پریزنر؟ ویکیشنر؟لرنر؟۔۔۔کیا ہیں آپ؟
محمد یاسین جہازی
خادم جمعیۃ علمائے ہند
رابطہ9871552408
انسانی زندگی کا کوئی بھی عمل مقصدیت سے عاری نہیں ہوتا، کیوں کہ ایسا کرنا صاحب عقل و شعور مخلوق کے لیے ننگ و عار کا باعث ہوتا ہے۔ مشاہدہ ہے کہ ہم چھوٹا سے چھوٹا کام بھی مقصد کے بغیر نہیں کرتے۔ حصول رزق کے لیے تگ و دو ، آفس کے لیے بھاگ دوڑ،دنیا یا آخرت کو بنانے کے لیے کوئی بھی جدوجہد ؛ سب کے سب بامقصد ہوتے ہیں؛ لیکن ہماری زندگی کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ اس حوالے سے کیا ہم نے کبھی غور کیا ؟ یہ تحریر اسی پہلو پر غور و فکر کی دعوت کا اشاریہ ہے۔
اس دنیائے رنگ و بو میں آنکھیں کھولنے والوں کے لیے زندگی ، بحیثت زندگی تین مقاصد میں سے کسی ایک مقصدکے لیے ذریعہ ہوتی ہے۔ ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ ہماری اپنی زندگی کے وجود میں چوں کہ ہمارا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے۔ بس فطرت کے قانون کے تحت ہم دنیا میں بلا اختیار آگئے ہیں۔ جب آگئے ہیں اور زندگی ہمارے اوپر مسلط کردی گئی ہے،تو ہمیں ایک قیدی کی طرح زندگی کو ڈھونا ہی پڑے گا۔ اور اس لیے ہم ڈھو رہے ہیں۔ شکیل بدایونی کہتے ہیں کہ
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا
گویا ہم اس زندگی کے ہاتھوں زندہ رہنے کے لیے مجبور ہیں۔ ہم زندگی کی قید میں قیدی ہیں۔ جب تک قید کا زمانہ چلتا رہے گا، ہم بھی ایک پریزنر (قیدی) کی طرح زندگی گذارتے رہیں گے۔ اور یہ آپ بھلی بھانتی جانتے ہیں کہ ایک قیدی کا قیدی زندگی گذارنا کوئی بامقصد زندگی نہیں ہوتا۔اس لیے قید کی ساری زندگی برباد زندگی ہوتی ہے ۔اور زندگی کی عمر میں اس کا شمار ایک ضائع زندگی کے طور پر ہوتا ہے۔
زندگی کے تعلق سے بعض لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ یہ زندگی ایک ویکیشن ہے، موقع ہے۔ ایک آخری موقع ، جس کے بعد زندگی کی شکل میں دوبارہ موقع نہیں ملے گا، اس لیے اس زندگی میں جتنا ممکن ہو، موج مستی کرلو۔ ایسے لوگوں کے معراج فکر بس عیش کوشی تک محدود رہتا ہے۔اور محض اسی کا حصول ان کی زندگی کا آخری مقصد ۔
تیسری قسم کے لوگ بھی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں، جن کا نظریہ حیات ، درج بالا دونوں نظریوں سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ماننا ہے کہ زندگی منزل نہیں؛ بلکہ ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ ہماری حیات اس جہان رنگ و بو تک ہی محدود نہیں؛ بلکہ یہ صرف خاص مقصد کیتکمیل کے لیے مقدمہ ہے۔ اس مقصد کی تحصیل و تعیین کے لیے یہ کائنات اور کائنات کی تمام بوقلمونیاں رچائی گئیں ہیں۔اونچے پربت، نیلے ساگر،بہتے بادل، گرتے جھرنے، رنگ برنگے پھولوں کی وادی،غرض کائنات کے کسی بھی منظر میں غور وفکر کرتے ہیں ، تو ہماری عقل نارسا ان کے تغیرات و تنوعات کو دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھتی ہے کہ سبحانک ربنا ، ماخلقت ھذا باطلا۔ پھر یہی احساس و شعور ہمیں اپنا مقصد حیات بتاتے ہوئے سکھلاتا ہے کہ ہم اس دنیا میں بے کار پید انہیں کیے گئے ہیں؛ بلکہ ہمارا مقصد انتہائی اعلیٰ و ارفع ہے۔ ہماری تخلیق اس لیے ہوئی ہے کہ خالق کائنات کے منشا کو سیکھ ، جان کر اس کی خوشنودی اور رضا کے حصول میں اس زندگی کو وقف کردیں۔ گویا ہمارا وجود ایک متعلم کی حیثیت رکھتا ہے، یہاں ہم ایک لرنر ہیں۔ خالق کائنات کے ثبوت وشواہدات کو دیکھ دیکھ کر ہم سیکھتے ہیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمارا وجود کس چیز کے لیے وقف ہونا چاہیے۔
زندگی کے ان تینوں مقاصد میں آپ کی زندگی کس مقصد کے لیے وقف ہے ، یہ آپ کو طے کرنا ہے۔ اگر آپ قیدی ہیں، تو زندگی آپ کے لیے عذاب کے سوا کچھ اورنہیں ہوسکتی۔ اگر آپ ویکیشنر ہیں، تو آپ کا وجود صرف اسی دنیا کے اندر باعث رشک ہوسکتا ہے ۔ آگے کے مراحل کے لیے آپ کی ناکامی اور خسارہ متعین ہے۔ لیکن اگر آپ لرنر ہیں اوروسعت آفاق میں پھیلی مناظر قدرت سے وحدانیت کا درس لیتے ہیں، تو آپ نے زندگی کے حقیقی مقصد کو پالیا ہے اوردرحقیقت یہی زندگی بامعنی اور کامیاب زندگی ہے۔
آئیے ہم ایک مثال سے خود کا تجزیہ کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کس مقصد کے تحت گذر رہی ہے۔
جمعہ کی فضیلت میں یہ آیا ہے کہ جو سب سے پہلے مسجد پہنچتا ہے، اسے ایک اونٹ قربان کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے۔ پھر اس کے بعد میں آنے والے کے لیے گائے، پھر دنبہ، پھر مرغا، پھر انڈے کا ثواب ملتا ہے۔ پھر جب خطبہ شروع ہوجاتا ہے، تو فرشتے ثواب کا رجسٹر بند کرکے خطبہ سننے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
اس فضیلت کے پیش نظر جمعہ میں حاضری کا وقت ہماری زندگی کی قسم متعین کردیتا ہے۔ کچھ تو اس طرح آتے ہیں، گویا قیدی کی طرح آئے نہیں؛ بلکہ زبردستی لائے گئے ہیں۔ جماعت تیار ہونے کے بعد آتے ہیں اور سلام پھیرتے ہی بھاگ جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے آفس سے یا اپنے کام سے آزاد ہونے کا بہانہ مل جاتا ہے ۔ اور اس موقع کو ویکیشن سمجھتے ہوئے جمعہ کے ذکرو اذکار میں وقت لگانے کے بجائے دوست و احباب سے ملنے ملانے میں لگ جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اول وقت میں آتے ہیں اور جمعہ کے سارے ذکر و اذکار کی تکمیل کے بعد ہی لوٹتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی زندگی کی حقیقت اور مقصد حیات سے بہ خوبی واقف ہوتے ہیں۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کا اصل کام اور بنیادی کردار کیا ہونا چاہیے، جس کی تکمیل کے لیے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اس میں صرف کرتے ہیں اور یہی دونوں جہان میں کامیابی کا وسیلہ ہے۔
اس اصول و امثال کی روشنی میں خود کا جائزہ لیجیے کہ آپ زندگی کے ہاتھوں کیا ہیں: پریزنر؟۔۔۔ ویکیشنر؟۔۔۔ لرنر؟۔۔۔۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں