مساجد میں دوبارہ عمومی اجازت پر پابندی کا عندیہ اور افراد کی تحدید،آخر منشا کیاہے؟

0
1116
All kind of website designing

اس وقت ہمارے سب سے بڑا سوال جس نے تیس کروڑ اقلیتوں کو اضطراب میں مبتلا کررکھا ہے، ایسے میں یہ سوال ہر ذہن میں اٹھنے لگا ہے کہبھارت کے مسلمان مساجد میں اپنی عبادت کے لیے کب تک عمومی حاضری پر اسی طرح تذبذب کی کیفیت میں مبتلا رہیں گے؟
مگر یقین رکھیے! چاہے دس سال گزرجائےاور لوگوں کے دل ودماغ سے مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کا تصور ہی مٹا دیا جا ئے اور اہل ایمان گھروں میں ہی نماز پڑھنے کے عادی ہوجائیں۔حتیٰ کہ مساجد سے وابستہ رہنے کو لوگ ہلکی چیز سمجھنے لگیں ۔جیسا کہ حکومت کے کارندے کہ رہے ہیں کہ اب تو کرونا کے ساتھ ہی جینا ہوگا۔ اس لئے ۓ اب اپنے سارے طور طریقے نظام حیات سب ان کے منشا کے مطابق بدلتے جائیے، وہ تو بڑھنے کی بات کررہے ہیں گھٹنے اور ختم ہونے کی بات کرنہیں رہے ہیں ۔نعوذ باللہ من ذلک اب انسان کا زندہ رہنا اور مرنا سب کورونا جی کے ہاتھ میں آگیا ہے۔۔انسان کس سوچ میں ڈھلتا جارہا ہے حضور والاکبھی سنجیدگی سے اس کی اعتقادی اور فکری سنگینی پر بھی ہم لوگوں کو غور کرنا چاہیے ۔یہ مسئلہ اب تاکید اور عدم تاکید کا نہیں رہ گیا ہے۔ عالمی پیمانے پر فکری کھیل میں تبدیل ہوتا جارہاہے اور ہم سادہ لوح ہیں جو صرف بیماری بیماری اوروائرس کے چکرویو ہ اور گرداب میں ہچکولے کھارہے ہیں۔دوسری جانب مسلم دشمن عناصر کے ذریعہ امت کی اجتماعیت پر تیشے چلانے کے منصوبے بن رہے ہیں، ورنہ مساجد میں صرف پانچ افراد کے نماز کی اجازت کے کیامعنی؟ ہم اس کو سمجھیں یا نہ سمجھیں ہمارا دشمن خوب جانتا ہے کہ مساجد امت کی اجتماعیت کی آماجگاہیں ہیں اورمرکز کا یہ نظام مسلمانوں کے آوارہ،لفنگوں اور بگڑے ہوئے لوگوں کو ا

مفتی احمد نادر القاسمی
مفتی احمد نادر القاسمی

یمان اور مسجد تک کھینچ لانے کی فیکٹری ہے۔انھوں نے یوں ہی مرکزکونشانہ نہیں بنایا تھا، ان کے سامنے اسپین ہے ۔ماضی ہے اور ہم صرف کورونا وائرس کےمیڈیائی جال میں گھوم رہے ہیں ۔اورعرب تو پہلے ہی ان کے جال میں پھنس چکے ہیں ،ورنہ آیت قرانی ”ولاتحلقوا رؤسکم حتی یبلغ الھدی محلہ “ کا مصداق اور مفہوم اوراس صورت حال میں فریضہ حج کی ادائیگی کے احکام سے دنیا کے مسلمانوں کو آگاہ کرتے۔ اگر ان کے ذہن فکر میں اسلام کے محکمات و محرمات ذاتی منفعت اور سیاسی فائدے سے بڑھ کر ہوتی تو یہ حج کی ادائیگی سے روکنے کا اعلان از خود نہیں کرتے ۔بلکہ کہتے کہ اگر دنیا کے ممالک اپنے یہاں لوگوں کو سہولت اورآنے کی اجازت دیتے ہیں تو ہم اللہ گھر میں آنےسے انہیں نہیں روکیں گے ۔اسلامک اس کی اجازت نہیں دیتا ،البتہ اپنی ایک ر پورٹ پر پوری طبی نگرانی کا نظام بناتے۔اور یہ شرط عائد کردیتے کہ اگر آنے والے عازمین اس کے معیار پر اترتے تو حرم تک آنے کی اجازت ہوگی ورنہ وہیں سے ہدی کاجانور بھیج کر احرام کھول کر واپس اپنے ملک جائیں گے اور خسارے کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ ہمیں اسلامی اعتبارکو قبل از وقت روک دینے کا حق اسلام نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے اب یہ مسئلہ بیماری اور وائرس کا نہیں ہے، بلکہ اس کی آڑ میں بہت سی کرونولوجی کا ہے ۔نوجوان علما ٕ ٹھنڈے دماغ سے رات کی تنہائی میں غور کریں، قبل اس کے کہ پانی سر سے اونچا ہوجائے ۔لوگ کس طرح کی بات کررہے ہیں، امت کو امت بنائے رکھنے میں مساجد کا کیاکردار ہے، اس کوہلکے میں اور صرف امام کے پیچھے نماز اداکرنے تک مت لیجئے۔ سب کو معلوم ہے پوری زمین بحروبر اللہ نے مسجد بنائی ہے ہمارے سامنے والا دوسری دنیا میںگھمارہاہے اورہم فقہی موشگافیوں کی وادی میں خودبھی گھوم رہے ہیں اورلوگوں کو گھمارہے ہیں ۔بڑی گہری بصیرت سے اس کی کوکھ میں جانے کی ضرورت ہے۔ عالمی پیمانے پر کیا سیاسی گیم امت کے خلاف تیار ہورہاہے،مجھے ازراہ محبت یہ چند باتیں عرض کرنی تھیں میں نے آپ سے کہ دی ہے ۔اگر ناگوار گزرے تو ہزار بار دست بستہ معافی کا خواست گارہوں ۔آپ کا چھوٹا بھائی کل کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اللہ اپنے پیارے اور لاڈلے حبیب کی امت کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔آمین وھو علی کل شیٔ قدیر ۔

طالب دعا۔ن۔ق ۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here