نیچرل اور ان نیچرل۔۔۔؟

0
1287
All kind of website designing

جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
محمد یاسین جہازی
871552408
خالق کائنات نے مخلوقات کے توالد و افزائش کے لیے ایک ہی مخلوق کودو الگ الگ صنفوں میں تخلیق کیا ہے۔ ایک کو مذکر اور دوسری کو مونث کہاجاتا ہے۔توالد کے تسلسل کے لیے فطری سسٹم یہ ہے کہ مذکر و مونث ان اعضا کے باہمی ملاپ سے جنسی عمل کو انجام دے، جو ان دونوں کے درمیان جنسیت کی تفریق کرتے ہیں۔ اسے Heterosexualیعنی مرد اور عورت کا آپس میں ہمبستری کرنا کہاجاتا ہے۔ توالد و تناسل کے لیے یہی واحد طریقہ ہے اور اسی طریقے کو انجام دینے کے لیے خالق فطرت نے ایک ہی مخلوق کو دو الگ الگ صنفوں میں تقسیم کیا ہے۔اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے انسانوں کے تمام مذاہب میں شادی کا حکم یا رواج ہے۔
کائنات کی تمام مخلوقات اپنی صنفیت کے مقاصد کو حاصل کرنے لیے درج بالا طریقے سے ہی جنسی عمل کو انجام دیتی ہیں؛ البتہ انسان چوں کہ صاحب عقل و شعور ہے، اس لیے اس نے تسکین جنس کے لیے کئی اور ممکنہ طریقے بھی ایجاد کرلیے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
(۱) Masturbate، یعنی تنہا مرد کا ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ خود سے جنسی کام کرنا۔ اسے جلق لگانا، مشت زنی کرنا کہا جاتا ہے۔
(۲)Solo، یعنی انگشت زنی: یعنی تنہا عورت کا ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ جنسی کام کرنا۔
(۱) Homosexuality یعنی ہم جنسی ۔ اس کی دو صورتیں ہیں:
(الف) Gayیعنی اجتماع متحرکین: دو مردوں کا آپس میں جنسی عمل انجام دینا۔
(ب) Lesbianیعنی اجتماع ساکنین: دو عورتوں کا آپس میں جنسی عمل کرنا۔
(۳) Analیعنی عورت کے فرج کے بجائے دبر میں جنسی عمل کرنا۔
(۴) Oral، یعنی منھ میں ، یا منھ سے سیکس کرنا۔
اگر آپ ابھی تک سلیم الفطرت ہیں اور یقیناًآپ ہیں، تو درج بالا تمام صورتوں کو پڑھ کر خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یہ طریقے کتنے فطری اور کتنے غیر فطری ہیں۔ البتہ ان طریقوں میں کم از کم اتنی انسانیت تو باقی ہے کہ انسان خود اپنی ہی صنف سے جنسی ضرورت کی تکمیل کرتا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ طریقے فطرت سے متصادم ہیں؛ لیکن ایک طریقہ اور ہے جہاں انسان کی انسانیت تو کجا، حیوانیت بھی شرمسار ہوجاتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انسان، خواہ مرد ہو یا عورت اپنی خواہشات کی تکمیل جانور، مثلا کتے گھوڑے سے کرے کرائے ۔ اسے Animal Sexکہاجاتا ہے۔
شاید ہمارے سماج کی اسی ذہنیت کو دیکھتے ہوئے ۶؍ ستمبر ۲۰۱۸ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس روہنگٹن ایف نریمن اور جسٹس اندو ملہوترا کی آئینی بنچ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 377 کے التزام کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کا مشترکہ طور پر تصفیہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئی کہ ایل جی بی ٹی طبقہ(LGBT) یعنی وہ مرد، عورتیں اور ہجڑے جو ہم جنس ہیں، کو ہر وہ حق حاصل ہے، جو ملک میں کسی عام شہری کو حاصل ہے۔ عدالت کا کہنا تھا، دفعہ 377 کے کچھ التزام غیر منطقی اور من مانے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔ ملک میں سب کو برابری کا حق ہے ، سماج کو سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تعزیرات ہند کی یہ دفعہ ۱۵۸؍ سال پرانی تھی، جسے اس نئے فیصلے نے کالعدم کردیا۔
اس فیصلے سے پہلے درج بالا سبھی ساتوں صورتیں غیر فطری جنسی عمل شمار کی جاتی تھیں،کیوں کہ اس وقت کے لوگ اور سماج فطرت پسند تھے، جس کی وجہ سے وہ بہ خوبی واقف تھے کہ فطرت کیا چاہتی ہے اور فطری ہوتاکیا ہے؛ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر انسان سائنسی اعتبارے سے ترقی کرتا جارہا ہے ، اسی قدر اس کی زندگی فطرت سے دور ہوکر آرٹی فیشیل بنتی جارہی ہے ۔ چلو ہم اسے یہ سوچ کر تسلیم کرلیتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ہم میں بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے جسے نیچرل اور ان نیچرل کا فرق معلوم نہیں ہے، کیوں کہ جہالت و ضلالت کے ہاتھوں وہ مجبور ہیں؛ لیکن جب سپریم کورٹ کے اعلیٰ فکر و دانش والے جج ایسا فیصلہ صادر کریں اور ہمیں یہ باور کرائیں کہ فطری جنسی عمل ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کے خلاف ہے۔ فطری جنسی عمل برابری کے حقوق کے منافی ہے اور ہمیں اپنی بیمار ذہنیت کو بدلنے کے بجائے فطرت کے اصول پر قائم سماج کی سوچ کو بدلنا ضروری ہے کہ وہ فطرت کو فطرت کیوں کہتا اور مانتا ہے، تو میرے عندیہ میں ایسی اعلیٰ فکری اور دانش مندی ، حماقت و بیوقوفی کا نیا جلی عنوان ہوگا؛ بلکہ ایسی سوچ انسان کے صاحب عقل و بصیرت ہونے کی صفت پر سوالیہ نشان ہوگی؛ کیوں کہ ایک سلیم الفطرت مؤرخ جب ان حالات کا تجزیہ کرے گا تو وہ بالیقین کنفیوژ ہوجائے گا کہ صاحب ادراک و شعور انسان ہے یا پھر جانور۔۔۔ ؟ اگر وہ خود کو انسان کے زمرہ میں سمجھ کر انسان کی حمایت کرے گا، تو اگلے سوال کا جواب اسے شاید نہ مل سکے کہ انسان خود اپنے وجود میں نیچرل ہے یا پھر ان نیچرل۔۔۔!!!!!؟؟؟؟۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here