ایک چھوٹے سے عہدے کیلئے کیوں چھوٹا بننے پر مجبور ہوئے؟
عبدالعزیز
سابق چیف جسٹس مسٹر رنجن گوگوئی چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے تین مہینے کے اندر راجیہ سبھا کی رکنیت بغیر کسی پس و پیش کے جب قبول کرلیا تو ان کے خلاف جو عام طور پر شکایت کی جاتی تھی وہ یقین میں تبدیل ہوگئی اور ان کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ان کی موجودگی میں جو بھی بڑے فیصلے ہوئے خواہ بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ ہو یا رافیل جنگی جہاز کا وہ سب شک کے دائرے میں آگئے۔ ’انڈیا ٹوڈے‘ کے حالیہ کنکلیو میں چیف جسٹس سے جب سوال کیا گیا کہ ان پر الزام کہ حکومت کی مرضی کے مطابق بہت سے فیصلے کئے جس کی وجہ سے انعام کے طور پر ان کو راجیہ سبھا کیلئے صدر جمہوریہ ہند کی طرف سے نامزدگی کی گئی ۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ اگر وہ سودے بازی (Bargaining)ہی کرتے تو اتنے چھوٹے سے عہدے کیلئے کیوں کرتے۔ کسی بڑے عہدے کیلئے کرتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے دفاع کیلئے انھوں نے جو وکالت کی اس سے ان کا چھوٹا پن پورے طور پر ظاہر ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ اتنے چھوٹے عہدے کیلئے آخر ان کی کیا مجبوری تھی کہ وہ چھوٹا بننے پر مجبور ہوئے؟
12 جنوری 2018ء کو سپریم کورٹ کے جب چار بڑے سینئر ججوں نے اس وقت کے چیف جسٹس مسٹر دیپک مشرا کو ایک خط لکھ کر اپنی انتہائی ناراضگی اور تشویش کا اظہار کیا تھا اور پریس کانفرنس کرکے ملک کو بتایا تھا کہ ’’عدلیہ پر دباؤ ہے جس کی وجہ سے جمہوریت خطرے میں ہے‘‘۔ ان چار ججوںمیں سے مسٹر جے۔ چلمیشور ، مدن لاکر، کورین جوزف کے علاوہ جسٹس رنجن گوگوئی بھی شامل تھے۔ جسٹس گوگوئی کو ان کی سینئریٹی کی وجہ سے چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے کیلئے تقرری ہونا تھا۔ اس پریس کانفرنس میں ان کا شامل ہونا اور خط پر دستخط کرنا بڑی ہمت اور دل گردے کا کام تھا، کیونکہ اس سے ان کو چیف جسٹس جیسے بڑے عہدے پر فائز بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اتنے بڑے خطرے کو مول لینے کی وجہ سے پورے ملک میں ان کی پذیرائی ہوئی اور انصاف پسند لوگوں نے سمجھا کہ سپریم کورٹ کا معیار بلند ہوگا اور لوگوں کو عدل و انصاف ملے گا۔ لیکن جسٹس گوگوئی کے چیف جسٹس ہونے کے 7مہینے کے بعد ایک جنسی استحصال کا واقعہ کچھ اس طرح جسٹس گوگوئی کے تعلق سے طشت ازبام ہوا اور اس کے بعد اس کے تعلق سے سپریم کورٹ میں جو مقدمہ دائر ہوا اور اس کا فیصلہ ہوا وہ بھی عجیب و غریب تھا۔ ان کے دفاع میں سابق وزیر خزانہ مسٹر ارون جیٹلی بھی پیش پیش تھے۔ اب تین ججوں کی بنچ نے جو سبق جونیئر اسسٹنٹ خاتون جس نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا اس کا مقدمہ خارج کردیا گیا اور جسٹس رنجن گوگوئی کو بے گناہ اور بے قصور بتایا گیا اس بنچ میں جسٹس گوگوئی بھی شامل تھے۔ ان کی شمولیت سے ہر کوئی جو قانون اور عدالت کے معاملات سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ جس پر الزام ہو وہ اگر خود فیصلہ کرنے میں شامل ہو تو صحیح فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے؟ شکایت کرنے والی خاتون کو اس کی ملازمت سے سبکدوش کردیا گیا اور اس کے شوہر کو بھی دہلی پولس نے پولس کی نوکری سے ہٹا دیا۔ حالانکہ بعد میں خاتون کو بھی اور اس کے شوہر کو بھی ملازمت مل گئی۔
سینئر صحافی منوج مٹنا نے لکھا ہے کہ ’’لوہیا کیس سے نمٹنے کے طریقے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس رنجن گوگوئی نے چار ججوں کی پریس کانفرنس میں شرکت کرکے عوام کی توقعات کو بڑھا دیا تھا کہ وہ آزادانہ طور پر کام کریں گے لیکن جنسی ہراسانی کے تنازعے میں پھنس جانے کے بعد وہ چیف جسٹس آف انڈیا کی توقعات پر پورے نہیں اتر سکے‘‘۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے اپنے عہدے کے آخری ایام میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری بابری مسجد /رام جنم بھومی تنازعہ پر 9نومبر 2019ء کو حتمی فیصلہ سنایا۔ جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ ججوں کی بنچ نے کہاکہ 70 سال قبل چار سو پچاس سالہ قدیم بابری مسجد میں مسلمانوں کو عبادت کرنے سے روکا گیا اور 27 سال پہلے غیر قانونی طورپر اسے منہدم کیا گیا۔ یہ دونوں چیزیں غیر قانونی تھیں۔ اس کے باوجود ججوں نے رنجن گوگوئی کی سربراہی میں ہندوؤں کے حق میں مندر بنانے کا فیصلہ دے دیا۔ اور یہ فیصلہ حقائق اور شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ آستھا کی بنیاد پر کیا گیا جبکہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ فیصلہ عقیدے کے بنیاد پر نہیں مالکانہ حقوق کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج اشوک کمار گنگولی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا اور بہت سے ٹی وی چینلوں کو بتایا کہ آثارِ قدیمہ کے شواہد کو متنازعہ اراضی دینے کی بنیاد بنایا گیا ہے لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ آثار قدیمہ کے شواہد پر زمین کی ملکیت کا فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر زمین کو کس بنیاد پر دیا گیا۔ جسٹس گنگولی نے مزید کہا ہے کہ یہ مسجد گزشتہ پانچ سوسالوں سے وہاں موجود تھی۔ اور جب سے ’آئین ہند‘ وجود میں آیا وہاں ایک مسجد موجود تھی۔ آئین آنے کے بعد تمام ہندستانیوں کو مذہبی آزادی کا حق حاصل ہے۔ اقلیتوں کو بھی مذہبی آزادی حاصل ہے۔ یہ اقلیتوں کا حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کی پیروی کریں۔ انھیں اس عمارت کا دفاع کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے سے سبکدوشی کے بعد جسٹس رنجن گوگوئی کو اجودھیا تنازع کے فیصلے کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ رافیل جنگی جہاز کے معاملے میں حکومت کو کلین چٹ دینے سے بھی رنجن گوگوئی یاد رکھا جائے گا۔
جب چار سینئر ججوں نے پریس کانفرنس کو خطاب کیا تھا تو جسٹس جے چلمیشور نے ایک طرح سے سب کی طرف سے پریس کانفرنس میں ایک بات کہی تھی کہ ججوں کو ریٹائر ہونے کے بعد کوئی بھی چھوٹا بڑا عہدہ نہیں لینا چاہئے۔ اس اعلان کے بعد جسٹس رنجن گوگوئی کا راجیہ سبھا کی رکنیت کو قبول کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ ؎’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘۔ جسٹس رنجن گوگوئی کے وقت اور ان کے بعد عدالتوں کے فیصلوں کا معیار گرتا چلا گیا۔ اس قدر نیچے گرگیا جو لوگ حکومت کے قریب ہیں ان کو آناً فاناً ضمانت مل جاتی ہے ، جیسے ارنب گوسوامی کو ایک مجرمانہ فعل کے باوجود سپریم کورٹ سے ایک دن میں ضمانت مل گئی، لیکن بہت سے لوگ سالہا سال جیلوں میں مشقت کی زندگی گزار رہے ہیں ان کو ضمانت نہیں ملی۔ اب گرفتاریاں بھی اندھا دھند ہورہی ہیں۔ غلط سلط الزامات عائد کرکے پولس ایسے لوگوں کو جب چاہتی ہے پس زنداں کر دیتی ہے جو حق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں یا حکومت سے سوال کرتے ہیں یا حکومت پر ان کے غلط رویے کی وجہ سے تنقید کرتے ہیں۔
کسان آندولن کے تعلق سے دیشا روی اور دیگر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو من گھڑت الزامات لگاکر جس طرح اندھا دھند گرفتاریاں ہوئی ہیں یا ہونے والی ہیں اس کے متعلق عام آدمی پارٹی کے ایک لیڈر نے کہا ہے کہ ’یہ ایمرجنسی نہیں تو کیا ہے؟‘ حقیقت تو یہ ہے کہ ایمرجنسی میں بھی اس طرح کے من گھڑت الزامات لگاکر گرفتاریاں نہیں ہوتی تھیں۔ نریندر مودی کو اندرا گاندھی کے انجام سے سبق لینا چاہئے کہ انھوں نے ایمرجنسی لگاکر اپنی سیاسی زندگی پر جا داغ لگایا وہ زندگی بھر مٹا نہیں سکیں۔ ان کے بعد بھی ایمرجنسی کے سیاہ کارنامے ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ آج جو صورت حال ہے وہ افسوسناک اور شرمناک ہے۔ حبیب جالب نے سچ کہا تھا ؎
اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی- جس دیس میں انساں کی حفاظت نہیں ہوتی
E-mail:[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں