کے جذبات سےجس کا دل معمور ہے، فکر دورس اور ذہن تعمیری خوبیوں کا مالک ہے۔
جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے ،اس کے مطابق میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ادبی اور شعری کائنات میں اپنا لوہا منواچکے عمران پرتاپ گڑھی کو ان کی تخییل کی بلندی ، گفتار کی بے باکی اور کردار کی فیاضی نے جو عزت و شہرت اور عروج و کمال بخشا ہے۔ اس سے زیادہ کی شاید کسی فنکار کو ضرورت بھی نہ ہو۔
لہذا یہ قرین قیاس ہے کہ اس فنکار نے عزت و شہرت کے لالچ میںسیاست کی پُر پیچ وادی کا سفر اختیار نہیں کیا ہوگا۔ اس لئے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت انہیں جتنادے سکتی تھی، اتنا تو ان کے قدموں میںویسے ہی پڑے رہتے ہوں گے۔ اس لیے اگر عمران پرتاپ گڑھی سیاست میں آئے ہیں تو کسی نیک مقصد اور تعمیری منصوبے کو عملی شکل دینے کے ارادے سے ہی آئے ہیں۔
انہوں نے سیاست میں پنجہ آزمائی کے اپنے مقصد کا اظہار ۱۸ اکتوبر ۲۰۱۸ کو روزنامہ’’ سیاست‘‘ حیدرآباد کو دیے گئے ایک انٹر ویو میں کیا ہے۔ انٹر ویو سے پتہ چلتا ہے کہ فاشسٹ عنا صر اور فرقہ پرستوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے جذبے سے ہی انہوں اپنے لئے یہ سمت سفر منتخب کیا ہے۔ انٹر ویو میں وہ کہتےہیں کہ :’’ فرقہ پرست طاقتیں ملک میں نفرتوں کے بیج بورہی ہیں۔ وقت نتہائی حوصلہ شکن اور صبر آزما ہے، لیکن اس پراگر ہم خاموش رہے تو آنے والی نسلوں کو کیا جواب دیں گے۔ اب خاموشی سے کام چلنے والا نہیں ہے ۔انہوں نے واضح لفظوںمیں کہا کہ جس قوم کو اپنے ماضی کاعلم نہیں ہو، وہ قوم اپنا مستقبل بھی طے نہیں کرسکتی۔ آج ملک میں چند مٹھی بھر فرقہ پرست ذہنیت کے حامل اقتدار کی گدیوں پر بیٹھ کر ملک کے سکیولرازم کو تارتار کرنے کی منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے ماحول میں میں جس صوبہ سے میں آ تا ہوں وہاں کا قائد یہ کہتا ہے کہ ہمیں عید نہیں منانی ہے۔ ہم کیوں عید نہیں منائیں،عام لوگوں کے درمیان اس قدر نفرتیں کہاں سے آگئی ہیں ، یہ آپ خود دیکھ لیجئے۔ایسے ماحول میں عمران خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا، بلکہ کھلے عام کہتا ہوں۔

ہم جھوٹی آنکھ ان کو سہائے بھی نہیں ہے
اچھا ہے وہ یہ بات چھپائے بھی نہیں ہے
سنتے ہیں کہ صاحب کو ہے تکلیف عید سے
ابلیس کبھی عید منائے بھی نہیں ہے

خیال رہے کہ ۳ جون ۲۰۲۱ کوبین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر عمران پرتاپ گڑھی کو کانگریس پارٹی نے اقلیتی شعبہ کا چیئرمین منتخب کیا تھا۔ اس انتخاب کے بعدہی مجھے اندیشہ لاحق ہوگیا تھا کہ شاید عمران پرتاپ گڑھی بھی کانگریس پارٹی کے ماضی والے چیئر مینوں کی طرح وی وی آئی پی کلچر نہ اختیار کرلیں اور ان کے اور عام آدمی کے بیچ اس کلچر کی اونچی دیوار نہ کھڑی ہو جائے۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ عمران پرتاپ گڑھی نے اس کلچر سے بغاوت کا اعلان کردیا ہے۔ اب ہر ضرورتمند براہ راست کانگریس اقلیتی شعبہ کے چیئر مین سے مل سکتا ہے۔ ان سے اپنے مسائل شیئر کرسکتا ہے ، ادنی و اعلیٰ کے امتیاز سے بے نیاز ایسے لیڈر کی ہی کانگریس کو ضرورت تھی، جو اب پوری ہورہی ہے۔
انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی لوکل باڈیز سمیت ہر طبقہ کے تعلیم یافتہ اور پروفیشنلز کا سیل بنانے کا کام بھی شروع کردیا ہے۔ اب اقلیتی شعبہ کے چیئر مین کے دفتر پر تالے لٹکے ہوئے نہیں ملتے ، بلکہ ایک فعال ٹیم ہمیشہ کانگریس سے روٹھ چکے اقلیتی طبقہ کو قریب لانے کے مشن پر سرگرم نظر آتی ہے۔
پارٹی اور قوم کی ہمدردی کا ثبوت دیتے ہوئے منصب ملنے کے ایک ماہ کے اندر ہی انہوں نے 16 جون کو ایک پریس ریلیز میڈیاکو بھیجی تھی ،جس میں بتاگیا تھا کہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے شعبہ اقلیتی امور نے فیصلہ کیا ہے کہ اقلیتی فلاح و بہبود سے متعلق منصوبوں سے اقلیتوں کو آگاہ کرانے اور فوائد حاصل کرنے کی ترغیب دلا نے کے لئے ملک گیر سطح پر مہم چلائی جائے گی۔ یہ فیصلہ تمام ریاستوں کے اقلیتی شعبے کے چیرمینوں کے ساتھ طویل میٹنگ میں کیا گیا تھا۔
آل انڈیا نیشنل کانگریس کمیٹی کے اقلیتی امور کے قومی چیئرمین عمران پرتاپ گڑھی نے خاص طور سے اپنے عزائم کا اظہار کرنے کی غرض سے ہی تمام ریاستوں کے چیئرمینوں کے ساتھ میراتھن میٹنگ کا انعقاد کیا تھا ۔اس میٹنگ میں ملک کی اقلیتوں کو کانگریس کے ساتھ دوبارہ کس طرح سے جوڑا جائے اور ان کے مسائل کے بارے میں بات کی جائے، اسی اہم ایشو پر بات چیت ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اس میٹنگ میں پورے ملک کی اقلیتی برادری کے سیاسی اور سماجی مسائل سے آگاہ ہونے کے بعد عمران پرتاپ گڑھی نے مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کا یقین دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ان تک پہنچنے کی پوری کوشش کریں گے۔ یہ سرگرمیاں بتارہی ہیں کہ اب کانگریس پارٹی کااقلیتی شعبہ وعدوں کے جھوٹے خواب دکھا کر اقلیتوں کے ساتھ دھوکہ نہیں کرے گا، بلکہ اب جو بھی وعدے ہوں گے ، وہ سارے وعدے عملی جامہ پہنیں گے اوراقلیتوں کو اس کے حقوق کی بازیابی کے لئے یہ شعبہ ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا۔ خدا کرے کہ وعدوں کے مطابق انجام بخیر ہو۔
8076397613

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here