انڈیا کے صدر رام ناتھ کووند نے ریاست گجرات کے احمد آباد شہر میں موٹیرا کے کرکٹ سٹیڈیم کا افتتاح کیا ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ سٹیڈیم میلبرن کرکٹ سٹیڈیم تھا جہاں ایک لاکھ شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ نریندر مودی سٹیڈیم میں ایک لاکھ دس ہزار شائقین کی گنجائش ہے۔اس موقعے پر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ، گجرات کے گورنر اچاریہ دیوورت، وزیرِ کھیل کرن رجیجو اور بی سی سی آئی کے سکریٹری اور امت شاہ کے بیٹے شاہ موجود تھے۔
پہلے اس موٹیرا سٹیڈیم کا نام سردار پٹیل اسٹیڈیم رکھا گیا تھا لیکن اب اسے بدل کر نریندرمودی کرکٹ سٹیڈیم کر دیا گیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر اس کے متعلق گرما گرم مباحثہ جاری ہے اور موٹیرا کرکٹ سٹیڈیم کے ساتھ نریندر مودی سٹیڈیم بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔اسٹیڈیم میں ایک لاکھ دس ہزار شائقین کی گنجائش ہے۔ تاہم کورونا وائرس کی وبا کے باعث ٹیسٹ میچ میں 55 ہزار لوگوں کو سٹیڈیم میں جانے کی اجازت ہو گی۔ نریندر مودی سٹیڈیم کو سنہ 2015 میں گرا کر نئے سرے سے تعمیر کرنے کا کام شروع کیا گیا تھا۔یاد رہے کہ اس سے قبل دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ سٹیڈیم میلبرن کرکٹ سٹیڈیم تھا جہاں ایک لاکھ شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔موٹیرا سٹیڈیم 63 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہو ہے جس میں داخل ہونے کے چار راستے ہیں۔ اس میں کئی ڈریسنگ روم، انڈور اور آوٹ ڈور پِچ ہیں۔ اس کے علاوہ کھلاڑیوں کی رہائش کے لیے ایک بڑا ہال ہے جس میں ایک وقت میں 40 کھلاڑی رہ سکتے ہیں۔ جبکہ کوچز، فیزیوتھیریپسٹس اور ٹرینرز کی رہائش کا علیحدہ انتظام ہے۔اس اسٹیڈیم کی تعمیر پر آٹھ ارب انڈین روپے خرچ ہوئے ہیں۔ سنہ 2015 میں شروع ہونے والی تعمیرِ نو سے پہلے اس سٹیڈیم میں 54 ہزار شائقین کی گنجائش تھی۔اسٹیڈیم کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ہر جانب سے بغیر کسی رکاوٹ کے پِچ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ پانی کی نکاسی کا جدید نظام بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے بارش کی صورت میں گراؤنڈ کے جلدی سوکھنے میں مدد ملے گی اور میچوں کے منسوخ ہونے کا خدشہ کم ہو جائے گا۔
صدر رام ناتھ کووند نے اس موقع پر کہا ہے کہ انڈیا کو ‘پاور ہاؤس آف کرکٹ یا ‘کرکٹ کا ہب کہا جاتا ہے۔ لہذا یہ مناسب ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ سٹیڈیم بھی اب ہمارے ملک میں ہے۔اس موقع پر وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ سردار ولبھ بھائی اسپورٹس انکلیو اور نریندر مودی اسٹیڈیم کے ساتھ ساتھ نارن پورہ میں بھی سپورٹس کمپلیکس تیار کیا جائے گا۔ تینوں ہی سٹیڈیم کھیلوں کے کسی بھی بین الاقوامی پروگرام کا اہتمام کر سکیں گے۔ احمد آباد کو ہندوستان کا ‘اسپورٹس سٹی کہا جائے گا۔مائی سیلف جالی نامی ایک صارف نے لکھا: ‘نہرو خاندان کے تینوں وزیر اعظم کو ان کی زندگی میں ہی بھارت رتن دیا گیا۔ جواہر لعل نہرو کو 1955 میں، اندرا گاندھی کو 1971یں اور راجیو گاندھی کو 1991 مین لیکن اگر ایک سٹیڈیم کا نام نریندر مودی کے نام پر رکھ دیا گیا تو اتنا ہنگامہ کیوں؟
جبکہ بہت سے لوگوں نے اندرا گاندھی، جواہر لعل نہرو اور راجیو گاندھی کے ناموں پر سٹیڈیم کا ذکر کیا اور مودی کے نام پر سٹیڈیم کا نام رکھے جانے کا دفاع کیا،لیکن کوہلیز سائڈ نامی ایک صارف ابھی نے لکھا کہ ‘دنیا کے دوسرے ممالک میں سٹیڈیمز کے نام میلبرن کرکٹ گراؤنڈ، لارڈز، اورلڈ ٹریفورڈ، اوپٹس سٹیڈیم، گابا، ٹرینٹ برج، وانڈررز وغیرہ ہوتے ہیں۔ اور انڈیا میں- نریندر مودی سٹیڈیم، راجیو گاندھی سٹیڈیم، اندرا گاندھی، راہل گاندھی، سردار پٹیل سٹیڈیم۔ابھینو نامی ایک صارف نے لکھا ہے کہ انھیں اس نام کے رکھے جانے سے مایوسی ہوئی ہے اور ان کا خیال ہے کہ سپورٹس سٹیدیمز کو کسی سیاسی شخصیت کے نام پر نہیں بلکہ سپورٹس پرسن کے ناموں پر ہونا چاہیے اور اس پر تمام سیاسی پارٹیوں کو عمل پیرا ہونا چاہیے۔
سمیر نامی ایک شخص نے لکھا کہ جواہر لعل نہرو سٹیڈیم پر مالکانہ حق ایس اے آئی (سپورٹس اتھارٹی انڈیا کا ہے۔ اندرا گاندھی ایرینا خکومت ہند کا ہے۔ راجیو گاندھی سٹیڈیم بیلاپور، حیدرآباد، آورنگ آباد، روہتک، دہرہ دون اور ایزوال۔نریندر مودی کرکٹ سٹیڈیم کا مالکانہ حق جی سی اے کے پاس ہے جو کہ ایک نجی ادارہ ہے۔ اس لیے ہمیں اس شاندار موقعے کا جشن منانا چاہیے اور دفاعی نہیں ہونا چاہیے۔
(بہ شکریہ بی بی اردو)
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں