مودی کی تعریف کرتے کرتے ان کے دم میں دم آگیا
عبدالعزیز
بڑی یا چھوٹی سیاسی پارٹیوں سے جب نکل کر کوئی نئی پارٹی بناتا یا بناتی ہے تو بھانت بھانت کے لوگ اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ممتا بنرجی نے کانگریس سے ناراضگی کے بعد ترنمول کانگریس کی تشکیل کی جس میں کانگریس کے منحرف افراد کے علاوہ دیگر پارٹیوں کے لوگ بھی شامل ہوگئے۔ فرقہ پرست بی جے پی کے افراد کچھ زیادہ ہی ممتا بنرجی کے ساتھ ہوگئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جو کانگریس اور مارکسی پارٹی دونوں کے خلاف تھی ، مارکسی پارٹی کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے ممتا بنرجی کی پارٹی کے ذریعے فرقہ پرستی بڑھانے اور بایاں محاذ کی حکومت کو گرانے کا اچھا موقع ہاتھ آ گیا۔ ممتا بنرجی نے بی جے پی سے مدد لینے میں ہر طرح کی فراخ دلی دکھائی۔ بی جے پی کے سیاسی اتحاد میں بھی وہ شامل ہوگئیں۔ واجپئی کی کابینہ میں وزیر ریلوے کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کے ساتھ مل کر اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا مگر ممتا بنرجی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور بالآخر کانگریس کا دامن پکڑا۔ کانگریس کے ساتھ مل کر اسمبلی کے الیکشن میں انھیں زبردست کامیابی ملی اور 2011ء میں بنگال میں ان کی حکومت قائم ہوگئی۔ کچھ دنوں تک کانگریس سے ان کا ساتھ رہا مگر ترنمول میں بی جے پی کی جو لابی کام کر رہی تھی وہ زیادہ دنوں تک ممتا کو سونیا گاندھی کے ساتھ رہنے نہیں دیا۔ ممتا بنرجی نے 2016ء میں تنہا اسمبلی کا الیکشن لڑا اور دوبارہ کامیاب ہوئیں۔ اس وقت 2021ء میں ان کا مقابلہ بی جے پی سے ہے جسے انھوں نے بنگال میں ہاتھ پاؤں پھیلانے کا بھرپور موقع دیا تھا۔ آر ایس ایس کو بھی یہاں کافی ترقی ملی۔ فرقہ پرستی بڑھی اور چھوٹے بڑے کئی فسادات رونما ہوئے۔ پولس کے محکمہ اور دیگر محکمے میں تعصب اور فرقہ پرستی بڑے پیمانے پر نظر آنے لگی جس کی وجہ سے ممتابنرجی کی حکومت کمزور سے کمزور تر ہونے لگی۔ کانکی نارہ جیسی جگہ میں تین ماہ تک تسلسل کے ساتھ فساد جاری رہا۔ دیگر علاقوں میں بھی فسادات کا سلسلہ وقتاً فوقتاً برپا ہوتا رہا۔ رانی گنج اور آسنسول میں فسادات کچھ اس طرح ہوئے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حکومت ممتا بنرجی کی ہے مگر پولس بی جے پی کی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ترنمول کانگریس کے اندر اور باہر بی جے پی کا اثر ہمیشہ رہا۔
دنیش ترویدی ترنمول کے ایسے لیڈروں میں شامل تھے جو شروع سے ممتا بنرجی کے ساتھ تھے لیکن ان کے بارے میں ہر کوئی جانتا تھا کہ بشمول ممتا بنرجی کہ ان کا ذہنی تعلق بی جے پی کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ وہ در اصل ترنمول میں رہ کر بی جے پی کا کام کیا کرتے تھے۔ ممتا بنرجی کو ان سے مالی فائدہ تھا جس کی وجہ سے وہ خاموش رہا کرتی تھیں۔ دنیش ترویدی کا گجرات سے تعلق ہے لیکن ان کا رہنا سہنا بنگال ہی میں ہے۔ گجراتیوں اور مارواڑیوں سے ان کا بہت ہی گہرا تعلق ہے۔ ممتا بنرجی کو بایاں محاذ سے ٹکرانے میں اور گرانے میں مارواڑیوں اور گجراتیوں نے ہر طرح سے مدد کی۔ گزشتہ روز (12فروری) اچانک دنیش ترویدی نے راجیہ سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ انھوں نے استعفیٰ کی وجہ بتاتے ہوئے کہاکہ ’’ترنمول کانگریس میں ان کا دم گھٹتا تھا۔ بنگال میں تشدد اور جبر و ظلم ہوتا دیکھ کر ان کو گھٹن محسوس ہوتی ہے اور ان کا ضمیر انھیں ملامت کرتا ہے۔ وہ یہاں رہ کر کچھ نہیں کرسکتے، پھر یہاں کیوں ہیں؟ کیوں نہ وہ بنگال میں رہ کر کچھ کرنے کی کوشش کریں۔ آج استعفیٰ دے کر ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا اور وہ راحت محسوس کرنے لگے‘‘۔ اپنے بارے میں انھوں نے یہ بھی کہاکہ وہ عدم تحفظ کے شکار ہوگئے تھے۔
راجیہ سبھا کے باہر نامہ نگاروں سے کہاکہ تشدد اور کرپشن بنگال میں کافی بڑھ گیا ہے۔ یہ دیکھ کر ان کا دم گھٹتا ہے اور وہ چپ نہیں رہ سکتے۔ انھوں نے مزید کہاکہ جن کو سیاست کی اے بی سی ڈی بھی نہیں آتی وہ پارٹی کے نیتا بنے ہوئے ہیں۔ بھلا ہم ان کی لیڈر شپ کیسے تسلیم کریں؟ کوآپریٹ پروفیشنل پارٹی کو چلا رہے ہیں۔ ان کا اشارہ پرشانت کشور اور ابھیشک بنرجی کی طرف تھا۔ دنیش ترویدی کی یہ سب باتیں عذر لنگ (Lame Excuses) کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ در اصل ان کا ذہنی تعلق بی جے پی سے تھا اور ہے۔ کسانوں کے مسئلے پر راجیہ سبھا سے جب اپوزیشن کے لیڈران بشمول ترنمول کے ارکان واک آؤٹ کر گئے تو دنیش ترویدی ایوان میں بیٹھے رہ گئے۔ دو تین دن پہلے نریندر مودی نے پرائیوٹ سیکٹر کی پارلیمنٹ میں زبردست وکالت کی۔ عام طور پر کوئی بھی لیڈر یا سیاست داں پرائیوٹ سیکٹر کی تعریف کرتے ہوئے ہچکچاتا اور ڈرتا ہے۔ دنیش ترویدی نے اسی دن نریندر مودی کی پرائیوٹ سیکٹر والی پالیسی کی حمایت کی۔ استعفیٰ دے دو تین پہلے ترویدی کے بارے میں عام طورپر کہا جانے لگا کہ اب ان کا رخ مودی اور شاہ کی طرف ہوگیا ہے اور جلد ہی وہ بی جے پی میں شامل ہوجائیں گے۔ بی جے پی میںجب وہ شامل نہیں تھے تو بی جے پی کے بارے میں مخالفانہ بیان دیا کرتے تھے۔ ایک بیان میں انھوں نے کہاتھا کہ ’’بی جے پی صرف دھرم کی بات کرتی ہے۔ دھرم کے سوا ان کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ سچائی اور صداقت ترنمول کانگریس کے ساتھ ہے۔ سچائی کی فتح ہوگی‘‘۔
حالیہ لوک سبھا کے الیکشن میں بارک پور سے ارجن سنگھ نے ممتا بنرجی سے لوک سبھا کے ٹکٹ کا مطالبہ کیا تھا لیکن ممتا بنرجی نے ارجن سنگھ کے مطالبے کو رد کرکے دنیش ترویدی کو ٹکٹ دیا۔ ارجن سنگھ کو ٹکٹ دیا گیا ہوتا تو وہ شاید ترنمول نہیں چھوڑتے اور اس علاقے میں بی جے پی کو طاقت بھی نہیں ملتی۔ دنیش ترویدی کامیاب نہیں ہوئے۔ ناکامی کے باوجود ممتا بنرجی نے انھیں راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا۔ 2012ء میں دنیش ترویدی کو ممتا بنرجی نے مکل رائے پر ترجیح دیتے ہوئے وزیر ریلوے کا عہدہ سونپ دیا۔ ترویدی دوبار لوک سبھا کے ممبر رہے اور کئی بار راجیہ سبھا میں رہے۔ اب جبکہ بنگال میں ایک آدھ ہفتے کے اندر انتخابی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے تو دنیش ترویدی کا دم نکلنے لگا۔ ہوسکتا ہے کہ مودی اور شاہ جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ان کے پرانے دوستوںمیں سے ہیں ان کی طرف سے ان کو بڑے بڑے خواب دکھائے گئے ہوں گے۔ گورنر بنانے یا کسی ملک کا سفیر بناکر بھیج دینے کے وعدے کئے گئے ہوں گے یا وزارت میں شامل کرنے کی بات بھی کہی گئی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ راجیہ سبھا کی جس کی پانچ سال مدت باقی ہو جب تک اس سے کچھ زیادہ ملنے کی امید نہ ہو وہ بھلا کیسے راجیہ سبھا رکنیت سے مستعفی ہوسکتا ہے۔ دنیش ترویدی کے ترنمول کانگریس سے نکلنے سے کوئی پارٹی کو نقصان نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی عوامی لیڈر نہیں ہیں اور نہ بنگالی ہیں۔ فی الحال بنگال میں بنگالی شناخت کی بھی لڑائی ہورہی ہے۔ اگر بنگالی ہوتے تو تھوڑا بہت اثر پڑسکتا تھا۔
ترنمول کانگریس سے جو لوگ بھی گئے ہیں ایک وجہ تو یہ رہی کہ ان پر بدعنوانی کے الزامات تھے ۔ ایسے لوگوں کے سر پر تلوار لٹک رہی تھی۔ بی جے پی نے اس کا فائدہ اٹھایا اور ایسے بدعنوان لیڈروں کو حرص و لالچ کے بجائے ڈر اور خوف دکھایا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بی جے پی پاس واشنگ مشین ہے جو بھی بی جے پی میں شامل ہوتا ہے بی جے پی کی مشین میں اس کا داغ دھل جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بعض لوگوں کو دوبارہ ٹکٹ ملنے کی ناامیدی رہی ہوگی بی جے پی میں جانے سے ان کو ٹکٹ مل سکتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی گئے ہیں جن کی تعداد اچھی خاصی ہے جو بی جے پی کی ذہنیت کے لوگ تھے ۔ دنیش ترویدی ان میں سے ایک ہیں۔ ان پر ناردا، شاردا کا کوئی الزام نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی کرپشن میں مبتلا تھے۔ ان کی ایک بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کی وہ جو ایک ریاست میں رہ کر مدد کررہے تھے وہ جگہ ان کیلئے تنگ کافی نہیں۔ تنگ ہونے کی اصل وجہ پرشانت کشور اور ابھیشیک بنرجی تھے جو ان کی فرقہ پرستانہ پالیسی کو عملی جامہ پہنانے نہیں دے رہے تھے۔ جسے انھوں نے گالی گلوج اور تشدد اور بدعنوانی جیسے الزامات سے نوازا ہے۔ حالانکہ بی جے پی سے زیادہ گالی گلوج، ظلم و ستم اور بربریت و بدعنوانی کس پارٹی میں ہوسکتی ہے؟ ایسی پارٹی جو کسانوں، مزدوروں، غریبوں، کمزوروں کی دشمن ہو، پوجی پتیوں کا ساتھ دیتی ہو ۔ بقول راہل گاندھی، مودی اور شاہ دونوں مل کر امبانی اور اڈانی کی جیب بھر رہے ہیں اور ملک کو سستے داموں میں بیچ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ساتھ وہی لوگ دے سکتے ہیں جو سرمایہ داروں کے ساتھ ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہیں۔
دنیش ترویدی کی ایک ٹوئٹ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ سیاسی میدان میں جو دوسری اننگ کھیلنے جارہے ہیں ان کے سر پر دولت مندوں کا ہاتھ ہے اور وہ تنگ جگہ سے نکل کر وسیع اور کشادہ جگہ میں اپنا ہاتھ پاؤں پھیلانا چاہتے ہیں یعنی قومی سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کو امید ہے کہ مودی اور شاہ اپنے وعدوں پر کھرے اتریں گے اور وہ بنگال میں اسمبلی کے الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی کیلئے اپنا تن من دھن لگا دیں گے۔ یہاں یہ بات کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ممتا بنرجی نے بی جے پی کو جو فائدہ پہنچایا ہے ایسے لوگوں کو لے کر ان کو اس کا خمیازہ ان کے اس کٹھن دن میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مودی اور شاہ نے ترویدی کو جو ترنمول سے نکالا ہے دو تین دنوں تک اس کا پرچار رہے گا اس کے بعد شاید ہی ترویدی کا سیاست میں ذکر خیر ہو۔ شاید یہ بات ترویدی خوش فہمی کی وجہ سے بھول گئے ہیں۔
E-mail:[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں