مودی کے اقتدار کا ساغر چھلکنے کے قریب     اتحاد کی سیاست میں بھاجپا پست، اپوزیشن مست

0
636
All kind of website designing

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

ghaussiwa[email protected]
گرنے دو تم مجھے ، میرا ساغر سنبھال لو
اتنا تو میرے یار کرو میں نشے میں ہوں

ان دنوں وزیراعظم نریندر مودی اوربی جے پی صدر امت شاہ کی حالت درج بالا شعر کی مصداق ہورہی ہے۔ وہ اقتدار کے نشے میں لڑکھڑا رہے ہیں اور ان کے ہاتھ سے اقتدار کا ساغر گرنے کے قریب ہے۔ مودی سرکار کی چار سال سے زیادہ کی مدت گزر چکی ہے اور اب اس کے پاس چند مہینے ہی بچے ہیں مگر اس بیچ اس نے عوام سے کئے اپنے سینکڑوں وعدوں میں سے کسی ایک وعدے کو بھی پوری طرح نہیں نبھایا۔ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے اندر ،حکومت کے خلاف ،تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی،جس کا مقصد سررکار کو گرانا ہرگز نہیں تھابلکہ اس کے خلاف بحث کرانا مقصود تھا اور اس کام میں اپوزیشن پارٹیاں کامیاب رہیں۔ بحث کے دوران راہل گاندھی نے زبردست طریقے سے حکومت کی کھنچائی کی اور ان ایشوز کو اٹھایا جن سے حکومت بچتی رہی ہے۔ اپوزیشن کے دوسرے ممبران نے بھی حکومت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں مگر مرکز کی سرکار کے لئے، اصل خطرہ، وہ اتحاد بن رہا ہے جو پورے ملک میں اس کے خلاف وجود میں آرہا ہے۔ اس وقت کانگریس بہت مضبوط پارٹی نہیں ہے اور تنہا بی جے پی سے مقابلے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے پھر بھی وہ بی جے پی کے بعد ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور علاقائی پارٹیوں کے مقابلے بھی سب سے بڑے خطے پر اثر رکھتی ہے۔ وہ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، گجرات، پنجاب، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، آسام، کرناٹک، کیرل ، تلنگانہ، اڈیشا ، مہاراشٹر وغیرہ میں اپنا وجود رکھتی ہے اور ملک کے باقی حصوں میں دوسری بھاجپا مخالف پارٹیاں اس کے ساتھ اتحاد کے ذریعے جڑ رہی ہیں۔ یہی مورچہ بندی، بی جے پی کے لئے مشکل کھڑی کر رہی ہے اور نریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔علاوہ ازیں مودی کے ترقی کے نعروں کی پول بھی کھل چکی ہے اور عوام کا بڑا طبقہ ، جس نے2014ء میں بی جے پی کو ووٹ کیا تھا، آج اس کے خلاف کھڑ انظر آرہا ہے۔

یوپی میں بھاجپا پست، اکھلیش ۔مایا مست

2019ء میں مرکز میں نریندر مودی کی حکومت واپس آئے گی یا نہیں؟ نریندر مودی، دوبارہ وزیراعظم بنیں گے یا نہیں؟ ان سوالوں کا بہترجواب, اترپردیش کے پاس ہے۔اصل میں اگر یہاں مایاوتی اور اکھلیش یادو کی پارٹیوں کے درمیان اتحاد ہوگیا تو یوپی سے بی جے پی کا صفایا ہوسکتا ہے اور اگروہ الگ الگ لوک سبھا الیکشن میں گئے تو ان کا اپنا صفایا ہوجائے گا۔گورکھ پور، پھول پور، کیرانہ اور نور پور میں اتحاد کے ساتھ، چناؤ لڑنے کی حکمت عملی نے واضح کردیا ہے کہ اتحاد میں کس قدر برکت ہے۔ یہی سبب ہے کہ یوپی کی تمام بھاجپا مخالف پارٹیوں پر اتحاد کے لئے دباؤ ہے مگر بیچ بیچ میں بی ایس پی سربراہ مایاوتی کی طرف سے جس قسم کے بیانات آتے ہیں ،وہ اپوزیشن پارٹیوں کو ڈرانے والے ہوتے ہیں۔ سیاسی ماہرین ،اسے بی ایس پی کی طرف سے بلیک میلنگ کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ دوسری طرف بی جے پی کے خیمے میں اس اتحاد کے تصور سے ہی اداسی اور سراسیمگی چھاجاتی ہے۔ سنگھ پریوار کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مرکز میں نریند رمودی کو اقتدار میں لانے میں یوپی کا بڑا حصہ ہے، جہاں کی80 لوک سبھا سیٹوں میں سے صرف سات سیٹیں، کانگریس اور ایس پی کو گئی تھیں، باقی تمام این ڈی اے کے کھاتے میں آئی تھیں، ایسے میں اگر بی جے پی کے خلاف ایس پی وبی ایس پی کا اتحاد ہوگیا تو بھاجپا کا صفایا ہوجائے گا اور اگر اس اتحاد میں کانگریس اور آر ایل ڈی بھی شامل ہوجائیں تو پھر اس کے لئے یوپی میں کھاتا کھولنا مشکل ہوجائے گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امت شاہ نے یہ قبول کیاہے کہ2019 میں بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی کے درمیان کا اتحاد بی جے پی کے لئے چیلنج ثابت ہوگا۔شاہ نے مودی کی حکومت کے چار برس مکمل کرنے پر بات کرتے ہوئے صحافیوں سے کہا کہ، اگر بی ایس پی اور ایس پی، آئندہ انتخابات میں یکجا ہوتے ہیں، تو یہ ہمارے لئے ایک چیلنج ہوگا۔تاہم، ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم امیٹھی اور رائے بریلی کی سیٹیں بھی جیتیں گے۔

’’ہاتھی ‘‘بنا کانگریس کا ساتھی

راجستھان،مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں، ان دنوں راہل اور موی کے بیچ زورآزمائی چل رہی ہے۔ تلواریں تیز ہورہی ہیں، کٹاریں نکالی جارہی ہیں اور برچھیاں چمکائی جارہی ہیں۔ ایک دوسرے پر حملہ کے لئے دونوں طرف سے تیاریاں چل رہی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان ریاستوں میں اسمبلی کے انتخابات اگلے کچھ مہینوں میں ہونے والے ہیں۔ ان تین ریاستوں میں بی جے پی کی عزت اور نریند ر مودی کی ناک داؤ پر ہے۔ اسی لئے اسے عام انتخابات سے قبل سیمی فائنل بھی قرار دیا جارہا ہے۔ یہاں کانگریس کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے اور حاصل کرنے کے لئے بہت کچھ ہے ۔ جب کہ بی جے پی کو خوف ہے کہ اگر ان ریاستوں میں ہاری تو عام انتخابات میں اس کے خلاف ہوا نہ بن جائے۔اسی لئے بی جے پی کے اندر ایک رائے یہ بھی ہے کہ عام انتخابات قبل ازوقت ، تینوں ریاستی اسمبلیوں کے ساتھ کرادئیے جائیں۔ حالانکہ اسے یہ خوف بھی ہے کہ کہیں پانسہ الٹانہ پڑجائے۔بہرحال حالیہ تمام سروے کہہ رہے ہیں کہ ان ریاستوں میں کانگریس کی حالت ،بی جے پی کے مقابلے بہت بہتر ہے اور شکست بی جے پی کا مقدر بن سکتی ہے۔ دوسری طرف کانگریس کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہتی اور وہ بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کر دلت ووٹ کو اپنے ساتھ کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اگر یہ اتحاد ہوتا ہے جس کا قوی امکان بھی ہے ،تو اس کے نتیجے میں بی جے پی کو آگے بڑھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ اگر گزشتہ تین انتخابات کے نتائج دیکھیں تو، بی ایس پی کے ووٹ کا حصہ 3 سے 9 فیصد کے درمیان ،ان تینوں ریاستوں میں رہاہے۔اگر کانگریس کے ووٹ میں یہ ووٹ شامل ہو جائیں تو، 2013 ء کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کوملے ووٹوں سے کم ہوتے ہیں مگر 2003 اور 2008 میں، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس۔بی ایس پی کا مجموعی ووٹ، بی جے پی کے ووٹ شیئر سے زیادہ ہوتاہے، جب کہ چھتیس گڑھ میں تو 2003 اور 2008 کے ساتھ ساتھ 2013 میں،بھی کانگریس اوربی ایس پی کا مشترکہ ووٹ ، بی جے پی کے ووٹ شیئر سے زیادہ ہے۔ ماضی قریب میں، ان تین ریاستوں میں جو سروے ہوئے ہیں ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی نے ہر جگہ اپنی طاقت کو کم کیا ہے اور کانگریس آگے بڑھی ہے۔ایسی صورت حال میں، اگر کانگریس کا بی ایس پی کے ساتھ انتخابی سمجھوتہ ہوتا ہے تو بی جے پی کو اس اتحادکے سبب بہت مشکل پیش آئے گی اورعین ممکن ہے کہ ہر تین جگہوں پر اسے اقتدار سے بے دخل ہونا پڑے۔ ظاہر ہے کہ اس کا اثر لوک سبھا الیکشن پر بھی پڑے گا۔

بہار میں مودی مخالفین کی بیار

بہار میں راشٹریہ جنتادل کے تجسوی یادو انتہائی کامیابی کے ساتھ بی جے پی اور اس کی اتحادی جنتادل (یو ) کے ساتھ مورچہ لینے میں جٹے ہوئے ہیں۔وہ ریاستی اور مرکزی سرکار کی ناکامیاں عوام کے سامنے لارہے ہیں اور بہار میں اپنی پارٹی کے لئے جگہ بناتے جارہے ہیں۔وہ نوجوان ہیں، اس لئے بھی نوجوانوں کے بیچ مقبول ہیں اور بھگواخیمے کے لئے لگاتار مشکلیں کھڑی کر رہے ہیں۔لالو کی غیر موجودگی کے باوجود بہار کے ضمنی انتخابات میں لگاتارراشٹریہ جنتادل کو جیت دلاکر تجسوی یادو نے ثابت کردیا ہے کہ بہار میں اگر نتیش کمار کا کوئی متبادل ہے تو وہی ہیں۔ بی جے پی کے غیر مطمئن ایم پی شتروگھن سنہا نے گزشتہ دنوں ٹویٹ کیا’’ این ڈی اے کے دوستو، اب کام شروع کر دو ورنہ’’ ارجن‘‘ اقتدار کی باگ ڈورتھامنے کو تیار ہے۔ ‘‘ان کا اشارہ تجسوی کی طرف تھا۔ دوسری طرف بہار میں این ڈی اے کے اندر سب کچھ، ٹھیک نہیں ہے۔ این ڈی اے کی پارٹیاں ، بھاجپا پر دباؤ بنانے میں لگی ہیں کہ انھیں زیادہ سے زیادہ سیٹیں ملیں۔ نتیش کمار آئندہ لوک سبھا انتخاب سے پہلے یاد دلانا چاہتے ہیں کہ وہ بہار میں این ڈی اے کے اندر’’بڑے بھائی ‘‘کا رتبہ رکھتے ہیں اور ان کی پارٹی کے حصے میں لوک سبھا کی زیادہ سیٹوں پر لڑنے کا موقع آنا چاہئے۔ ادھر بھاجپا کا کہنا ہے کہ نتیش کمار، بہار میں این ڈی اے کا چہرہ ہیں لیکن2019 کے انتخابات ،نریندر مودی کے چہرے پر ہی لڑے جائیں گے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ریاست کی بیشتر لوک سبھا سیٹیں پہلے سے ہی این ڈی اے کی پارٹیوں کے پاس ہیں اور کوئی بھی پارٹی اپنی جیتی ہوئی سیٹ نتیش کمار کی پارٹی کے لئے چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے میں بہار میں این ڈی اے کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا امکان بنا ہوا ہے۔ جنتادل (یو) اور بی جے پی کے بیچ رسہ کشی اس لئے چل رہی ہے کہ 2009 میں، جب جے ڈی یو ایک بڑی پارٹی تھی، تب اس نے 25 اور بی جے پی نے 15 نشستوں پر چناؤ لڑا تھامگر، 2014 میں جب جے ڈی یو ، این ڈی سے الگ تھی تو این ڈی اے نے بہار کی 40 لوک سبھا نشستوں میں سے 31 جیت لیا تھا ۔ اب معاملہ یہ ہے کہ بی جے پی اپنی جیتی ہوئی کوئی بھی سیٹ، جنتادل (یو) کے لئے چھوڑنا نہیں چاہتی۔اب باقی بچتی ہیں ہیں 9سیٹیں جن پر بی جے پی ہار گئی تھی، ایسے میں اگر تمام 9سیٹیں وہ جنتادل یو کو دے دیتی ہے تب بھی وہ بڑے بھائی کے کردار میں نہیں آسکتی۔ سیاسی تجزیہ کار مہندر سمن کا خیال ہے کہ جے ڈی یوکا بیان دباؤ بنانے کا ایک حصہ ہے، یہ دباؤ قدرتی ہے۔ سمن کہتے ہیں، جی ڈی یو پہلے سے زیادہ مضبوط نہیں ہے اور بی جے پی پہلے سے کمزور نہیں ہے لیکن بہار ایک بڑی اور اہم ریاست ہے اور بی جے پی کوصوبے میں ایک بڑے اتحادی پارٹنر کی ضرورت ہے۔ ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ بہار میں این ڈی اے کی پوزیشن ٹھیک نہیں ہے اور اگر آج انتخابات ہوتے ہیں تواسے 40 میں سے 10 سیٹوں پربھی جیت ملنی مشکل ہے۔ ایسے میں بہار،مودی کی راہ کا دوسرا بڑا روڑا ثابت ہوسکتا ہے۔

بھاجپا کے اچھے دن کا خاتمہ؟

بہرحال اس وقت ملک بھر میں جس قسم کا سیاسی ماحول بن رہا ہے وہ ہرگز بھاجپا کے حق میں نہیں ہے۔ وہ اترپردیش میں ایس پی ،بی ایس پی اتحاد کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے، یہ بات گورکھپور جیسی روایتی سیٹ پر شکست سے ثابت ہوچکی ہے۔ اتحاد کی صورت میں شاید نریندر مودی بھی وارانسی سے راہ فرار اختیار کرلیں اور اپنی عزت بچانے کے لئے دوبارہ گجرات پہنچ جائیں۔ بہار میں مہاگٹھبندھن پہلے ہی سے این ڈی اے کے تعاقب میں ہے جب کہ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ میں کانگریس تنہا بی جے پی کے لئے کافی نظر آرہی ہے اور اگر اسے بی ایس پی کا سہارا مل جاتا ہے تو بی جے پی کا صفایا ہی ہوجائے گا۔ بھاجپا کو مغربی بنگال سے زیادہ امیدیں ہیں جہاں گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں اسے دوسیٹیں ملی تھیں مگر اس کے اس خواب کے لئے ممتابنرجی بھیانک تعبیر لاسکتی ہیں۔ رہا مہاراشٹر کا معاملہ تو یہاں ، جس طرح شیوسینا، این ڈی اے سے الگ ہونے پر اتارو ہے ،اگر ایسا ہوا تو کانگریس یہاں بھی بازی مار لے گی اور اگراتحاد برقرار رہا، تب بھی ریاست کی نصف سے زیادہ سیٹوں پر کانگریس۔این سی پی اتحاد کا قبضہ ہوسکتا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ملک سے ’’اچھے دن‘‘ لانے کا وعدہ کرکے اقتدار پانے والی بھاجپا، اب اپنے اچھے دنوں سے محروم ہوتی نظر آرہی ہے۔ 

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here