حکیم نازش احتشام اعظمی
میڈیکل آفیسر ساؤتھ دہلی میونسپل کارپوریشن، کالکا جی
ایک صحت مند جسم کے لیے صحت مند دماغ کا ہونانہایت ضروری ہے۔ ایسی بے شمار بیماریاں جیسے سردرد، حافظے
کی کمزوری، ذہنی تھکان، بصارت کی کمزوری، ہکلانے کی عادت، ذہنی تناؤ و دباؤ، احساسِ کمتری یا اس طرح کی دیگر بیماریاں جو کہ ذہنی و نفسیاتی ہوتی ہیں، لیکن ان کی طرف سے لاپرواہی برتی جاتی ہے جو آگے چل کرجسمانی عوارض کا باعث بن کر کئی پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہیں۔ اس لیے اگر ایسے امراض کا علاج کرنے کے لیے منفی نفسیاتی عناصر کا تدارک کیا جائے تو جسمانی بیماریاں خود بخود دُور ہونے لگتی ہیں۔دماغی امراض کی تباہ کاری اور ڈپریشن سمیت دیگر ذہنی بیماریوں میں عالمی سطح پر ہورہے اضافہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے عالمی ادارۂ صحت نے 1992میں ماہ اکتوبر میں ہر سال” ورلڈ مینٹل ڈے“ منا نے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب سے دنیاکے بیشتر ممالک میں پابندی کے ساتھ یہ دن منایا جاتا ہے۔اس دن محققین اور سائنداں و اساتذہ میڈیکل سائنس دماغی صحت اور اس کی اہمیت پر گراں قدر لیکچرس دیتے ہیں ، ڈپریشن کی تباہ کاری سے بچنے اور دماغی طور پر صحت مند رہنے کے ٹپس بتاتے ہیں ، عوام میں بیداری پیدا کرتے ہیں۔عالمی ادارۂ صحت نے ڈپریشن کے تعلق سے بتایا ہے کہ ہے دنیا بھر میں خود کشی کے جو واقعات سامنے آرہے ہیں ، اس کا بنیا دی سبب دماغی مرض ہی ہے، جو دنیا کی بڑی آبادی کو اپنے لپیٹ میں لے رہا ہے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فی40 سیکنڈ ایک آدمی خود کشی کررہا ہے، ایک دوسری رپورٹ بتا تی ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں450ملین افراد دماغی امراض کے شکار ہیں۔ ساڑھے کروڑ دماغی مریضوں کی یہ تعداد کم بڑی نہیں ہے۔ اس سے بھی خطرناک امر یہ ہے اس مرض کے تعلق سے ماہرین صحت اور ڈپریشن پر تحقیقات کرنے والے اداروں سائنسدانوں کی جانب سے جورپورٹ آ رہی ہے وہ اور بھی زیادہ چونکانے اور بے ہوش کردینے والی ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے اگر اسی طرح ذہنی امراض کے شکار افراد تعداد بڑھتی رہی تو 2022تک دنیا کا ہر دوسرا فرد اس کی تباہ کاری سے دوچار ہوگا۔ اس وقت ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ذہنی امراض کی لپیٹ میں ہے۔ ذہنی صحت زوال پذیر ہے۔ کشمکش اور تناو_ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انسانی رشتوں کی مطابقت ختم ہوتی جا رہی ہے اور مادیت کے لوازمات بڑھتے جارہے ہیں۔
مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی اور انسانی اقدار میں زوال، سماجی زندگی میں روابط کی کمی اور تنہائی ذہنی صحت کو تیزی سے تباہ کر رہے ہیں، خوشیاں مفقود ہو رہی ہیں اور ذہنی و جسمانی عوارض بڑھتے جا ر ہے ہیں، بالخصوص بڑے شہروں میں نیند کی کمی، جھنجھلاہٹ، غصہ، ڈپریشن،عضلاتی تناو_ اور ان جیسے دیگر کئی عوارض عام ہوتے جا رہے ہیں۔ رب العالمین نے انسان کو عقل کا نور اور ایسا فہم و شعور عطا کیا ہے جس کے ذریعے وہ دانائی و ہوش مندی کے ذریعے اچھے اور بُرے کی تمیزکرتا ہے اور یہی وہ نعمت ہے جو تمام جانداروں میں انسان کو ممتاز کرتی ہے۔
یاد رکھیں کہ زندگی کے مسائل ہمیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مسائل ہی زندگی کو بامقصد اور دلچسپ بناتے ہیں۔ اگر انسان زندہ ہے تو اُسے دُکھ سُکھ اور مختلف مسائل کا سامنا کرنا ہے اور زندگی کی روانی ان ہی سے مربوط ہے۔ جب انسان اپنے مسائل سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اس کے اثرات دوسروں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔اس کے برعکس جب انسان اپنے مسائل کے سامنے ہار مان لیتا ہے تو اس کا ذہن بیمار ہونے لگتاہے جس کی وجہ سے اس میں کئی قسم کی ذہنی و نفسیاتی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔
ذہنی امراض کے مریضوں کی علامات ایسی ہوتی ہیں کہ عموماً ان کے گھر والے ان پر جنات کا سایہ سمجھ لیتے ہیں اور فقط دم درود کو ہی علاج قرار دیتے ہیں یا پھر کسی نام نہاد پیر کے پاس لے جا کر اس کے جن نکلوانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، لیکن جن اندر ہو تو باہر نکلے ، بس پیر صاحب کی جیب میں بہت کچھ چلا جاتا ہے۔ ہمارے اِردگرد بہت سے ایسے مریض ہوتے ہیں جو بظاہر صحت مند نظر آتے ہیں بلکہ صحت مند لوگوں سے زیادہ بہتر کام بھی کر لیتے ہیں اور اس کی وجہ صرف ان کی قوتِ ارادی اور پریشانیوں سے لڑنے کی طاقت میں پوشیدہ ہے۔ وہ عوارض کو اپنے عزت و وقار پر حاوی نہیں ہونے د یتے اور آخری سانس تک باہوش انداز میں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے نبرد آزما رہتے ہیں اور یہی ایک انسان کی کامیابی کی شاہ کلید ہے۔
ذہنی امراض کے بے شماراقسام ہیں۔ایک مرض ڈیلوژن آف ریفرنس ( Reference of Delusion) ہے۔ اس مرض کے شکار مریض کو ایسا گمان ہوتا ہے کہ لوگ اس کے متعلق باتیں کر رہے ہیں۔ ٹی وی دیکھنے، ریڈیو سننے ، اخبار یا کتاب پڑھنے پر،کہیں تعریف ہو رہی ہو یا برائی وہ اسی قسم کی صورتحال میں مبتلا رہتے ہیں۔
اسی طرح کچھ افراد ڈیلوژن آف پرسیکیوشن (Delusion of Persecution) کا شکار ہوتے ہیں، ایسے افراد کو دوسروں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے، کھانے پینے کی اشیاءزہر آلود ہونے کا گمان ہوتا ہے۔کچھ افراد ڈیلوژن آف پیسویٹی (Passivity of Delusion ) کا شکار ہوتے ہیں ،اس مرض کے شکار افراد کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جو کچھ و ہ سوچتے ہیں وہ سب کو معلوم ہو جاتا ہے، ایسے بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کے خیالات ان کے نہیں ہیں، جبکہ دوسروں کے خیالات پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ تو میرے خیالات ہیں، اس شخص کو کیسے معلوم ہو گئے۔جذبات اور ہیجانات انسانی جسم پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے ذہنی و جذباتی عوامل انسانی جسم کو متاثر کرتے ہیںجن میں بہت زیادہ فکر مندی و تشویش سے معدے کا السر ،خوف و صدمہ کی وجہ سے کمزور ی و غشی ، ذہنی تناو_ کے سبب سردرد ، بہت زیادہ پریشانیوں سے انسان کی جنسی صلاحیتوں پر منفی اثرات، بہت زیادہ غصے میں ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ ، بہت زیادہ فکر مند ی کی وجہ سے جِلد پر جھریاں اور بال وقت سے پہلے سفید ہو جانا اور نظام ہضم کے بگاڑ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں ورنہ انسان کے ذہنی و جذباتی عوامل اس کے جسم پر اثر انداز ہو کر بہت سے پیچیدہ ذہنی ، جسمانی و نفسیاتی امراض پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
ایسے افراد جو تھوڑی سی بیماری سے بہت زیادہ پریشان ہو کر اس بیماری کو ذہن پر مسلط کر لیتے ہیں وہ دیر سے صحت مند ہوتے ہیں، جبکہ ایسے افراد جو بیماری کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دیتے وہ بہت جلد یا کئی بار بغیر کسی دوا کے ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بیماری کو ذہن پر سوار کرنے سے قوتِ مدافعت کمزور ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم صحت مندی کی طرف راغب ہونے میں دیر لگا دیتا ہے، جبکہ بیماری کو مسلط نہ کیا جائے تو قوتِ مدافعت مستحکم رہتی ہے اور بیمار جسم جلد ٹھیک ہو جاتا ہے۔
24 گھنٹوں کے دوران 8گھنٹے کی نیند لازمی لیں تاکہ دن بھر کی تھکاوٹ دور ہو سکے اور جسم و دماغ کھوئی ہوئی توانائی بحال کر لیں،کھانا آرام و سکون سے کھائیں، غصہ، حسد اور کینہ جیسی منفی عادات سے احتراز برتیں، غصے کے دوران ہمیشہ ضبط سے کام لیں، لوگوں سے ہمیشہ خوش اسلوبی سے ملیں اور چھوٹی موٹی باتوں کو درگزر کریں۔ہر بات کو اپنے ذہن پر سوار مت کریں، اگر کوئی ناموافق بات سنیں یا نظر آئے تو اسے بھلانے کی کوشش کریں، چھوٹوں سے پیار و محبت اور بڑے افراد کا ادب کریں، لالچ ، حرص و ہوس سے گریز کریں، ہر قسم کے نشہ سے دور رہیں ،احساسِ کمتری کو کبھی اپنے اوپر غالب نہ آنے دیں اور مراقبہ یعنی خاموشی و یکسوئی سے ارتکاز اور ورزش کی عادت ڈالیں جو ذہنی و جسمانی صحت کیلئے اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عمومی طور پر لاحق ہونے والے ذہنی و نفسیاتی امراض میںانگزائیٹی ،فکر، تشویش، اعصابی دباو، احساسِ کمتری، اعصاب زدگی، الزائیمر، تنہائی پسندی، بے خوابی وکم خوابی، بسیار خوابی و خراٹے لینا ، نیند کے دوران سانس کا رکنا، پاگل پن، پارکنسن ڈیزیز،رعشہ، حسد، حافظہ کی کمزوری، خوف کا فوبیا، خود اعتمادی کا فقدان، خیالات کا تسلط اور تکرارِ عمل ، ڈپریشن ،افسردگی ، ذہنی اضمحلال، بائی پولر ڈس آرڈر، ذہنی تناو اور دباو، سردرد اور دردِ شقیقہ، شینزوفرینیا، فرسٹریشن ، احساسِ محرومی، فالج و لقوہ، مرگی، وہم اور ہسٹیریا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ چند ایک بیماریاں ہیں جن کے متعلق عموماً معاشرے میں جنوں کے سایہ کی باتیں کی جاتی ہیں، حالا نکہ یہ مکمل طور پر ذہنی و نفسیاتی عوارض ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ ان کی طرف دھیان دیا جائے اور ان کا مکمل علاج معالجہ کرایا جائے تو یہ افراد بھی معاشرے کے دیگر صحتمند افراد کی طرح بہتر ،خوشحال، قابلِ تکریم اور پ_±روقار زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
اس دور میں جب دنیا بھر میں دماغی امراض جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے تو ہمیں نوجوانی سے ہی دماغ کے لیے صحت مند غذاوں کے انتخاب پر غور کرنا چاہیے۔میری ذاتی رائے یہ ہے اس مرض کے حملہ آور ہونے سے پہلے ہی ان تمام احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لایا جائے ،جس سے دماغی امراض آ گھیرتے ہیں۔ ذیل میں روز مرہ کی زندگی میں استعمال کی جانے والی عام غذا وں اور پھل سبزیوں کی نشاندہی کی جارہی ہے ،جن کے استعمال سے دماغی امراض حاوی نہیں ہوتے اور اس کے حملہ آور ہونے سے قبل ہی ہمارے جسم کا دفاعی نظام اسے روکنے کیلئے تیار اور متحرک ہوجا تا ہے۔ درج ذیل میں دی گئی غذاوں کا استعمال بڑھا کر آپ دماغی صحت کو بہتر بناسکتے ہیں۔
ہری سبزیاں مجموعی صحت کے لیے بہترین انتخاب ثابت ہوتی ہیں، ان میں اینٹی آکسیڈنٹس، فائبر، لاتعداد وٹامنز اور نیوٹریشنز سمیت دیگر فائدہ مند اجزاءشامل ہوتے ہیں۔ ایسی سبزیوں میں آپ کے پاس انتخاب کے لیے پالک، ساگ اور ایسی ہی دیگر سبزیاں موجود ہیں۔ ضروری نہیں کہ روز انہیں کھایا جائے تاہم ہفتے میں ایک بار ضرور آپ کی غذا میں انہیں شامل ہونا چاہیے۔
اومیگا تھری فیٹی ایسڈز دماغی صحت اور طاقت بڑھانے کے لیے قدرت کی جانب سے دیے جانے والے بہترین اجزاءمیں سے ایک ہے۔ اگر آپ ہر عمر میں اپنے دماغی افعال کو بہترین رکھنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی غذا کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی ایک قسم ڈی ایچ اے یاداشت کو بہتر بنانے کے لیے بہت زیادہ ضروری ہوتی ہے اور اس کے لیے آپ کو مچھلی کو اپنی غذا کا حصہ بنانا ہوتا ہے، جبکہ مچھلی کا تیل بھی ایک بہترین متبادل ثابت ہوتا ہے۔ ہفتے میں دو بار ڈی ایچ اے کا استعما ل دماغی صحت کے لیے بہترین قرار دیا جاتا ہے۔اسی طرح اسٹرابری ہو یا بلیک بیری، بلیو بیری یا رس بیری، یہ سب اینتھوسیان اور دیگر فلیونوئڈز کے حصول کا اچھا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں جو کہ صحت مند دماغ کو تشکیل دیتے ہیں۔ اخروٹ ایسا خشک میوہ ہے جس میں نباتاتی اومیگا تھری فیٹی ایسڈز، قدرتی فائٹو اسٹیرول اور اینٹی آکسیڈنٹس کے حصول کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔کالے ہوں یا سفید چنے میگنیشم کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ میگنیشم دماغی خلیات کے ریسپیٹر کے لیے فائدہ مند جزو ہے جو پیغامات کی ترسیل کی رفتار بڑھاتے ہیں، جبکہ یہ خون کی شریانوں کو کھول کر دماغ تک خون کی زیادہ فراہمی میں بھی مدد دیتے ہیں۔دنیا بھرمیں ہلدی کھانوں کے لیے عام استعمال ہوتا ہے جو کہ سوجن سے تحفظ دینے والے اینٹی آکسائیڈنٹ سے بھرپور ہوتا ہے، ہلدی دماغ کو ایسے نقصان دہ اجزاءیا destructive beta amyloids کی سطح بڑھنے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے جو الزائمر امراض کا باعث بنتے ہیں۔ دماغ کا بیشتر حصہ یعنی 60 فیصد چربی پر مشتمل ہوتا ہے اور ٹماٹر میں موجود اجزا اس کے تحفظ کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، ٹماٹر میں موجود کیروٹینز ایسے اینٹی آکسائیڈنٹس ہیں جو دماغ کو نقصان پہنچانے والے فری ریڈیکلز سے بچاتے ہیں اور دماغی افعال عمر بڑھنے کے باوجود درست رہتے ہیں۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں