ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام ۲۳، سالہ مسلم نوجوان کیخلاف یرقانی خیمہ متحد
سمیــع اللّٰہ خان
شرجیل ۲۳ سال کا نوجوان ہے، اس کےخلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کے ملک گیر سطح کے لیڈران اس وقت متحرک ہیں، مہاراشٹر کے پونہ شہر میں اس کےخلاف ایف آئی آر درج کرائی جاچکی ہے، مہا راشٹر کے سابق وزیراعلیٰ نے اس کےخلاف پریس کانفرنس کی ہے۔ مہاراشٹر کے موجودہ وزیرداخلہ نے گرفتاری کے احکامات جاری کردیے ہیں، ان کےعلاوہ ہندو احیاء پرستی کے علمبرداروں نے شرجیل کےخلاف مطالبات شروع کردیے ہیں ، اس مسلم نوجوان کے خلاف ایک بے بنیادشور ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔
جبکہ شرجیل ابھی کچھ مہینے پہلے ہی یوگی آدتیہ ناتھ کی جیل سے رہا ہواہے۔ گزشتہ دنوں شرجیل مہاراشٹر کے پونہ میں ایلغار پریشد کے ایک پروگرام میں مدعو تھے، یہ پریشد مہاراشٹر میں منووادی برہمن لابی کےخلاف کام کرتاہے اور ہرسال یہ پروگرام منعقدہوتاہے، اس سال اس پروگرام میں اروندھتی رائے جیسی چوٹی کی شخصیت کےعلاوہ حقوق انسانی کے معروف کارکنوں اور صحافیوں سمیت شرجیل بھی مدعو تھے، راقم سطور بھی مہاراشٹر سے ہے، اس لیے مجھے یہاں کی سیاسی زمین کے حوالے سے اندازہ ہے کہ ایلغار پریشد کا منچ اور پونہ شہر، ایسے موقع محل میں شرجیل کی حقیقت بیانی سے ظالموں کو کتنی شدید چوٹ پہنچی ہوگی۔
شرجیل نے اپنی تقریر میں کہا کہ: ” ہمیں موجودہ ہندوستانی ریاست اور اس کے موجودہ سسٹم پر بھروسہ نہیں رہا، ” اس نے آگے ماب۔لنچنگ کرنے والی جنونی ہندوتوا بھیڑ کے حوالے سے کہا کہ: ” آج کے ہندوستان کا ہندو سماج بری طرح سڑ چکا ہے۔ 14 سالہ حافظ محمد جنید کو چلتی ٹرین میں ایک بھیڑ ۳۱ مرتبہ چاقو گھونپ کر اس کا بہیمانہ قتل کردیتی ہے، ایک چودہ سالہ بچے کو ماردیا جاتاہے ،کوئی روکنے کے لیے سامنے نہیں آتا۔”
اب اس بیان کو لیکر مہاراشٹر کی بھارتیہ جنتا پارٹی، اور سَنگھیوں نے ہنگامہ شروع کردیا، بیچاره دیویندر فڑنویس اور مہاراشٹر کی سنگھی لابی ایک عرصے سے مکھیاں ماررہے تھے، کیونکہ حکومت ان کےہاتھوں سے جاچکی ہے اور انہیں نفرت کی آگ کو ہودینے کا کوئی حربہ میسر نہیں آرہا تھا،لہذا اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے انہوں نے اچک لیا ہے۔
جبکہ یہاں بالکل کلیئر ہےکہ شرجیل عثمانی ہندو۔مذہب کو نہیں بلکہ ہندو۔سماج کے افراد پر تنقید کر رہا ہے اور وہ بھی ہندو سماج کے کونسے افراد کو؟ ہندو سماج کے وہ افراد جو ایک حافظِ قرآن کی ٹرین میں چاقو مار مار کر ماب لنچنگ کرتے ہیں، شرجیل عثمانی آگے کہتے ہیں: ” مجھے حیرت ہوتی ہیکہ اس طرح سے بے رحمانہ قتل کرنے والے اور لوگوں کی جان لینے والے کس طرح اپنے گھروں میں رہتے ہوں گے؟ لنچنگ کرنے کےبعد وہ اپنے گھر جاتےہیں ،گھروں میںمحبت کا اظہاربھی کرتےہیں ، وہ پھر واپس آتے ہیں، کسی اور کو لنچنگ میں قتل کرتےہیں اور پھر ہمارے ہی درمیان رہتےہیں ۔یعنی وہ کیسے پیار کرتے ہوں گے؟ اور کیسے اپنے ماں باپ کے پیر چھوتے ہوں گے؟ “
موجودہ ہندوستان کے مسلم سماج کا ایک ۲۳ سالہ لڑکا اگر اس طرح سوچتا ہے تو آخر کیا غلط ہے؟ مسلمانوں کو ماب لنچنگ میں قتل کرنے والوں کو سڑا ہوا نہیں تو اور کیا کہا جائےگا؟ شرجیل کی تقریر سے بالکل واضح ہیکہ اس کی تنقید مذہب پر نہیں، بلکہ اس قاتل سماج پر ہے اور سماج کے بھی ان افراد پر جو ماب۔لنچنگ کرتےہیں ، نہتے اور بے گناہ لوگوں کا بے رحمی کے ساتھ قتل کردیتے ہیں۔
ہوسکتا ہے آپ اس بیان سے اتفاق نہ رکھتے ہوں، آپ نااتفاقی ظاہر کرسکتےہیں، لیکن اس سے پہلے آپ ہندو سماج کے ان رہنماؤں کو بھی سامنے رکھیے گا، جنہوں نے مسلمانوں کے قتلِ عام کی اپیل کررکھی ہے، جنہوں نے مسلمانوں کے سماجی و معاشی بائیکاٹ کی اپیل کررکھی ہے، جو ماب لنچنگ کرنے والے ہندو دہشت گردوں کا اکرام کرتےہیں ،جو نفرت اور زہر کا بیج بوتے ہیں، یہ سب کرنے والے ہندؤوں کے لیڈران ہی ہیں ۔
لہٰذا اگر آپ شرجیل عثمانی کے بیان سے نااتفاقی ظاہر کرنا چاہیں توشوق سے کیجیے، لیکن شرجیل کے الفاظ ایسے نہیں ہیں کہ جن سے کوئی ایسا جرم ثابت ہو ،جو اس کی آزادی چھین لے، شرجیل کے بیان سے کوئی بھی قابلِ گرفتاری جرم ثابت نہیں ہوتاہے ، یہی وجہ ہیکہ ٹیلی۔کام انجینئر آرین شری واستو اور مشہور صحافی آدتیہ مینن جیسے غیرمسلموں نے شرجیل عثمانی کی حمایت کی ہے۔
اگر آپ بھاجپا لابی کے پریشر میں آکر شرجیل سے دستبردار ہونا چاہتےہیں تو یقین جانیے کہ وہ تب تک راضی نہیں ہوں گے جب تک آپ پوری ملت سے دستبردار نہ ہوجائیں ۔
شرجیل عثمانی کی ہندؤوں پر تنقید سے اگر کسی کے لیے سیکولرزم اور گنگا جمنیت ازحد متاثر ہورہی ہو تو ان کےلیے مشورہ ہیکہ وہ ہندؤوں کےمتعلق ڈاکٹر امبیڈکر اور سوامی تیرتھ کے خیالات پڑھ لے۔
شرجیل عثمانی دراصل ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ زوال پذیر صورتحال سے پیدا ہونے والا مسلم نوجوان ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے استعمار کو مسلسل سوچتے رہنے والے نوجوانوں سے ہی خطرہ ہے۔ انہوں نے شرجیل امام کو اندر ڈالا انہوں نے خالدسیفی کو جیل میں رکھا ہے اور اب وہ ایک بار پھر شرجیل عثمانی کو اٹھانا چاہتےہیں، وہ حریت پسند دماغوں کو آزاد فضاؤں میں دیکھنا نہیں چاہتے ۔
مہاراشٹر کی بی جے پی لابی کو الیکشن ہارنے کےبعد سے کوئی کام نہیں مل رہاتھا، لہذا انہیں شرجیل کے بیان کو ایشو بناکر اپنا ہندو۔ایجنڈا گرمانے اور خود کو زندہ دکھانے کا موقع ملا ہے، حالانکہ یہ مسلم نوجوان کو ٹارگٹ کرکے ہندؤوں کا ہی استحصال ہے۔
ایسے موقع پر ملت کی ذمہ داری ہیکہ وہ مضبوطی سے شرجیل عثمانی کےساتھ کھڑی ہو، یہ انتہائی ظالمانہ اور داداگیری والی بات ہیکہ متحرک مسلم نوجوانوں کو جب آپ کا جی چاہے ٹارگٹ کردیں اور تر نوالہ سمجھ کر اسے اپنا شکار بنالیں۔ آپ اس ملک میں مسلم نوجوانوں کو ایسی نفسیات میں مبتلا کرناچاہتے ہیں کہ وہ لب کشائی سے بھی گھبرائیں۔لیکن ایسا مزید نہیں ہونے دیا جائےگا، یہ قانونی بات نہیں ہے، یہ داداگیری اور غنڈہ۔گردی ہے، یہ اعلی درجے کی ہٹلر شاہی ہےکہ آپ کی انانیت پر بولنے والوں کےخلاف آپ ایسا ماحول تیار کردیں گے کہ انہیں جیل میں جانا پڑے، تا کہ ان کی جوانیاں برباد ہوجائیں ۔تب آپکی بالادست نفسیات اور اکثریت میں ہونے کے غرور کو تسکین ملے گی… مگر یہ بات ہمیشہ رکھیے کہ گھمنڈ یہ غرور باقی نہیں رہےگا۔ باقی رہنے والی چیز حریت پسندوں کی آواز ہی ہوگی،جسے دبانے اور مٹانے کی آپ کی ناپاک کوششیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گی ۔
میری مکمل حمایت اور یکجہتی شرجیل عثمانی کےساتھ ہے۔
“ہم امن چاہتےہیں مگر ظلم کےخلاف”
“گر جنگ لازم ہے تو پھر جنگ ہی سہی”
[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں