*شام زیرِ ارض کو صبحِ درخشاں کا پیام*،،،،*ظلمت شکن کسان اور ” ہم “:* 

0
1229
All kind of website designing

 *؞سمیع اللّٰہ خان؞*

جنرل سکریٹری: کاروانِ امن و انصاف 

کہتے ہیں کہ: مظلوم کی آہ قیامت خیز ہوتی ہے، مظلوم کا ایک آنسو بظاہر بوند بھر پانی ہوتاہے لیکن اگر پتھر پے گر جائے تو پتھر کانپ جاتاہے، ظلم فطرت انسانی اور قدرت الٰہی سے متصادم ہوتاہے اسے بہرحال پاش پاش ہوناہے، ستم رسیدہ شخص خواہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو وہ دیر سویر اپنی جنگ جیت لیتاہے، ظلم و ستم کا کوئی مذہب نہیں ظالم ہندو ہو یا مسلمان کسی بھی مذہب سے اپنا رشتہ جوڑے اسے کیفرکردار تک پہنچنا ہی ہے، 

 پوری دنیا کی طاقتیں عرصے سے فطرت انسانی سے متصادم ہیں، ظلم و زیادتی کا طوفان ہے، ہر طرف عام انسان اور کمزور شخص طاقتوروں کے نشانے پر ہے، لیکن طاقت تو اصل مظلوموں کی ہے، سچائی کی سرخروئی طے ہے، اگر زیادتی کے شکار افراد اور سچ پر قائم قومیں مرتب و منظم پلاننگ سے پیش قدمی کریں تو ان کی جیت طے ہے ۔

 ایسا ہی منظر اسوقت ہمارے ملک میں نظر آرہاہے، وہ اقوام جنہیں پچھڑا اور اچھوت سمجھا جاتا تھا آج مین اسٹریم میں پہنچ کر کہرام مچارہے ہیں، وہ طبقات جنہیں نچلی ذات کا شودر بنایاگیا تھا اب سربلندی کی انگڑائیاں لے رہےہیں، وہ لوگ جنہیں طبقاتی بندشوں نے عزت سے محروم کر رکھا تھا اب عزت مآب ہورہے ہیں، ملک کا یہ منظر نامہ ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوناچاہیے، دلتوں، مرہٹوں اور پٹیلوں نے ہندوتوائی علمبرداروں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں، اور مستقل انقلابی شاہراہ پر سرگرم ہیں یہ منظرنامہ اسی ملک کا ہے، جہاں ہم خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں ۔ 

حال ہی میں مہاراشٹر اور ملک بھر کے کسانوں نے سسٹم کے بدعنوان ظالموں کے خلاف ہنکار لگائی ہے، مہاراشٹر کے کسانوں نے تقریباﹰ ۲۰۰ کلومیٹر پیدل مارچ کیا، ناسک سے کسانوں کا یہ سیل رواں اٹھا اور ممبئی تک انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سمیت پہنچا، ہر آنکھ اپنی داستان سنا رہی تھی، ہر قدم عزیمت کے عزائم بیان کررہاتھا، کسانوں کے کڑے تیور اعلان کررہےتھے کہ: اب بس بہت ہوا، یا تو عزت سے جئیں گے، اپنا حق لیں گے یا تو آر پار، 

کسانوں کا یہ ریلا ممبئی پہنچا اور حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے، کسانوں کے مطالبات منظور کیے گئے، غلہ و اناج کے رکھوالے فتحیاب ہوئے، گرچہ ابھی ان کے مطالبات نافذ نہ ہوئے ہوں، گرچہ، حکومت کی نیت کھوٹی ہو، اور وقتی طور پر چھٹکارا پانے کے لیے شکست تسلیم کی ہو، تجزیہ نگار بہت کچھ کہہ رہےہیں، لیکن، ہمارا یہ کہنا ہے کہ کسانوں کا یہ مارچ سبق آموز ہے، کئی قومیں اس ملک میں بستی ہیں عرصے سے ظالمانہ شکنجوں کی شکار ہیں، اپنے مذہبی تشخصات اور شخصی آزادی تک کو بچا نہیں پارہے ہیں، ایسا نہیں کہ وہ تعداد میں کم ہیں، ایسا تو نہیں کہ ان کے یہاں اولوالعزمی نہیں ہے، سب کچھ ہے، نہیں ہے تو طویل المیعاد منصوبے نہیں ہیں، جن کے پاس منصوبے ہیں ان کے پاس وسائل نہیں ہیں، جن کے پاس وسائل ہیں، انہیں دلچسپی نہیں، دلچسپی نہ ہونے کی دو وجوہات ہیں یا تو وہ ان مسائل کو دنیا داری سے تعبیر کرتے ہیں، یا تو، خود غرضی، یہ دو ایسی وجہیں ہیں جنہوں نے قومی کاز پر بدترین اثر ڈالا ہے، 

کسانوں کا یہ احتجاج یونہی کامیاب نہیں ہوا، جگنیش، ہاردک اور الپیش یونہی کامیاب نہیں ہوئے ہیں، ان کے پیچھے ایک نسل کی قربانی ہے جس نے زمین پر محنت کی، اپنی اپنی کمیونٹی کے ہر فرد سے ملاقاتیں کیں، انہیں ان کی ترجیحات پر متوجہ کیا، ان کی قومی شناخت اور ان کی قومیت کا احساس دلایا، بزدلی سے زندہ دلی کی طرف لے گئے، آزاد بھارت میں انہوں نے چھوٹتے ہی احتجاجی پالیسیوں کا نفاذ نہیں کیا، انہوں نے اپنے جملہ مسائل کا حل آندولن اور ہائی پروفائل کانفرنسز کو نہیں بنایا، پہلے انہوں نے اپنوں کا شعور بیدار کیا، قومیت پر متحد کیا، پھر مضبوط بیج بوئے، اپنے گھروں تک کو بیچا، وی آئی پی کلچر کو توڑا، نوجوانوں کو دوست اور عمر درازوں کو سرپرست بنایا، تجربہ کاروں کو مشیر اور ماں بہنوں کو رضاکار بنایا، کبھی جائیں ہم ان اقوام میں اور جاکر ان کے بیچ وقت گذاریں تب اندازہ ہوگا کہ قومیت کیا ہوتی ہے؟ کاز پر جان کیسے دی جاتی ہے؟ 

 اس کمیونٹی کی ریلیوں اور مورچوں کا بھلا کیا اثر پڑے سسٹم پر جس کی شناخت ہی احتجاجی بن چکی ہو، احتجاج، جلوس، آندولن، مورچہ ہر تیسرے دن اس کی سرگرمیوں کا حصہ ہو تو اس سے بھلا کس پر فرق پڑنا ہے؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ افراد ملت اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیں، سر جوڑ کر بیٹھیں، ستر سالوں سے تنزل مسلسل کا احتساب کریں، یقینًا جدوجہد کی گئی، جدوجہد ہورہی ہے، کرنے والوں کے خلوص پر تو شاید کوئی کورِچشم ہی کلام کرے، لیکن جب سترسالوں سے ایک بھی آئینی و پالیسی ساز لڑائی ہم اپنی متعینہ سرگرمی سے نہیں جیت پائے ہیں تو کیا دقت ہے کہ کوئی اور طریقہ نہ اختیار کیا جائے؟ 

ہم لوگ اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ پالیسیوں اور سسٹم کے راستے سے ہونے والی سازشوں اور حملوں کا علاج سڑک پر نہیں ہوسکتا! دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں سسٹم کی یلغاروں کا یوں جواب نہیں دیا جاتا جس طرح ہم ستر سال سے دے رہےہیں، دنیا چھوڑیں، ہندوستان کا ہی جائزہ لیں، اقوام نے اپنے پالیسی ساز تیار کیے پھر ان کے لیے سسٹم کی راہیں ہموار کی تب کہیں جاکر انہوں نے طاقت کا مظاہرہ کیا، 

بالکل دو دو چار کی طرح اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آرہی ہے کہ مظلوموں کو متحد ہونا پڑے گا یہاں، لیکن اشتراک کی بھی بنیادیں ہونی چاہییں، ہم دلت مسلم اتحاد کا نعرہ لگاتے ہیں، لیکن کیا ہم جن دلتوں سے اتحاد کرنا چاہتے ہیں ان کی زمینی جدوجہد کا ۱۰ فیصد بھی ہماری جھولی میں ہے؟ بالکل نہیں ہے، اور ہوتا یہ ہیکہ آج تک ہم نے جن سے بھي اتحاد کیا وہ آگے بڑھے، لیکن ہم جہاں سے چلے وہیں پر کھڑے ہیں، کیونکہ من حیث القوم ہماری زمینی سماجی بنیادیں نہیں ہیں. 

سڑک پر لڑائی، مین اسٹریم میں اسٹریٹ فائٹ تب ضروری ہے جبکہ کوئی آپ پر چڑھائی کرے، جبکہ کوئی ہمیں نرم چارہ سمجھے، اور ایسے حالات بارہا پیش آچکے ہیں، فسادات ہمارے خلاف ہوئے، جیل میں ہمارے بھائی ٹھونسے گئے اور اب بھی ٹھونسے جارہےہیں، کامبنگ آپریشن ہمارے خلاف ہوئے، بم دھماکوں کے الزامات ہمارے سر منڈھے گئے، جانوروں کے نام پر بیچ چوراہے پر ہمارے جوان ذبح کیے گئے، لو جہاد کے عنوان سے ہمارے بھائی زندہ جلائے گئے، یہ اور ایسے بہت سے چیلنجنگ مواقع ایسے آچکے ہیں کہ ان پر مین اسٹریم میں ہنکار کی ضرورت تھی، کہ اس سے اجتماعی غیرت اور قومی حمیت منسلک ہے، نیز کمیونٹی کے نوجوانوں کی زندگی اور زندہ دلی کے لیے یہ لازمی تھا لیکن کیا ہوا؟ سب کے سامنے ہے

دراصل اسٹریٹ فائٹ ضروری تو ہے لیکن جمہوری ملکوں میں اس کی اپنی لچک ہے، 

اگر آپ معروف ٹرینڈ سے ہٹ کر روایتی انتقال چاہیں گے تو آپ اپنے محصور سرکل میں تو خود کو بہت کامیاب سمجھیں گے، لیکن جب زمینی اقوام کے ساتھ اترنا چاہیں گے تو دینے کے لیے آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوگا، اور آپ صرف اسٹیج اور اخبار تک ہی محدود رہینگے، جب بھی قوم کے افراد دیگر اقوام سے بات کرینگے تو خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرینگے، کیونکہ دینے کے لیے تو کچھ موجود نہیں ہوگا، اور پیش کرنے کے لیے آپ کے  سترسالہ سسٹم کا ایک ورق بھی نہیں ہوگا، کیونکہ ہم تو آج تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے آئے ہیں، اپنی صفوں کے اتار چڑھاﺅ اور لیڈرشپ کے سسٹم کا کوئی اتا پتا نہیں! نہ ہم مرتب ہوسکے ہیں، نہ ہی منظم کوئی کام ہے ہمارا، جب کبھی منصفانہ تجزیہ کرینگے، جب کبھی قوم کے جوانوں کا دیگر طبقات کے زمینی افراد سے واسطہ پڑے گا، تب یہ باتیں مشاہدے میں آئیں گی ۔

کسانوں کا کامیاب آندولن، ان کی تہلکہ خیز ہنکار، درحقیقت اس ملک میں زندہ دلوں کے لیے درس عبرت ہے، اسٹریٹ فائٹ کرنے والے، وہ مرہٹہ جنہوں نے ممبئی جیسے شہر کو ٹھپ کردیا تھا ان کی للکار زندوں کے لیے پکار ہے، ہم سلام کرتے ہیں ان پٹیلوں کو جنہوں نے ایک ۲۵ سالہ نوجوان کو اپنا لیڈر بنایا، سلام کرتے ہیں ان دلتوں کو جنہوں نے شیردل جگنیش کو اپنا ہیرو بنایا، سلام ہے مہاراشٹر کے  ان ظلمت شکن کسانوں کو جنہوں نے حق کو حاصل کرنا سکھایا ۔

اپنے حق کے لیے منظم لڑائی کی شروعات کرنے والے کسانوں کی نذر جوش کا پیام : 

یہ سماں اور اک قوی انسان یعنی کاشت کار 

ارتقا کا پیشوا تہذیب کا پروردگار 

جس کے ماتھے کے پسینے سے پئے عز و وقار 

کرتی ہے دریوزۂ تابش کلاہ تاجدار 

سرنگوں رہتی ہیں جس سے قوتیں تخریب کی 

جس کے بوتے پر لچکتی ہے کمر تہذیب کی 

 

خوش نما شہروں کا بانی راز فطرت کا سراغ 

خاندان تیغ جوہر دار کا چشم و چراغ 

دھار پر جس کی چمن پرور شگوفوں کا نظام 

شام زیر ارض کو صبح درخشاں کا پیام

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here