عبدالعزیز
جمہوریت میں احتجاج اور اظہار رائے یا اظہار خیال کی آزادی ہوتی ہے۔ اس سے ملک میں کھلی سوسائٹی (Open Society) ہوتی ہے، لیکن جہاں آمریت ہوتی ہے وہاں نہ کھلا سماج ہوتا ہے اور نہ ہی احتجاج، اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں بعض وجوہ سے جمہوریت کے باوجود آمریت اپنا قدم جما چکی ہے جس کی وجہ سے ملک کے کونے کونے میں انارکی اور خانہ جنگی کی صورت حال ہے۔ آر ایس ایس 1925ء میں قائم ہوا۔ اس کا مقصد تھا ملک میں ’ہندو راشٹر‘ قائم کرنا۔ سو سال کے اندر اس کا نشانہ تھا کہ ملک پر اس کا قبضہ اور تسلط قائم ہوجائے گا۔ 2014ء میں نریندر مودی کی سرکردگی میں لوک سبھا کے الیکشن میں بھاری اکثریت سے جیت نے ان کے نام نہاد رام راج یا ہندو راشٹر کی راہ ہموار کردی ہے۔ جمہوریت میں تعداد کی اہمیت ہوتی ہے۔ ووٹر کی گنتی ہوتی ہے۔ ووٹر کی صلاحیت اور اس کی قابلیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں ۔۔۔بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے !
ایسی صورت میں تعداد کی اہمیت یقیناًہوجاتی ہے۔ موجودہ حکومت فسطائیت اور فرقہ پرستی پر یقین رکھتی ہے، اسے مکت اپوزیشن کی ضرورت ہے۔ اس لئے اس کا نعرہ ہے ’کانگریس مکت بھارت‘۔2014ء میں آر ایس ایس کی حکمت عملی یہ تھی کہ فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہندو مسلمان کو الگ الگ کر دیا جائے تاکہ ہندوؤں کا سارا ووٹ ان کی جھولی میں چلا جائے۔ آر ایس ایس کی حکمت عملی بہت حد تک کامیاب ہوئی اور آج تک اسی حکمت عملی کو سنگھ پریوار والے اپنائے ہوئے ہیں۔ کئی ریاستوں میں وہ الیکشن میں اسی بنیاد پر کامیاب ہوئے ہیں۔ مسلمان ملک کی آبادی کا ساتواں یا آٹھواں حصہ ہیں۔ ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی میں مسلمان مشکل سے بیس بائیس کروڑ ہوں گے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کا سیاسی میدان میں اکیلے اور تنہا رہنا کوئی موثر رول ادا کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے۔ کیرالہ میں کئی اضلاع میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ آسام میں دو تین اضلاع میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جبکہ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد ہونے کے باوجود محض ایک ضلع میں اکثریت میں ہیں۔ اس طرح مذکورہ ریاستوں میں مسلمان معاہداتی سیاست سے اپنا کچھ اثر چھوڑ سکتے ہیں مگر دیگر ریاستوں میں یہ کام آسان نہیں ہے۔ ایسی صورت میں مسلمان آمریت، فسطائیت، دہشت گردی اور فرقہ پرست کے خلاف اگر احتجاج کرتے ہیں اور تنہا کرتے ہیں تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا ہے اور اگر احتجاج فرقہ وارانہ رنگ لئے ہوتا ہے اور مقررین فرقہ وارانہ انداز میں تقریر کرتے ہیں تو سراسر مسلمانوں کا نقصان ہوتا ہے اور فرقہ پرستوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ مسلمان آر ایس ایس اور اس کے فسطائی نظریہ کے خلاف ہیں اور وہ اچھی طرح سے اس نظریہ کو سمجھ چکے ہیں کہ آر ایس ایس کا مطلب اور مقصد ہے مسلمان، عیسائیت کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا۔ آر ایس ایس والے دلتوں کو بھی اپنا نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ دلت ہندو مت کے اونچ نیچ کے غیر منصفانہ سماج سے آہستہ آہستہ نکل ہی نہیں رہے ہیں بلکہ باغی ہورہے ہیں۔ آر ایس ایس ذات پات کے نظام کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ فرقہ وارانہ رنگ دے کر وقتی طور پر وہ کامیاب ہوجاتا ہے مگر یہ چیز دیرپا ثابت نہیں ہوتی۔
مسلمانوں کے جلسے میں مسلم محلے میں: مسلمان مسلم محلوں میں جب احتجاج کرتے ہیں اور فسطائیت اور فرقہ پرستی ان کا نشانہ ہوتا ہے تو مقررین میں اکثر سب کے سب مسلمان ہوتے ہیں اور چند جلسوں میں غیر مسلم حضرات بھی مقرر کی حیثیت سے موجود ہوتے ہیں مگر سامعین میں سب کے سب مسلمان ہوتے ہیں۔ ان کو ملک کی صورت حال سے آگاہی دی جاتی ہے جس کو وہ نہ صرف محسوس کر رہے ہیں بلکہ جھیل رہے ہیں۔ جو لوگ جھیل رہے ہیں یا مظلومیت کے شکار ہیں ان کو آر ایس ایس اور بی جے پی کی فسطائیت اور دہشت گردی سے بار بار واقف کرانے یا ان کی مذمت کرنے سے آخر آر ایس ایس اورن اکی دہشت گرد ذیلی تنظیموں کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟ آر ایس ایس یا بی جے پی نے چند نام نہاد مسلمانوں کو لالچ یا پیسے دے کر اپنی طرف ضرور کرلیا ہے وہ پورے ملک میں بیس پچیس سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ لعنتی مسلمان ہیں اور یہودیوں سے بھی بدتر ہیں۔ مسلمان ان سے اچھی طرح واقف ہوچکا ہے اور ان کو لعنت و ملامت کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کے علم میں ان جلسوں سے معلومات میں نہ اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فرق پڑتا ہے کیونکہ وہ تو آر ایس ایس کی چالوں، سازشوں سے اچھی طرح واقف ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے جبرو ظلم کے شکار ہیں۔ اگر مسلمان احتجاجی جلسہ فرقہ پرستی اور فسطائیت کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ جلسہ کا مقصد پورا ہو تو ان کو ایسی جگہ جلسہ کرنا چاہئے جہاں غیر مسلم حضرات آسکیں اور اگر ان کے محلہ میں ہو جس میں ان کی بھاری تعداد موجود ہو تو جلسہ کا مقصد پورا ہوسکتا ہے کیونکہ آر ایس ایس کا جادو ہندوؤں پر ہی پڑ رہا ہے۔ انہی کو وہ گمراہ کرنے میں کامیاب ہیں۔ سمجھانا ان کو ہے اور آر ایس ایس کی شاطرانہ چال سے بچانا ان کو ہے۔ مسلمان تو ان سے کوسوں دور ہے۔
دینی جلسے: مسلم محلوں میں دینی جلسہ اکثر و بیشتر ہوتے ہیں جو روایتی اور رسمی طور پر ہوتے ہیں۔ ان کا بھی مسلمانوں پر خاطر خواہ کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جو اصلاح اور دعوتی نقطہ نظر سے ہوتے ہیں جس میں مقررین چیختے اور چلاتے نہیں۔ اپنا رعب جمانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ٹھنڈے دل و دماغ سے نرم لب و لہجہ میں مخاطب کرتے ہیں۔ ان کے کچھ نہ کچھ اثرات ہوتے ہیں۔ میرے خیال سے جلسوں سے زیادہ ضروری ہے کہ کسی بند کمرے یا بند ہال میں تبالہ خیالات ہو، سوال و جواب کا سیشن ہو تو جلسوں سے کہیں زیادہ نتیجہ خیز ہوسکتا ہے۔
تنظیموں اور جماعتوں کے اجتماعات یا جلسے: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور قول ہے کہ کوئی اسلام نہیں بغیر جماعت کے کوئی جماعت نہیں بغیر امیر (سربراہ)کے، کوئی امیر نہیں بغیر پیروکار کے۔ اس کا مطلب ہے کہ اجتماعیت کے بغیر اسلام اپنا اثر کھو دیتا ہے اور بے وزن ہوجاتا ہے۔ اس کی حقیقت باقی نہیں رہتی۔ علامہ اقبالؒ نے بہت سے اشعار اس موضوع پر کہے ہیں:
اپنی اصلیت پر قائم تھا تو جمعیت بھی تھی
چھوڑ کر گل کو پریشاں کارواں بو ہوا
آبرو باقی تیری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
مسلمانوں کی غیر اجتماعی زندگی یا جماعتی زندگی بے معنی ہوتی ہے۔ ایسی بے شمار حدیثیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت کے بغیر اسلام کا کوئی تصور نہیں۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں پانچ چیزوں کا حکم دیا ہے۔ میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں۔ سمع و طاعت، جماعت، ہجرت اور جہاد ان میں چار چیزیں ایسی ہیں جو جماعت اور اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جماعت سے جو الگ ہوجاتا ہے اسے شیطان اسی طرح کھا جاتا ہے جس طرح بکری ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے تو سیال اسے کھا جاتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم دو یا دو سے زائد ہوتو خواہ جنگل ہی میں کیوں نہ ہو اس میں سے تم اپنا امیر چن لو۔ جماعت یا تنظیم کے جلسے یا اجتماعات کی اہمیت ہے بشرطیکہ اس کے فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔ اگر پوری ملت کے درمیان نہ ہوں تو کم سے کم جماعت اور تنظیم کے ممبران کے اندر تو ضرور ہوں مگر کوئی جماعت یا تنظیم ایسی ہو جو محض جلسہ اور جلوس کیلئے ہو اس کے ممبران کی نہ تربیت ہو نہ اصلاح کی کوشش ہو اور نہ اس تنظیم یا جماعت کا کوئی اصول اور ضوابط ہوں اور نہ ان کے ممبران پر تنظیم اور جماعت کا کوئی اثر ہو تو اس کے بھی جلسے اور اجتماعات بے معنی ہی ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج کے حالات میں احتجاجی جلسہ کا مقصد اسی وقت پورا ہوگا جب سامعین میں قابل لحاظ تعداد میں غیر مسلم ہوں اور دینی ، ملی یا اصلاحی اجتماعات اسی جماعت اور تنظیم کے بامعنی ہوتے ہیں جن کے ممبران اس کے اصول و ضوابط قبول کرتے ہیں۔ جن کے اندر سمع و طاعت کا جذبہ ہوتا ہے۔ آج مسلمان جلسہ باز ہوگیا ہے۔ بڑے بڑے جلسے کر رہاہے، پانی کی طرح پیسے بہاتا ہے مگر اس کا جائزہ نہیں لیتا کہ ان جلسوں سے ملت یا مسلمانوں کا کیا فائدہ ہورہا ہے؟
[email protected]
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں