معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر راؤ عرفان احمد خاں کے انتقال پرملال پر ادارہ علوم القرآن میں تعزیتی نشست کا انعقاد
(علی گڑھ پریس ریلیز) ڈاکٹر راؤ عرفان احمد کے انتقال پرملال کی خبر علی گڑھ والوں کو بہت شاق گزری۔ ارباب علم دانش ادارہ علوم القرآن میں تعزیت کے لیے جمع ہوئے اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ادارہ کے صدر پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے صدارتی کلمات میں ان کی جہد مسلسل اور عمل پیہم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایامشن سے لگن، انسانیت سے حقیقی محبت، جذبۂ خدمت سے سرشار راؤ صاحب کی پوری زندگی اللہ کی کتاب اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لیے وقف تھی۔ کتاب اللہ کا ایسا شیدائی جو دن رات ہر وقت اس کے مرتبہ کو سمجھنے اور سمجھانے ، اس کے لیے حلقۂ درس قائم کرنے، اس کے لیے ا فراد جوڑنے اور اس کے لیے بڑی بڑی مشقتیں برداشت کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے۔ وہ ادارہ علوم القرآن کے منہاج اور سرگرمیوں کو اپنی فکر سے بہت قریب پاتے۔ اس لیے اس سے بڑی اپنائیت محسوس کرتے۔ اس کے سیمیناروں میں شرکت کے لیے دو مرتبہ براہ راست شکاگو سے تشریف لائے۔ پیرانہ سالی اورطویل مسافت کا نہایت تھکا دینے ولے سفر کے باوجود پوری بشاشت کے ساتھ سیمینار کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ وہ عیال اللہ کی خیر خواہی کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے۔ انٹر فیتھ ڈائیلاگ، قومی و بین الاقوامی سطح پر مشترکہ فورم کے قیام اور مشترک امور میں تعاون اور اشتراک کی ہر ممکن کوشش کرتے ۔اس کے لیے کئی ادارے قائم کیے اور بے شمار افراد کو جوڑا۔
اس موقع پر ان کے خاص عقیدت مند ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی نے اپنے تاثرات میں بیان فرمایا کہ راؤ صاحب کی زندگی انتہائی غیر منظم لیکن انتہائی متحرک تھی، تحریک اسلامی سے ان کو گہری وابستگی تھی۔ تحریک اسلامی کی طرف سے یوپی کے طلبہ کو منظم کرنے کی ذمہ داری انھیں تفویض کی گئی تو انھوں نے پورے یوپی کا دورہ کیا اوربہت سے نوجوانوں کو تحریک سے جوڑا۔ان کی تربیت کاانداز بہت نرالا تھا۔ ہر شخص کو اپنا دوست بنا لیتے۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران ان کا قرآن مجید سے گہرا تعلق قائم ہوا اور یہاں سے جانے کے بعد انھوں نے قرآن کریم کو اپنا اوڑھنا بچھونا ہی بنا لیا۔وہ براہ راست متن قرآن میں غور و فکر کی دعوت دیتے۔ وہ کہتے کہ قرآن انسان سے گفتگو کرتا ہے ،اس کا اندازہ اس وقت ہوگا جب قرآن سے قربت ہوگی۔ آپ نے بہت درد کے ساتھ فرمایا کہ ان کا جو علمی، فکری ورثہ ہے افسوس کہ ہم انھیں محفوظ نہیں رکھ پائے ہیں۔پروفیسر محمدسعود عالم قاسمی،سابق ڈین فیکلٹی دینیات نے اس موقع پر ان سے اپنے استفادہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو چیز عرفان راؤ صاحب کے اندر بہت شدت سے محسوس ہوتی تھی وہ قرآن مجید سے بے انتہا الفت و محبت تھی۔ انھیں اس کا جتنا درد تھا مجھے لگتا ہے کہ اس درد اور کسک کے حامل کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کاش ادارہ علوم القرآن میں کچھ شخصیات ایسی پیدا ہوجائیں جن میں ان کا درد سما جائے۔ انھو ں نے ان کے مختلف دروس کے حوالے سے ان کے نہج اور دلنشیں پیرایۂ بیان پر روشنی ڈالی۔ سورہ فجر کے درس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’’کلا بل لا تکرمون الیتیم ۔۔۔‘‘کی تشریح میں خدمت خلق کے حوالے سے ڈاکٹر راؤ عرفان صاحب نے بہت پیاری بات کہی تھی،قرآن کہتا ہے کہ تم انسانوں کی خدمت تو کروہی کرو، ساتھ ہی ساتھ ان کا اکرام بھی کرو، اس لیے قرآن خدمت سے اونچی بات کہتا ہے کہ تم یتیموں کا اکرام نہیں کرتے ،آج بھی انسانیت کا مرض یہی ہے کہ اس کے اندر اکرام نہیں ہے۔پروفیسر قاسمی نے یہ آرزو کی کہ کاش راؤ صاحب کا درد، احساس اور کسک نئی نسل کے اندر منتقل ہوجائے تو قرآن فہمی کی راہ آسان ہوجائے گی۔پروفیسر کنور محمد یوسف امین صاحب راؤ صاحب کے مشن سے ہمیشہ جڑے رہے۔ انھوں نے ادارہ علوم القرآن کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ اس نشست کے انعقاد سے انھوں نے ہم پسماندگان کے ذہن کے بوجھ کو ہلکا کرنے کا سامان کیا۔ پروفیسر امین صاحب نے ان کی علمی و فکری کیفیت کو سیلان سے تعبیر کیا۔ تیزی کے ساتھ خیالات آتے، عمل میں ڈھلتے اور تاریخ کا حصہ بن جاتے۔ اسی لیے ان کی زندگی کا خاصہ انضباط نہیں بے انضباطی ہے۔ آپ نے خواہش ظاہر کی کہ راؤ صاحب کا جو منہج ہے اس کو ترتیب دیا جاناچاہیے۔ کاش کوئی جلد اس کام کا بیڑا اٹھا لیتا۔آپ نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ رخصت ہورہے ہیں ان کی علمی و فکری وراثت ہم دوسروں تک منتقل نہیں کر پاتے ، جو ایک المیہ ہے۔ آپ نے زور دے کر فرمایا کہ راؤ عرفان خاں صاحب کے پاس زبردست سماجی اور انسانی فکر تھی اور وہ انسانیت کے ہر طبقہ کے لیے بے چین اور درد مند دل رکھتے تھے اور سب سے ان کا یکساں تعلق تھا۔مجلہ علوم القرآن کے مدیر پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی نے بھی اپنے تاثرات بیان فرمائے۔ پروفیسر اصلاحی صاحب نے فرمایا کہ وہ لوگ یقیناًقابل قدر اور یاد کیے جانے کے لائق ہیں جو اپنی صلاحیتیں قرآن کی خدمت میں لگادیتے ہیں۔ اور بالخصوص وہ لوگ جن کا پس منظرجدید تعلیم سے ہوتا ہے، توفیق الٰہی سے ہی وہ دینی مدارس کا رُخ کرتے ہیں، ان سے فیض حاصل کرتے ہیں اور اس کے اثر سے وہ خود بھی قرآن سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی فیض پہنچانے کے لائق ہوجاتے ہیں۔ محترم ڈاکٹر عرفان احمد خاں کی شخصیت انھیں قابل قدر افراد میں شامل تھی۔ ان کی قرآنی خدمات کے تین پہلو ہیں۔ (۱) ذاتی تفکر سے فہم قرآن کا ذوق حاصل کرنا اور دوسروں کو فیض پہنچا (۲) تحریری خدمات (۳) دروس قرآن ،ا ن کے آن لائن دروس قرآن نے نہ جانے کتنے کو فیض پہنچایا۔ اپنے دلنشیں پیرایۂ بیان اور حرکا ت و سکنات سے وہ قرآن کے پیغام کو سامعین تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ ڈاکٹرراؤ نے خدمت قرآن کے لیے اپنے آ پ کو جس طرح فنا کررکھا تھا حدیث نبوی کے مطابق وہ واقعی اہل اللہ میں تھے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگوں میں کچھ لوگ اللہ کے اہل ہوں گے۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ خوش قسمت لوگ کون ہوں گے۔ آ پنے فرمایا کہ ھم اہل القرآن و خاصتہ ۔ڈاکٹر محسن رضا صاحب ،سابق صدر یونین ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی عرفان صاحب سے بڑا قریبی تعلق رکھتے تھے۔ خبر پاتے ہی وہ تشریف لائے اور اپنے گہرے ذاتی مراسم اور عرفان صاحب سے تعلق خاطر کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ عرفان احمد خاں صاحب میرے مربی تھے۔ انھوں نے مجھے یہ سکھایا کہ اعزاز و اکرام کی توقع کے بغیر مسلسل کام کرتے رہنا چاہیے۔ انھوں نے راؤ صاحب کی سماجی خدمات اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر محمد ادریس صاحب نے راؤ صاحب کے مشن اور لگن کو خراج عقیدت پیش کیا اور کانپور کے طالب علمی کے زمانہ میں عرفان صاحب کی آمد اور ا ن کے خصوصی لکچر کا تذکرہ کیا ۔اس تعزیتی نشست کا آغاز قاری محفوظ الرحمن کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ نظامت کے فرائض مولانا اشہد جمال ندوی نے انجام دیے۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے اساتذہ و طلبہ اور اہالیان شبلی باغ کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں