کیاخون کی ہولی کھیلنے کا اشارہ پولیس کو مل چکا ہے؟
میم ضاد فضلی
کل میری توقع کے عین مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شرداروند بوبڑے کی سربراہی والی بنچ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء کی گرفتار ی اور غیر قانونی طریقے سے ان پر کئے جارہے تشدد کوروکنے کیلئے دائر کی گئی درخواست کو رد کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی فریاد لے کر ہائیکوٹ جائیں۔حالاں کہ ماضی میں ایسے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں ،جس کا براہ راست عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا تھا،اور منڈل کمیشن جیسے تنازع میں بھی اسی سپریم کورٹ نے مداخلت کی تھی۔ ابھی حال ہی میں ریاست تیلنگانہ میں ’’دشا‘‘ کی اجتماعی آ برو ریزی اور اس کے قتل کے ملزمان کو پولیس کے ذریعہ مشتبہ طریقے سے انکاؤنٹر کے معاملے میں بھی اسی عدالت اور موجودہ چیف جسٹس نے ہی سخت نوٹس لیا ہے ،جس کی تفتیش ہنوز جاری ہے۔ مذکورہ واقعات کے بیان کرنے کا مقصد یہ بتا نا ہے کہ عوام اپنے اوپر ڈھائے جارہے ظلم و بربریت کی شکایت لے کر سب سے پہلے وہیں جاتے ہیں جہاں سے انہیں فی الفور مدد اور انصاف ملنے کی امید ہوتی ہے۔
کل بی جے پی کے جس جرائم پیشہ لیڈر کلدیپ سنگھ سینگر کو ایک دوشیزہ کی اجتماعی آبروریزی اور اس کے خاندان کے متعدد افراد کو قتل کرنے کے معاملے میں دہلی کی ایک خصوصی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے ، وہ کیس بھی عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر ہی اترپردیش سے دہلی ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ ورنہعدالت عظمیٰ نے اگراس مقدمہ کو ریاست سے باہر ٹرانسفر نہیں کیا ہوتا تو یقین ہے کہ یوگی کی آنکھوں کے اشارے پر کام کرنے والی یوپی پولیس اور سسٹم کے ساتھ سینگر ابھی تک آ نکھ مچولی ہی کھیل رہا ہوتا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء نے بھی عدالت عظمیٰ کا رخ ان حقائق کو پیش نظر رکھ کرہی کیا تھا۔ اس لئے کہ جب ہر چہار جانب سے کسی مظلوم کو انصاف ملنے کی امیدیں دم توڑ دیتی ہیں تو اس کےلئے آخری پناہ گاہ عدالت عظمیٰ ہی ہوتی ہے ،جہاں مایوس شہری اپنی فریاد لے کرپہنچتا ہے۔ مگر جب عدالتیں اس طرح فریادیوں کو کسی دوسرے دروازے کی طرف دھکیلتی رہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب انصاف کیلئے آپ پر سارے راستے مسدود کئے جارہے ہیں۔ مجھے یا د آتا ہے یکم دسمبر2014 کو سی بی آئی کی عدالت کے خصوصی جج جسٹس برجموہن ہرکشن لویا کی مشتبہ موت کے معاملے کی فریاد لے کراستغاثہ جب عدالت عظمی پہنچاتھا ، تو اس وقت چیف جسٹس آف انڈیا پی ستھاشیوم نے بھی فریادی کے درد کو نظراندازکرتے ہوئے واپس لوٹا دیا تھا۔ اس کے چند ماہ بعد ہی جب ستھا شیوم ریٹائر ہوئے تو امیت شاہ اور مودی کی ان پر بھرپور کرپا ہوئی اور انہیں کیرلا کی گورنری کی شکل میں انعام بھی ملا۔ اسی سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے گزشتہ 9اکتو بر 2019کو بابری مسجد کیخلاف تمام شواہد کے باوجود فیصلہ سناکر انصاف پسند دنیا کو ہلاکر رکھ دیا تھا، جس پر عالمی اداروں اور ماہرین قانون نے بھی تنقیدیں کی ہیں۔ ابھی دوہفتہ بھی نہیں گزرا جب موجودہ چیف جسٹس شرد اروند بوبڑے نے ہی انصاف کے متلاشیوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالتے ہوئے بابری مسجد کی نظر ثانی پٹیشن کو انتہائی حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا تھا۔ ذرا اسی مقدمہ پر سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے تبصرہ کو ذہن میں رکھئے اور سوچئے کہ اب مظلوموں کیلئے انصاف کے دروازے کہاں سے کھل پائیں گے۔ رنجن گوگوئی نے کہا تھا کہ ’’ کبھی کبھی وافر مقدار میں ثبوت و شواہد ہونے کے باوجود عدالت کو عوامی جذبات اور دباؤ کی وجہ سے انصاف کے خلاف بھی جانا پڑتاہے‘‘۔ بابری مسجد کے سلسلے میں عدالت کے فیصلے پر عالمی برادری ہی نہیں ، بلکہ جسٹس گنگولی اور جسٹس مارکنڈے کاٹجو سمیت اسی سپریم کورٹ کے نصف درجن سابق چیف ججز اور ماہرین قانون بہت کچھ کہہ اور لکھ چکے ہیں۔
رنجن گوگوئی کے اس تبصرہ کو باریکی سے دیکھنے والی دوربین آ نکھیں آج یہ صاف صاف دیکھ رہی ہیں کہ اب عوامی جذبات یا دباؤ تو بڑی دور کی چیز ہے، یہاں تو عدالت ہی پوری طرح سے حکومتِ وقت کے پنجۂ استبداد میں جکڑی ہوئی ہے اور کراہ بھی رہی ہے۔ یہاں مجھےاس سلسلے کا ایک اور لرزہ خیز واقعہ یاد آرہا ہے ،جسے بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔8اکتوبر2017کو سچائی ،غیر جانبداری اوراپنی حق گوئی و بے باکی کیلئے مشہور نیوز پورٹل ’’دی وائر‘‘ کے سبھی ایڈیشنوں میں امیت شاہ کے بیٹے جے امیت شاہ کی دولت نوٹ منسوخی کے دوران سولہ ہزار گناہ بڑھنے کی خبر شائع ہوئی تھی ،اس خبر نے بی جے پی اور بھگوا بریگیڈ کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا تھا، اس لئے کہ یہ سارا کالا دھندہ جس کو آپریٹیو بینک سے چل رہاتھا ،اس کے چیئرمین یعنی سروے سروا یہی آئین ہند کے سب سے بڑے دشمن امیت شاہ ہی تھے۔اس زمانے میں لگ بھگ ایک ہفتہ تک گودی میڈیا کو چھوڑ کر تمام صحافتی اداروں اور چینلوں پر اس موضوع پر پرلطف بحثیں چلی تھیں۔ ایک ٹی وی چینل کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس کے مشاق لیڈ ر اکھلیش سنگھ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم مودی کی نوٹ منسوخی کے جس ظالمانہ فیصلے نے دوسو لوگوں کی زندگیاں چھین لی، خاندان کا خاندان ویران کردیا ، جس فیصلے کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کی نوکریاں چلی گئیںں، ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی گئی ،ایسے وقت میں بی جے پی کے صدر کے بیٹے کی دولت میں سولہ ہزار گنا اضافہ اپنے اندر کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔ اسی بحث کے دوران ایک بھاجپائی اسپوکس پرسن نے دہاڑتے ہوئے اکھلیش سنگھ سے کہا تھاکہ جب آپ اتنے شبہات اور اعتراضات ظاہر کررہے ہیں تو چارہ جوئی اور ’’منصفانہ‘‘ جانچ کیلئے عدالت کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹاتے۔ انہوں نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہاتھا کہ اس وقت عدالتیں یا ایجنسیاں حتیٰ کہ ای ڈی، این آئی اے یا سی بی آئی کتنی خود مختار ہیں وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہمارے دورحکومت میں سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو حکومت کا طوطا قرار تھا۔ مگر پھر بھی غنیمت یہ تھی کہ وہ طوطا آزاد تھا ۔مگر آج تو اس طوطے کو بھی آہنی پنجرے میں قید کیا جاچکا ہے۔ اگر آج اکھلیش سنگھ کے اس دعویٰ کے تناظر میں خود مختار کہے جانے والے اداروں کی سرگر میوں کا بغور جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے خود مختار اداروں کے اختیارات ہی سلب نہیں کئے گئے ہیں، بلکہ انہیں لنگڑا لولا بناکر بٹھادیا گیا ہے، جہاں سے وہ حکومت کے سہارے کے بغیر ہل ڈول بھی نہیں سکتے۔
جامعہ ملیہ میں پولیس کے بھگوا رول کی شکایت پر عدالت نے جو جواب دیا ہے اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب ملک کی عدالتیں بھی حکومت وقت کی مرہون منت بنائی جاچکی ہیں۔ حالاں کہ جامعہ کیس میں تشدد کس نے کیا ،ابھی یہ پردۂ راز میں ہی ہے، جبکہ پولیس کی لاقانونیت کی داستانیں ویڈیو کی شکل میں دنیاکے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچ چکی ہیں۔اسی درمیان سالیسٹر جنرل تشار نے عدالت کے سامنے بغیر کسی شرم و حیا کے سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہا ہے کہ جامعہ کے طلباء کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی ہے اور نہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا گیا ہے، جبکہ کل ہی ایف آئی آر کی جو کاپی مجھے دی گئی ہے اس میں جامعہ کے دو طالب علم کانام بھی شامل ہے۔اگر واضح لفظوں میں کہیں تو مسٹر توشار دہلی پولیس کی زبان بول رہے ہیں۔ جبکہ پولیس کی عوام اور طلباء دشمن شبیہ آج جگ ظاہر ہوچکی ہے۔ وکلاء نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا تھا کہ پولیس جامعہ یونیورسٹی میں داخل ہوئی ، طلباء کو زدوکوب کیا اور ان کے ساتھ بے رحم دشمنوں جیسا برتاؤ کیا، جبکہ تمام طلبہ نہتے تھے ، پولیس اگر انسانیت دوست ہوتی تو انہیں آسانی سے گرفتار کرسکتی تھی۔اجمالاً یہ کہ درخواست پولیس کی زیادتیوں کیخلاف داخل کی گئی تھی اور عدالت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ پہلے تشدد بند کروایا جائے، مگر عدالت نے کسی بھی درخواست کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ ایسا لگتا ہے کہ عدالت پہلے ہی فیصلہ کر چکی تھی کہ تشدد طلباء نے ہی کیا تھا اور وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ جبکہ طلبا اور جامعہ کا ایڈمنسٹریشن بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ بس جلائی جانے واردات میں وہ لوگ شامل نہیں تھے اور دوسرے کے گناہ کی سزا بے قصور طلباء کو دینے کیلئے دہلی پولیس غنڈہ گردی پر اتر گئی ہے، مگر عدالت نے بہ یک قلم مظلوم طلباء کو ہی مورد الزام ٹھہرادیا۔
ایک منٹ کیلئے مان بھی لیا جائے کہ پرتشدد مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ دوچار طلبا بھی ممکن ہے شامل ہوگئے ہوں ؟ تو کیا عدالت کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ قصوروار جو طلبا تھے ، پولیسیا کارروائی ان کے ساتھ کی جانی چاہئے ، نہ کہ نہتے اور بے گناہ طلبہ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے جائیں ، کمزور طالبات کو زدوکوب کیا جائے، لائبریری کی لائٹ بند کرکے ان کے ساتھ زیادتی کی جائے۔ کیا عدالت کو اس میں بھی جانچ کرانے جیسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ میں ملک میں سی اے اے کیخلاف احتجاج کرنے والے احباب سے پھر وہی کہوں گا کہ حکومت ڈھیٹ ہے اور فریاد رسی کیلئے آپ پر سارے دروازے بھی بند کئے جاچکے ہیں۔ ان حالات میں کون سی راہ اختیار کرنی ہے یہ فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے ، مگر یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی ہوگی کہ آپ کے ذریعہ معمولی تشدد بھی پولیس کو خون کی ہولی کھیلنے کا جواز فراہم کردے گا جس کا اشارہ دہلی پولیس کو غالباً شاہ کی ڈیوڑھی سے مل چکاہے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں