ڈاکٹراسلم جاوید
2 اکتوبریعنی کل ہمارے آزاد وطن کے سیاسی ،سماجی اوروحانی پیشوابا بائے قوم مہاتما گاندھی کی جینتی ہے۔انہوں نے ہندوستانی سماج کے لوگوں کو تحقیر اور گوروں کے ذریعہ ان کی تذلیل کئے جانے کا سب سے پہلے اس وقت احساس ہوا جب موہن داس کرم چند گاندھی جنوبی افریقہ میں بیرسٹری کررہے تھے۔غلامی اور ذلت و رسوائی کے جہنم سے اپنے اہل وطن کو نجات دلانے کابیڑاانہوں نے وہیں اٹھالیا تھا۔مگر یاد رکھئے کہ اپنے ہد ف کو پانے کیلئے باپو نے تشدد کی راہ اختیار نہیں کی تھی، بلکہ انہو ں نے ستیہ گرہ اور اہنسا (عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ، ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی تھی جو عدم تشدد پر مبنی تھی۔ وطن کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے کابابائے قوم کا یہ طریقہ ہندوستان کی آزادی میں امید سے زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوا۔علاوہ ازیں بابائے قوم کاعدم تشدد تحریک کایہ طریقہ دنیا کو اتنا پسند آیا کہ ساری دنیا کے لیے حقوق انسانی، اور آزادی کی تحاریک کیلئے سرگرم اداروں اور تنظیموں نے اسی راہ پر چل کر تاریخی کامیابیا ں حاصل کیں۔ہم انہیںیعنی اپنے محسن قوم رہنما کواحترام سے مہاتما گاندھی ،باپویا بابائے قوم کے القابات سے مخاطب کرتے ہیں۔
باپونے اپنی خود نوشت میں اوردیگرسوانح نگاروں نے ان کی تحریک عدم تشددکا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے انہوں نے جنوبی افریقہ میں وکالت کے دوران وہاں مقیم ہندوستانی باشندوں کے شہری حقوق کی جدوجہد کے لیے سول نافرمانی کا استعمال پہلی بار کیاتھا اور 1915میں ہندوستان واپسی کے بعد انہوں نے کسانوں اور شہری مزدوردں کے ساتھ بے تحاشہ کھیتی میں انگریزوں کے ذریعہ لی جانے والی چنگی اور تعصب کے خلاف احتجاج کیا۔ 1921 میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعدگاندھی جی ملک سے غربت کم کرنے ، خواتین کے حقوق کو بڑھانے ، مذہبی اور نسلی خیرسگالی، چھواچھوت کے خاتمے اور معاشی خود انحصاری کا سبق عام کرنے کی مہم کی قیادت کی۔ انہوں نے ملک کوغیر ملکی تسلّط سے آزاد کرانے کے لیے ملک میں سوراج لانے کاعزم کیا اور اپنے رضاکاروں کو سوراج کا اصل مطلب سبقاً سبقاً پڑھایا۔ گاندھی جی نے مشہور عدم تعاون(سول نافرمانی) تحریک کی بھی قیادت کی۔ اس کے بعد 1942 میں انہوں نے بھارت چھوڑو،سول نافرمانی تحریک کا آغاز فوری طور پر آزادی کے مطالبہ کے ساتھ کیا۔مہاتما گاندھی نے دونوں جگہ جنوبی افریقہ اورہندوستان میں کئی سال قید میں بھی گزارے۔اب آ ئیے! ذرابابائے قوم کے ’’سوراج‘‘ کی بات کرتے ہیں ،جس سوراج کو ہندوستان میں لانے کاگاندھی جی خواب دیکھا تھا۔گاندھی جی کے سوراج کا مطلب صرف سیاسی سطح پر غیر ملکی حکومت سے آزادی حاصل کرنانہیں تھا، بلکہ اس میں ثقافتی اور سیاسی آزادی کاتصور بھی موجود ہے۔ گاندھی جی کا سوراج ’غریب کا سوراج‘ ہے، جوحاشیہ پر رہ رہے لوگوں کی بھلائی کے لیے ہر کسی کو ترغیب دلاتاہے۔ گاندھی جی کی نظر میں مثالی سماجی نظام وہی ہوسکتا ہے، جو مکمل طور پر عدم تشددسے آراستہ سماج ہو۔جہاں تشدد کاتصور ہی غائب ہوجائے گا، وہاں ’سزا‘ یا ’طاقت کے استعمال‘ کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ یعنی مثالی سماج میں سیاسی طاقت یا ریاست کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاییگی۔ گاندھی جی تشدد اور استحصال پر مبنی موجودہ سیاسی ڈھانچے کو ختم کرکے اس کی جگہ ایک ایسا نظام قائم کرنا چاہتے تھے، جوایک ایک ہندوستانی کی مرضی اور اختیارات پر مبنی ہو اور جس کا مقصد عدم تشدد کے راستیعوامی فلاح میں تعاون دینا ہو۔
مہاتما گاندھی کا ماننا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی، کبھی بھی تشدد اور جنگ سے کسی بھی مسئلے یا تنازع کا مستقل حل نہیں ہوا ہے۔ جنگ سے مسئلے کچھ وقت کے لئے تو ضرورٹل جاتے ہیں۔طاقتور کمزور کو ہرا کر، اس سے عارضی طورپر زبردستی اپنی بات منوا تو لیتا ہے، لیکن تشدد یا جنگ سے کوئی ایسا حل نہیں نکلتا جو دونوں فریق کو رضاکارانہ طور پر منظوراورپائیدار ہو۔اگر تشدد کا جواب تشدد سے دیا جاتا ہے ، تو اس سے تشدد ہی بڑھتا ہے، کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا ۔ تشدد کے خلاف لڑائی عدم تشدد کے ذریعہ ہونی چاہئے۔عدم تشدد ہی تشدد کا خاتمہ کر سکتا ہے یا اسے کم کر سکتا ہے۔ تشدد کا جواب اگر تشدد سے دیا جائے گا تو اس سے تشدد بڑھے گاہی، کم نہیں ہوگا،آج بھی ہماری بد قسمتی سے سارا ہندوستان اسی تشدد کی آگ میں جھلس رہا ہے اوراسے بجھانے کی کوشش کوکرنے والا دوردور رک نظر نہیں آتا،بلکہ اس آگ میں تیل ڈالنے والوں کی ہی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
گاندھی جی کے ستیہ گرہ کے فلسفہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے جان بانڈیورینٹ اس نتیجہ پر پہنچی تھیں کہ گاندھی جی لڑائی کو قبول کرتے ہیں،لیکن تشدد کو نہیں۔اے !کاش میڈم جان کی طرح ہمارے حکمرانوں کو بھی با با ئے قو م کا یہ فلسفہ سمجھ میں آ جاتا۔
اب آ ئیے! باپو کی سوانح میں سوراج کی کیا اہمیت بتائی گئی ہے ذرااس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔کتاب میں باپو نے لکھا ہے کہ سوراج تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب بھارت کی عظیم تہذیب کی ہر ہندوستانی تابعداری اور احترام کرے اور خود کو جدید تہذیب کے تباہ کن اثرات سے بچا کر رکھ سکے،یعنی باپو کے نظریہ کے مطابق سوراج ایک تہذیبی وراثت ہے جوساری دنیامیں اخلاقی طور پر ہندوستان کو ممتاز کرتا ہے،باپو یقین رکھتے ہیں کہ ہندوستان کی تہذیب میں کبھی بھی تشدد نہیں تھا،یعنی بھارت کی ماٹی میں تشدد کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
’’ہند سواراجیہ‘‘ میں گاندھی جی نے سواراج میں تعلیم کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ وہ ہندوستان میں دی جا رہی اعلی تعلیم کو اس لیے غیر اہم مانتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ طالب علموں کو مہذب اور اخلاق سے عبارت اقدار کا سبق نہیں دیتے۔گاندھی کے مطابق سوارج ایک مقدس لفظ ہے، یہ ایک ویدک لفظ ہے، جس کا مطلب عزت نفس کی پاسداری یعنی’’ آتم سمان‘‘ اور تحمل وبرداشت کی صلاحیت عام کرنا ہے۔ (تلخیص ’’ینگ انڈیا‘‘ 31.31.931)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت جولوگ ملک میں مہاتماگاندھی کے سوراج کے قیام کی ڈفلی بجارہے ہیں،کیا یہ ان کیلئے یہ ممکن ہے کہ وہ مذہب کا کارڈ کھیل کر’’سوراجیہ‘‘ قائم کرسکیں گے،جبکہ بابائے قوم کے سوارج میں مذہبی ہم آ ہنگی ،اونچ نیچ کی شرمناک روایت سے نجات اور تشددسے پاک نظام حکومت کو بنیاد بنایا گیا ہے۔چناں چہ سردارولبھ بھائی پٹیل نے سنگھ کے بانی گولوالکرکو ایک خط لکھ کر اس تشدد پسند تنظیم پرتبصرہ کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا تھا،انہوں نے 11ستمبر 1948 کو گو لو ا لکر کے نام اپنے خط میں لکھا تھا کہ آر ایس ایس کے پیروکار اپنے تشدد اور شرانگیزی میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کررہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سنگھ نے ہندو سماج کی بہت خدمت کی ہے۔ جن شعبوں میں مدد کی ضرورت تھی، ان جگہوں پر آپ کے لوگ پہنچے اور بہترین کام کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس سچ کو قبول کرنے میں کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوگا۔لیکن سارا مسئلہ تب شروع ہوتا ہے، جب یہی لوگ مسلمانوں سے انتقام لینے کے لئے قدم اٹھاتے ہیں۔ ہم ان پر حملے کرتے ہیں۔ ہندوؤں کی مدد کرنا ایک بات ہے، لیکن غریب،بے بس لوگوں،عورتوں اور بچوں پر حملے کرنا بالکل ناقابل برداشت ہے۔ سنگھ کے لوگوں کے بھاشن میں فرقہ پرستی کا زہر بھرا ہوتا ہے۔ ہندوؤں کی حفاظت کرنے کے لیے نفرت پھیلانے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟
اسی نفرت کی لہر کے سبب ملک نے اپنے ’’راشٹرپتا‘‘ کو کھودیا۔ مہاتما گاندھی کا قتل کردیا گیا۔ سرکار یا ملک کے عوام میں سنگھ کے لیے ہمدردی نہیں بچی ہے۔مسٹر پٹیل نے خط میں یہ لکھابھی تھاکہ’’ مجھے پوری امید ہے ملک کو آگے بڑھانے میں آر ایس ایس تنظیم تعاون دے سکتی ہے، بشرطیکہ وہ صحیح راستے پر چلے۔
ذرا سردار پٹیل کے اس مکتوب پر غور کیجئے اور مرکز میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد 2014سے انٹالرنس ،عدم برداشت،مذہبی منافرت اور ہجومی دہشت گردی میں ہورہے اضافے اوراس پر حکومت کی خاموشی کو دیکھئے۔کیاان سب کے ساتھ حکومت ہندوستان میں ’’باپو‘‘ کے سوراجیہ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکتی ہے۔بی جے پی چاہے جتنی ہانک لے ،مگر حقیقت یہی ہے کہ مذہبی منافرت،عدم برداشت اور ہجومی دہشت گردی کے علاوہ اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ ظلم کی حمایت کرکے ہندوستان کبھی بھی ترقی کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔
09891759909
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں