مقصود انور مقصود
دوحہ ،قطر
پانچ اگست2019کو ایوان بالا میں جموں کشمیر سے آرٹیکل 370کے نفاذ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ریاست کے خصوصی درجہ کی حیثیت کو اس سے چھین لیا گیا۔وزیر داخلہ امت شاہ جس وقت یہ تجویز پیش کررہے تھے اس وقت ایوان میں حزب ا
ختلاف نے ہنگامہ برپاکیااور شور شرابہ کے درمیان اپنی قوت کے زعم میں بی جے پی نے اپنے خریدے ہوئے میڈیا کے ذریعہ وہ پروپیگنڈہ کیاکہ گویا اس نے بہت بڑا قلعہ فتح کرلیا ہو۔اس کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی ،وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سمیت بی جے پی کے تمام مہارتھیوں نے پورے ملک میں اس فیصلے کا اتنا زوردار پرچار کیا کہ لگ بھگ چار ماہ تک کان پڑی آواز نہیں سنائی پڑتی تھی۔ چونکہ اس وقت ملککا لگ بھگ 95فیصد قومی میڈیا صحافتی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر بی جے پی اور مودی کا جمورا بناہوا ہے، لہذا ریاست جموں و کشمیر کی تازہ اور صحیح صورت حال ابھی بھی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔البتہ ہندوستان میں کشمیر ایشو بی جے پی کیلئے کارگر ثابت نہیں ہوسکا ،اس کا ندازہ ریاست ہریانہ اور مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات کے برآمد شدہ نتائج سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ خود وزیر اعظم مذکورہ دونوں ریاستوں کے مقامی مسائل کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے کشمیر سے اس کے خصوصی ریاست کا درجہ چھین لینے کو بھنانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ، انہوں نے ایک بار بھی ملک کے مقامی کسانوں کی حالت زار خصوصاً مہارشٹرا میں 12ہزار سے زائد کسانوں کی خود کشیوں پر اظہار تعزیت یا افسوس کا ایک جملہ بھی زبان سے ادا نہیں کیا۔اسی طرح ہریا نہ میں بے روزگار نوجوانوں اور ختم ہوتے ہوئے روزگار کے مواقع پر کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیاگیا، فسطائی طاقتوں کو بس یہی خام خیالی گم کئے رہی کہ وہ کشمیر کے ایشو پر ہی انتخاب جیت لے گی اور ریاستوں کے ستم زدہ عوام کو دھرم کی افیم کے نشے میں ڈبوکر کرسیِ اقتدار پر فائض ہوجائے گی۔ مگر یہ سازش اس کے کام نہ آئی اور ہریانہ میں ”اب کی بار پچھترپار“ کے دعویٰ کی ہوا نکل گئی ۔نتیجہ یہ ہواکہ ریاست ہریانہ میں غالب اکثریت تو دور واضح اکثریت حاصل کرنے میں بھی فسطائی طاقتیں ناکام رہیں ،البتہ دشینت چوٹالہ کی بیساکھی پر سوار ہوکر منوہر لال کھٹر کو ہلتی ڈولتی کرسی ضرور مل گئی ہے۔ لیکن یہ بھی کافی جوڑ توڑ سے ممکن ہوسکا ہے، جس میں بی جے پی کافی ماہر مانی جاتی ہے۔ اسے اقتدار چاہئے ،چاہے اس کیلئے اراکین اسمبلی کو خریدنا پڑے یا دوسری جما عتو ں میں سرمایہ کے زور پر سیندھ ماری کرنی پڑے، بی جے پی کو کبھی بھی اس میں کوئی مان مریادا کا خیال نہیں رہتا ۔
بہر حال جو ہونا تھا وہ ہوگیا، ساری دنیا میں حکومت ہند کے کشمیر پر فیصلے کیخلاف حمایت و مخالفت میں آوازیں اٹھیں اور آج بھی اس موضوع پر بحث جاری ہے۔ ہندوستان کے بیشتر الکٹرانک و پرنٹ میڈیا اس پر خاموش ہیں، وہ بھی اس لئے کہ کشمیر کا مدعا بی جے پی کیلئے کارآمد ثابت نہیں ہوسکااور اسے بھنانے میں وہ غچہ کھاگئی۔ادھرستم زدہ کشمیریوں کے زخموں پروقت کے مرہم نے پپڑی جمادی ہے، مگر تابکے ، یہ خاموشی کسی طوفان کی آمد سے پہلے والے سناٹے جیسا دکھائی پڑتی ہے۔اگرچہ ان کی زبانیں گنگ ہیں ،مگر آہیں اور سسکیاں ان کا جیون ساتھی بن چکی ہیں ، یہ وہی آہ ہے جس کے بارے میں شیخ شیرازی نے کہا تھا:” مظلوموں کی آہوں سے بچو!اس میں اس قدر شدت ہوتی ہے کہ اگر وہ سمندر میں ڈال دی جائے تو اس میں بھی آگ لگادے گی۔ میرے اس شعر سے بھی کچھ اسی فکر کی ترجمانی ہوتی ہے۔
بے زباں مظلوم کی آہوں سے رب ذوالجلال
تو اڑادے وقت کے ہر ظل سبحانی کا رنگ
دیکھئے! آہوں نے رنگ دکھانابھی شروع کردیا ہے ،جس کا آغاز مہاراشٹرااور ہریانہ کے انتخابی نتائج سے ہوچکا ہے، البتہ آگے آگے دیکھئے رسوائیاں کہاں تک ظالموں کا پیچھا کرتی ہیں۔ہندوستان میں میڈیانے اگرچہ کشمیر کے موضوع کو نسیامنسیا کردیا ہے۔ مگر عالمی میڈیا میں ابھی بھی اس حوالے سے خبریں اور تجزیے دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں۔البتہ آنے والے وقت میں وادیِ جنت نظیر میں کیا تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں یہ ابھی پردہ¿ خفا میں ہیں ۔مگر ایک بات جو زیادہ تر کشمیریوں کیلئے انتہائی حوصلہ آزما اور مایوس کن ہونے والی ہے، وہ وہاں کی ریاستی زبان کو تبدیل کرنے کا مسئلہ ہے۔ چونکہ ابھی تک وہاں کی دفتری زبان اردو تھی ،لہذا کشمیری عوام اپنے بچوں کو ضرورتاً ہی سہی مگر اردو لازماً پڑھواتے تھے، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ جموں اینڈ کشمیر کے خصوصی درجہ کے خاتمہ کے ساتھ اس کی سرکاری زبان پر بھی شب خون مارنے کی سازش ہورہیہے۔ جس سے مستقبل قریب میں کشمیری عوام بالخصوص مسلمانوں کیلئے متعدد اندیشے منہ بائے کھڑے ہوگئے ہیں۔ چوں کہ ریاست کے عوام کی اکثریت کو ہندی نہیں آتی اور انہوں نے کبھی بھی اس کو بطور زبان اختیار کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ،لہذا اب جبکہ تمام دفتری امور ہندی میں انجام دیے جائیں گے تو سرکاری حکام اپنی مرضی سے جوچاہیں گے وہ کشمیریوں کے ڈاکیومنٹس اور دستاویزات میں خاموشی سے لکھ دیں گے۔ کہیں باپ کے نام میں تلفظ (ہجے)کی غلطی (Spelling Mistake) ہوگی تو کہیں خود ان کے نام کو ہی الٹا سلٹا لکھ کر ان کی شہریت کو مشکوک کرنے کا عمل شروع ہوگا۔ اگر اس سلسلے کی کوئی مثال دیکھنی ہوتو ریاست آسام میں جو 19لاکھ افراد این آر سی لسٹ سے باہر کئے گئے ہیں، ان کے ذریعہ پیش کردہ دستاویزات کا جائزہ لے لیجئے ، آپ بآسانی جان لیں گے کہ محض ہجے کی چوک کی وجہ سے لاکھوں افراد کی شہریت چھین لی گئی ہے۔کل امریکہ کے ایک وفاقی ادارہ یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم (USCIRF)نے مودی حکومت کی سخت تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ آسام میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اگر حکومت اس معاملے میں بددیانت نہیں ہے اور ریاست کے عوام کیخلاف ان کے ذہنوں میں خیانت نہیںگھسی ہوئی ہے تو فی الفور سرکاری زبان کو تبدیل کرنے سے قبل ہندی زبان سیکھنے اور لکھنے پڑھنے کا کشمیریوں کو موقع دیا جانا چاہئے۔ اس وقت کشمیر کے پورے خطے میں اردو کو ایک مشترکہ زبان سمجھا جاتا ہے۔ یہ زبان کشمیر اور ہندوستانی انتظامیہ کے درمیان ایک لنک کے طور پربھی کام کرتی ہے۔یہ نہ صرف پڑوسی ملک پاکستانی انتظامیہ کے ساتھ ، بلکہ عسکریت پسند وں کے کیمپوں میں تربیت یافتہ نوجونوں کے ساتھ بھی ،جن کی زبان بنیادی طور پر اردو ہے، سرحد کے دوسری طرف ایک لنک کے طور پر کام کرتی ہے۔یہ اپنی مختلف شکلوں میں بولی جاتی ہے ، نہ صرف مسلمان بلکہ اعلیٰ ذات کے ہندو¿وں کے علاوہ سکھوں، عیسائیوں، بودھوں اور دیگر مذہبی اور نسلی گروہوں کے ذریعہ بھی رابطے کی زبان کے طور پر مستعمل ہے۔
کشمیر میں گوجری کے نامور اسکالر جاوید راہی نے اپنی کتاب ”جموں وکشمیر کے قبائلی گروہوں اور ان کی زبانیں“ میں ذکر کیا ہے کہ ” کشمیر اور لداخ کے بہت سارے ثقافتی گروہوں ،جیسے گوجر، بلتی، درد، بیدا، مون، گارا اور چانگپا اپنی زبانوں کو لکھنے کیلئے اردو کا ہی فارسی وعربی رسم الخط استعمال کرتے ہیں ۔اردو کے بہت سارے الفاظ کو مستعار لئے ہیں اور اسی کے تعاون سے اپنی مقامی ثقافتوں کو محفوظ رکھتے ہیں“۔
وادیِ کشمیر میں اردو کو مسلمانوں اور ہندو¿ں کے درمیان وقار کا درجہ حاصل ہے ۔مسلم والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اپنی مادری زبان کشمیری کے برخلاف ترجیحاً اردو بولیں ۔1990کے بعد پیدا ہونے والی نسل تعلیم اور ملازمت دونوں کے لحاظ سے ہندوستان میں اپنی وابستگی کو آسان بنانے کی غرض سے اردومیں گفتگو کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ بہر حال ریاست جموں اینڈ کشمیر میں کن مجبو ر یو ں کے پیش نظر اردو کو سرکاری زبان بنایا گیا تھا ،اب اس پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے۔ آزاد ہندستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ 1947 یعنی ہندوستان کے بٹوارے کے بعد سے ہی اردو زبان سازشوں کا شکار رہی ہے اور چند مخصوص ذہنیت رکھنے والے اس کے خاتمے کے لئے نت نئے منصوبے آئے دن بناتے آئے ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اگرچہ اردو کا خون کردیا گیا، مگر جموں اینڈ کشمیر میں اردو اپنا وجود بچائے رکھنے میں کامیاب رہی۔جموں و کشمیر ہندوستان کی واحد ریاست ہے جہاں کی سرکاری زباں اردو ہے۔ڈوگرہ راج میں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے1889میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دلایا تھا۔یہاں کی کثیر لسانی صورت حال کے پیشِ نظر اردو ایک اہم ضرورت بن گئی تھی اور یہ ضرورت بدستور قائم ہے۔یہاں کے ہر علاقے کشمیر،جموں،لداخ، مظفر آباد،گلگت بلتستان کی مقامی زبانیںایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کشمیری،ڈوگری،لداخی ،پہا ڑ ی ، شنا، بلتی کے علاوہ بہت ساری نسلوں،تہذیبوں اور مذہبی اکا ئیو ں سے وابستہ زبانیں مثلاً گو جر ی ، پشتو ، پنجابی، بھد ر و ا ہی ، بکر و الی وغیرہ۔ان تمام زبانوں کے درمیان اردو کو رابطے کی زبان کا درجہ حاصل ہو گیا ۔یہ اردو ہی تھی جس نے ریاست کی وحدت کے لئے اپنائیت کادھاگا بن کر لسانی طورپر منتشر دانوں کو ایک ہی لڑی میں پرودیا۔اس زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی بھی علاقے کی مادری زبان نہیں، بلکہ سب کی لسانِ مشترک ہے۔ریاست کا کوئی بھی باشندہ اردو بول اور سمجھ سکتا ہے۔یہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کا پس منظراور چندضروری محرکات تھے۔ مگر کشمیر سے دفعہ370کے خاتمے کے ساتھ بی جے پی وہاں سرکاری زبان کو بھی ختم کردینے کا ارادہ رکھتی ہے، بلکہ درپردہ اس پر کام بھی شروع ہوگیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ ماہ بی جے پی کے حامیوں نے دعویٰ کیاتھا کہ اردو کو اب اس خطے کی سرکاری زبان نہیں رہنے دینا چاہئے۔ان کی خواہش ہے کہ کشمیری زبان سے فارسی-عربی حرف تہجی کو چھین لیا جائے ،جس کا استعمال اردو کیلئے کیا جاتا ہے۔اگر ریاست میںاردو کیخلاف یہ فسطائی سازش بھی کامیاب ہوگئی تو اس کا کتنا براانجام ہونے والا ہے ،اس کی جانب مندرجہ بالاسطور میں آسام کے ”این آرسی“ قضیہ کو بطور مثال سامنے رکھ کر اشارہ کیا جاچکا ہے۔لہذا اردو والوں کو وقت رہتے اس کا نوٹس لینا ہوگا ،ورنہ ایک ناقابل برداشت آفت کشمیریوں کے استقبال کیلئے پھر کھڑی ہوگی اور فسطائیت وادیِ جنت کو ایک بار پھر جہنم بنانے کے سفرپر گامزن ہوجائے گی۔اس وقت تو صورت حال با لکل افسردہ معلوم ہوتی ہے۔ مگر اس میں سسکیاں موجود ہیں جو کب چنگاری بن جائے یہ خدائے وحدہ¾ لاشریک ہی بہتر جانتا ہے۔
سب نے محفل میں چہکتے ہوئے دیکھا ہے مجھے
کس نے تنہائی میں دیکھا ہے سسکنا میرا
مقصودانورمقصود
E-mail : [email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں