کورونا وائرس کو ہم نے ہی بلا یا ہے!

0
649
All kind of website designing

ڈاکٹر میم ضاد فضلی
سینئر صحافی و تجزیہ نگار

کل اس وقت میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا جب میرے ایک دوست نے بتایا کہ بھائی صاحب اللہ کی بڑی آزمائش ’’ کورو نا وائرس‘‘ جیسی جان لیوان وبا کی خوفناک حالات میں بھی ہمارا مسلم نوجوان گناہوں سے تائب ہونے اور اللہ کی جانب رجوع ہونے کو تیار نہیں ہے، بلکہ اس سراسیمہ صورت حال میں بھی معاشرہ کا نوجوان چوری، چماڑی، دغابازی ، ہیرا پھیری،ڈکیتی ، جیب تراشی ، قمار و شراب اور جوا بازی میں پہلے سے کہیں زیادہ حصہ لینے لگا ہے۔حد تو یہ ہے کہ جامعہ نگر جیسے مسلم اکثریتی علاقے میں رات کی تاریکی میں نہیں ،دن کے اجالے میں جسم فروشی اور زناکاری کا خوب دھندا پھل پھول رہا ہے ۔ اس سے

ڈاکٹر میم ضاد فضلی
ڈاکٹر میم ضاد فضلی

تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس قوم کو اب بارگاہ الہی کی جانب سے ٹھکرایا (negate)جارہے۔احادیث صحیحہ میں دی ہدایات سچ ثابت ہورہی ہیں کہ ’’گناہوں پر اصرار کی وجہ سے محسن انسانیتﷺ کے ماننے والوں(امت محمد یہ علیہ اوآلہ واصحابہ علیہم الصلاۃ والتسلیم ) سے نیکی اور خوف الہی کی توفیق ہی سلب کرلی جاتی ہے۔ آج سے لگ بھگ ساڑھے چودہ سو برس پہلے اللہ رب العزت نے کفار اور منافقین کے بارے میں واضح لفظوں میں اپنے حبیب سے کہہ دیا تھا کہ: ’’ خَتَمَ اللہ ُ عَلیٰ قُلُوبِہِمْ وَعَلیٰ سَمْعہِمْ وَعَلیٰ أَبْصَارِہِمْ غِشَاوۃٌ وَلہُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔(البقرۃ ،آیت7)بہ ظاہر یہ آیت کفار و مشرکین اور منافقین سے متعلق ہے ۔ مگر اس کی ماثورتفسیر پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں پر اصرار خالق کائنات کے غیظ و غضب کو دعوت دیتا ہے ،جس کے نتیجے میں دلوں اور کانوں پر مہریں (ڈھکن)لگادی جاتی ہیں اور آنکھوں پر دبیز پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ دم واپسیں تک ایمان پر قائم ہونے اور نیک اعمال و گریہ وزاری کے ذریعے اللہ کو راضی کر نے کی توفیق بھی نہیں ملتی۔چناں چہ اس آیت کی متعدد تفاسیر میں سے ہم یہاں صرف چند ایک پیش کررہے ہیں ،جس اندازہ ہوجاتا ہے کہ گناہوں پر اصرار سب سے بڑےدنیاوی اوراخروی خسران کا باعث ہے۔ :’’حضرت سدیفرماتے ہیں ختم سے مراد طبع ہے، یعنی مہر لگا دی ،حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا ،وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے ،یہاں تک کہ مہر لگا دی ،حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے ،یہاں تک کہ مہر الٰہی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر لگ گئی اور آنکھوں پر پردہ پڑ گیا۔ پھر وہ نہ ہدایت کو دیکھ سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ گناہ لوگوں کے دلوں میں بستے جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ بس یہی طبع اور ختم یعنی مہر ہے۔ دل اور کان کے لئے محاورے میں مہر آتی ہے۔‘‘
آج دنیا کے طاعون زدہ حالات میں بالخصوص مذہب اسلام کو ماننے والوں کونیکی اور انفاق فی سبیل اللہ کی جانب راغب ہونے کی بجائے مزید گناہوں کے دلدل میں غرق ہوتے جانا، اسی جانب اشارہ کرتا ہے کہ اب اس امت کو اللہ نے کیفر کردار تک پہنچانے اور اس کی جگہ دوسرے لوگوں (قوموں) کو لانے کا فیصلہ کرلیا ہے، جو کسی بھی قیمت پر ہم جیسی نہیں ہوگی۔خود قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے واضح لفظوں میں امت محمدیہ ﷺکو متنبہ کردیا ہے۔
’’اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ (الرعد ۱۳:۱۱)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا ،جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
آلِ فرعون اور ان سے پہلے کی قوموں کا ذکرکرتے ہوئے اسی اصول کو یوں بیان کیا گیا ہے:
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ لا وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o (الانفال ۸:۵۳)
یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِعمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والاہے‘‘۔
ابتلاء و آزمائش کی اس گھڑی میں ہماری بد اعمالیاں چیخ چیخ پکاررہی ہیں کہ ہمارے اعمال اس لائق نہیں رہے کہ وہ حسن قبول کے درجہ کو پہنچیں اور اللہ کی رحمت کو ہماری جانب کھینچ کر لاسکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ اللہ نے تقدیر میں لکھ رکھا ہے ، صحت اور بیماری بھی اللہ ہی کے حکم سے آتی ہے اور یہ تقدیر کا حصہ ہے۔ چناںچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ’’یقین جانو! اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو تمہیں نفع نہیں پہنچا سکتی، سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سارے مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ۔‘‘ (مسند احمد)
اسی طرح قرآن ِ کریم اور احادیث ِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے اپنے اعمال بھی مصیبتیں اورپریشانیاں آنے کا سبب بنتےہیں ۔ چناںچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے ، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ : 30) ذیل میںچند روایات ملاحظہ فرمائیں جس پتہ چلتا ہے کہ کن گناہوں اور معصیت پر اللہ کریم دنیامیں کون سی آفتیں نازل کرتا ہے۔
طاعون اور وباؤں کے پھیل جانے کی وجہ گناہوں کی کثرت اور اللہ کے احکام کی نافرمانی ہے جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے، قرآنِ کریم میں ہے :
’’فَأَنْزَلْنَا عَلی الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كکَانُوا يَفْسُقُونَ‘‘ [البقرہ: 59]
ترجمہ : ہم نے نازل کی ان ظالموں پر ایک آفت سماوی (وہ آفت سماوی طاعون تھا) اس وجہ سے کہ وہ عدول حکمی(نافرمانی) کرتے تھے۔(بیان القرآن)
حدیثِ مبارک میں ہے :
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے جماعتِ مہاجرین! پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہو جاؤ ۔اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تم ان چیزوں میں مبتلا ہو۔
1۔ پہلی یہ کہ جس قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں یعنی نئی نئی بیماریاں نازل کی جائیں گی۔
2۔ اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط مصائب اور بادشا ہوں (حکم رانوں) کے ظلم وستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے ۔
3۔ اور جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکوٰۃ نہیں دیتی تو بارش روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ بر سے۔
4 ۔ اور جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں۔
5۔ اور جب مسلمان حکم راں کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام میں (مرضی کے کچھ اَحکام) اختیار کرلیتے ہیں (اور باقی کوچھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو خانہ جنگی اور) باہمی اختلافات میں مبتلا فرما دیتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ (2/ 1332)
آج آپ خود مشاہدہ کرکے دیکھیں ایک گھر میں دن رات ایک ساتھ رہنے فیملی ممبران شدید اختلاف اور دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت ۔ گاؤں ،محلوں اور بستیوں میں مسلمانوں کے درمیان پارٹی بندی کا عذاب اس سے تو دنیا کی کوئی بھی مسلم آبادی محفوظ نہیں ہے۔ اللہم احفظنا
’’عن عبد الله بن عمر، قال: أقبل علينا رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم، فقال:’’ يا معشر المہاجرين! خمس إذا ابتليتم بہن، وأعوذ بالله أن تدرکوہن: لم تظہر الفاحشۃ في قوم قط، حتی يعلنوا بہا، إلا فشا فيہم الطاعون، والاوجاع التي لم تکن مضت في أسلافہم الذين مضوا، ولم ينقصوا المکيال والميزان، إلا أخذوا بالسنين، وشدۃ المئونۃ، وجور السلطان عليہم، ولم يمنعوا زکاۃ أموالہم، إلا منعوا القطر من السماء، ولولا البہائم لم يمطروا، ولم ينقضوا عہد الله، وعہد رسولہ، إلا سلط الله عليہم عدوا من غيرہم،فأخذوا بعض ما في أيديہم، وما لم تحکم أئمتہم بکتاب الله، ويتخيروا مما أنزل الله، إلا جعل الله بأسہم بينہم‘‘۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث حسن درجہ کی ہے)
غور کرنے کا مقام ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے جن اعمال کی نشان دہی کی ہے، آج امت میں جب وہ گناہ عام ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑ کی مختلف صورتیں آنے لگی ہیں،لہذا اس کا حل اللہ کی طرف رجوع کرنا، توبہ واستغفار کرنا، اپنے گناہوں پر خوب ندامت کے ساتھ اللہ کے سامنے گڑگڑانا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العبادادا کرنا، مدارس اور مساجد کو آباد کرنا اور صدقہ وخیرات میں کثرت کرنا ہے، بحیثیت مسلمان ان وباؤں سے بچنے کے لیے ظاہری اسباب کے ساتھ ہمیں اس حقیقی سبب کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے، چہ جائے کہ ہم عبادات میں مزید کوتاہی کرنے لگ جائیں، ایسے حالات میں مساجدوں کو اور بھی زیادہ آباد کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک تلخ حقیقت جسے میں گزشتہ 10 برس سے اپنی آ نکھوں سے دیکھ رہاہوں ،وہ اور بھی زیاہ پریشان کن اور مسلمانوں کےلیے شرم کے مارے ڈوب مرنے کی ہے۔ پہلے جامعہ نگر جیسے تعلیم یافتہ مسلم علاقہ میں اگرچہ شراب و جوا وغیرہ کے اڈےپولیس کی ملی بھگت اور مخبری کی وجہ سے چلا کرتے تھے، جس کو مقامی سیاسی لوگوں کا تعاون بھی ملا کرتا تھا۔ مگر جب سے اس قدرے صاف ستھرے محلے میں پان کی دکان لے کرغیر مسلم لوگ داخل ہوئے ہیں، تب سے یہاں حقے ، چلم ، سٹا اور چرس جیسی مہلک اور ام الخبائث نشہ آور اشیاء کھلے عام ان دکانوں پر بک رہی ہیں۔عام طور پرپان گٹکھا وغیرہ کی دکان چلانے والے اکثر مسلمان بھائیوں میں ابھی بھی اتنی خباثت نظر نہیں آتی کہ وہ کھلے عام چرس افیم، سٹا اور حقہ و چلم بیچنے کی ہمت کر سکیں ، یہ سارے سیاہ دھندھے اس مسلم محلے میں غیر مسلم دکاندار کررہے ہیں اور کھلے عام انہوں نے اپنی دکانوں پر حقہ و چلم وغیرہ کو سجا کر رکھا ہوا ہے۔جب کوئی نشہ آورشئے کھلے عام دستیاب ہونے لگے گی تو ظاہر سی بات ہے ہمارا تعلیم اور دینی تربیت سے محروم نوجوان ان اشیاء کو خریدے گا، اسے خود بھی استعمال کرے گا اور اپنے دوست احباب کو بھی اس تباہ کن عادت کا شکار بنادے گا۔بحیثیت مسلم محلہ کےارباب حل و عقد اور دیندار طبقہ کو ان کے خلاف مہم چلانی چاہئے اور اس نحوست سے معاشرہ کو بچانے کے لیے قانونی چارہ جوئی کی راہ بھی اختیار کرنی چاہیے۔ورنہ آج ہمارے پڑوس کابچہ اگراس کا عادی ہورہا ہے تو اس خام خیالی میں نہ رہا جائے کہ کل ہمارے بچے اس میں ملوث نہیں ہوں گے۔اسی طرح اگریہ دکانیں پھلتی پھولتی رہیں توہمارا سارا مسلم معاشرہ اپنی گاڑھی کمائی افیم اور حقہ بیچنے والے ظالموں کے جیب میں ٹھونس کر اپنی دنیا اور دین دونوں کو ہی تباہ کرلے گا۔ تصور کیجیے ایک سبزی بیچنے والے غریب اور عمررسیدہ مسلمان کو غیر مسلم محلے میں اس کی داڑھی پکڑ مارا پیٹا جاتا ہے اور محلے میں دوبارہ نظر آنے پر ماب لنچنگ کردیے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے، حالاں کہ وہ غریب کوئی نشہ نہیں بیچ رہا ہے، جس سے معاشرہ میں آگ لگ جائے گی۔اس کے برعکس ہمارے محلے میںپان دکان کی آڑ میں حقہ ،چرس ،افیم اور گانجہ و بھانگ بیچ کر برادران وطن کے لوگ نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے والے سارے زہر بیچ رہے ہیں۔ ہمیں جلد اس کا نوٹس لینا چاہیے، ورنہ اللہ کے یہاں کل ہمیں بھی جوابدہ ہونا پڑے گا اور معاشرے کو برائی کی راہ پر چھوڑدینے کے بدلے میں ہمارے نیک اعمال بھی مسترد کردیے جائیں گے اور دنیا میں ذلت تو ہمارا مقدربن ہی رہی ہے ، اگر ہم اسی طرح خاموشی تماشائی بنے رہے تواس کا سلسلہ مزید بڑھتا چلا جائے گا۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور معاشرہ کے نوجوانوں کو نشہ کی بری لت سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here