بابری مسجد کے فیصلے پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا جائے : یٰسیٓن اختر مصباحی

0
781
All kind of website designing

نئی دہلی ۔نیا سویرا لائیو : بابری مسجد اور ہر مسجد کے تعلق سے مسلمانوں نے شریعتِ مطہَّرہ کا یہ حکم پوری صراحت وقوت کے ساتھ سیکڑوں مرتبہ، عوامی، صحافتی، سیاسی، قانونی، ملکی، غیرملکی ،ہر جگہ، ہر پلیٹ فارم سے، ہر ایک کو بتا دیا ہے کہ: جو زمین ایک بار مسجد بن جائے، وہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہو جاتی ہے اور کسی وجہ سے اس کی عمارت ،باقی نہ رہے، تب بھی اس کی مسجدیت قیامت تک باقی رہتی ہے۔ ظُلماً و غَصباً کسی مسجد پر کسی کے قابض ہو جانے کے باوجود، کوئی مسلمان ،کسی قیمت پر اس ظلم و غصب پر اپنی رضا مندی کاظہار کر سکتا ہے، نہ ہی اس کی مسجدیت کے اپنے شرعی حکم اور قانونی حق سے کسی وقت ، دست بردار ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں آج اپنے ایک اخباری بیان میں مولانایٰسین اختر مصباحی، بانی و صدر دارالقلم، ذاکر نگر، نئی دہلی نے کہی ہیں۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب جب کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے سامنے ،طویل تاریخی مقدمہ¿ بابری مسجد ،اجودھیا میں حقِ ملکیتِ زمین کے سلسلے میں اپنے سارے دلائل ،حقائق، دستاویزات اور شواہد ،بابری مسجد کے وُکلا ،پیش کر چکے اور حسبِ توقع۷۱ نومبر (۹۱۰۲ئ) سے پہلے ہی اس کا فیصلہ ،ملک کے سامنے آجائے گا تو سب سے اہم مسئلہ، سارے ملک و قوم اورقانون و انتظام کے سامنے یہ ہے کہ فیصلہ آجانے کے بعد، ملک کے کسی حصے میں کوئی بدنظمی و بدانتظامی اور فتنہ و فساد ،نہ برپا ہونے پائے۔ یاد رہے کہ ملک کا ہر شہری، فیصلہ¿ سپریم کورٹ ماننے کا پابندِ عہد ہے۔

مولانا یسین اختر مصباحی

مصباحی صاحب نے اپنے اس بیان میں مسلمانانِ ہند سے بطور خاص یہ گزارش کی ہے کہ : انھیں بے حد محتاط اور چوکنَّا رہتے ہوئے حتی الامکان اپنے صبرو ضبط و تحمل کامظاہرہ کرنا ہے۔ کیوںکہ خدا نخواستہ اگرشرپسند عناصر اورفرقہ پرست قوتوں کی کسی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں ان کی طرف سے اسی طرح کا کوئی ردّ عمل ،سامنے آتا ہے ۔یا کوئی غیر ضروری و غیر مفید اقدام و عمل ،مسلمانوں کی طرف سے ہوتا ہے ۔یا کسی طرح کی بے احتیاطی و جذباتیت کا مظاہرہ ہوتا ہے تو بظاہر اس کا سارا نقصان ،مسلمانوں ہی کو ہوگا۔ اور کوئی خاص طبقہ ومسلک نہیں بلکہ ہرطبقہ و مسلک کے مسلمان اس کی زد میں آئیں گے۔اس وقت سارا ملک اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ آر ایس ایس نظریات کی حامل ،بہت سی صوبائی حکومتوں کے ساتھ مرکزی حکومت کی باگ ڈور، جس ”ہندوتوا“ کے علمبردار ہاتھوں میں ہے ،اس کا سیاسی کرداراور اس کے عزائم کیا ہیں؟
ایسے ہیجان انگیز حالات میں عامّہ¿ مسلمین اور عُلما و قائدینِ ملت کی بصیرت و فراست کا تقاضا یہی ہے کہ: وہ کشتیِ امت و مِلَّت کو منجدھار سے بچا کر کسی طرح اپنے ساحل تک نکال لائیں۔اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ منجدھار میں پھنسی کشتی کو پار لگانے اور اپنے ساحل تک پہنچنے پہنچانے کے لئے ملاح اور کشتی کے سواروں کو ہی اپنی حفاظتی تدابیر، اختیار کرنی ہوتی ہیں۔ اور ایسے مراحل و لمحات میں طوفانوں اور منجدھاروں سے عرض و معروض اور نالہ و شیون نہیں کیا جاتا، نہ ہی ان سے فریاد رسی کی کوئی درخواست کی جاتی ہے۔برسرِاقتدار طاقت و حکومت اور اس کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے امن مخالف اور مسلم دشمن عناصر کی شرپسندانہ و تخریب کارانہ حرکتوں سے ساری دنیا اچھی طرح واقف ہوچکی ہے۔اس کے بارے میںکچھ بتانے اور کچھ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔قوی امکان ہے کہ مقدمہ¿ بابری مسجد کی سماعت کرنے والے ججوں کی پانچ رکنی بنچ اپنا تاریخی فیصلہ لکھ چکی ہے اور اب کسی دن بھی یہ فیصلہ، ملک و قوم کے سامنے آسکتا ہے۔فیصلہ اور اُس کے مُضمرات کے سلسلے میں مصباحی صاحب نے اپنے اس بیان میں کہا کہ: مقدمہ¿ بابری مسجد کے وُکلا ،اس کا مطالعہ پوری گہرائی کے ساتھ کرکے قانونی طور پر یہ طے کرپائیں گے کہ: اب انھیں کیا قانونی پیش قدمی کرنی چاہیے اور پھر اس پیش قدمی کے قانونی امکانات کیا ہوسکتے ہیں؟اور کچھ فوائد ،حاصل ہوسکتے ہیں، یا نہیں؟
اس مسئلے میں عام لوگوں کے سامنے ،اظہارِ رائے کا کوئی مطلب ہے نہ ہی کوئی فائدہ۔بیان کے آخر میں مصباحی صاحب نے کہا کہ:
حکومت اور پولیس کو جو کرنا ہے ،وہ کرے گی۔ اور کس حد تک اپنی ذمہ داری نبھائے گی ،وہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر مسلمانوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ خود حفاظتی کی تدابیر کریں۔ اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کرنا،یہ ان کی پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری ہے۔مسلمانانِ ہند اپنے ملک و وطن کے وفادار ہونے کے ساتھ، اپنے دستور و آئین کے بھی پابند ہیں۔ وہ اس ملک کے برابر کے شہری ہیں۔ انھیں اپنے حاصل شدہ دستوری حقوق کے ساتھ اس ملک میں جینا اور مرنا ہے۔ اور سرجھکا کر نہیں بلکہ سربلندی کے ساتھ رہنا ہے۔ہمت و جرا¿ت وبصیرت وفراستِ مومنانہ کے ساتھ انھیں یہاں اپنی زندگی گذارنی ہے۔ اور اس ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کا حصہ کسی سے کم نہیں بلکہ دوسروں سے بہت زیادہ ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانانِ ہند اور ان کی مساجد و مدارس و مراکز کی حفاظت فرمائے۔ اور ان کے حال و مستقبل کو بہتر سے بہتر بنا کر انھیں فوز و فلاح اور عزت و سرفرازی سے نوازے۔

نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں

تبصرہ کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here