سچ بول دوں ۔۔۔۔۔۔۔ میم ضاد فضلی
کاس گنج فسادات کو آج بارہ روز گزر چکے ہیں،اس دوران وہاں حالات کو معمول پر لانے کی انتظامیہ کی کاروائیاں بتا رہی ہیں کہ سکے کادوسرا رخ کیا ہے۔سکے کا دوسرا رخ ہے بھگوا انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی کرنا۔اسی کے ساتھ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ آخر یہ سب کیوں کیا جارہا ہے اور اس کے پیچھے کون سے منصوبے کا م کررہے ہیں۔سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہندوتوا کے نام پر ملک کوفاشزم کی جانب لے جانے والے یہ غیر سماجی عناصر اور ان کا بندربن کر ناچنے والے دوتین نیشنل چینلوں کے ضمیر فروش بھونپو نے کاس گنج میں قومی تقریب ’’ یوم جمہوریہ ‘‘ کے موقع پر پرچم کشائی کے دوران یوگی آ دتیہ ناتھ کی تشکیل کردہ ہندو یووا واہنی کے غنڈوں نے مسلمانوں سے لڑائی نہیں کی تھی،بلکہ بھگوا بریگیڈ کی اصل لڑائی ملک کے جمہوری اقداراورقومی پرچم ترنگے سے تھی۔ملک سے محبت کرنے والے ہندو مسلمان سبھی مل کر ویر عبد الحمید چوراہے پر ترنگا پھہرانے کی تیاری کررہے تھے ،جبکہ وہاں اسلحوں اور حرب و ضرب کے آلات کے ساتھ موٹر سائیکل سوار بھگوائی دہشت گردوں نے ترنگے کی جگہ بھگوا پرچم لہرانے کی ضد شروع کردی تھی۔دونوں گروپ میں شامل لوگوں کے درمیان اسی مسئلے پر توتو میں میں شروع ہوئی جو نتیجہ کار مارپیٹ اور پتھر بازی میں تبدیل ہوگئی۔میں نے تھوڑا وثوق کے ساتھ لڑائی کرنے والوں کو گروپ اس لئے کہاہے کہ یہ لڑائی بھگوا غنڈوں اور محب وطن شہر یو ں کے درمیان ہوئی تھی۔اس لڑائی میں ایک جانب بھگوا غنڈے تھے تو اس کے مد مقابل ترنگالہرانے والے گروپ میں ہندو مسلمان دونوں ہی شامل تھے۔جن لوگوں نے بھگو ا غنڈوں سے ترنگے کی آبرو بچانے کیلئے پتھر اٹھانے والوں میں ہندو مسلمان دونوں شامل تھے۔یہ ساری باتیں ہوا میں نہیں کی جارہی ہیں ،بلکہ اُن حقائق کی روشنی میں کہی جارہی ہیں جو ویڈیو فوٹیج
کے ذریعہ اور صحافت کے مرد مجاہد ابھیسار شرما اوراین ڈی ٹی کے علاوہ درجن بھر سے زائد یو ٹیوب چینلوں کے ملک دوست اینکروں نے جو دکھایا ہے اس کی بنیاد پر کہی گئی ہیں۔
میرے دعووں پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہوسکتاہے کہ میں کاس گنج کی واردات کو ہندو مسلم فساد ماننے سے انکار کیوں کررہاہوں۔ بھائیو! میں اسے ہندو مسلم فساد ماننے سے اس لئے انکار کررہا ہوں کہ اگر یہ مذہبی فساد یعنی کومیونل رائٹ ہوتا تو بھگوا غنڈوں سے بھڑنے والے صرف مسلمان ہوتے ۔مگر صورت حال یہ ہے کہ بھگوابلوائیوں کیخلاف محاذ میں ہندو مسلم دونوں شامل تھے۔اس کا صاف مطلب یہی نکلتا ہے کہ یہ فرقہ ورانہ فساد نہیں تھا،بلکہ یہ ترنگا بہ مقابلہ بھگوا فساد تھا۔یوگی کے پالتو زعفرانی بھیڑیے ترنگا پرچم کی جگہ بھگوا پرچم لہرانے کا دباؤ بنا رہے تھے۔جبکہ ملک کی تہذیب ،سیکولرزم اور جمہوریت سے سچا پیار کرنے والے محب وطن ہندوستانیوں نے اس کی شدید مخا لفت کی اور انجام کار بھگوا پرچم برداروں اور ترنگا پرچم برداروں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں بھی مٹھی بھر بھگوا دھاریوں اور بھونپو میڈیا کی باتوں میں آ گئیں اور یہ سمجھنے سے قاصر رہیں کہ کاس گنج فسادات کو اسی سازش کے تناظر میں دنیاکے سامنے پیش کیا جاتا کہ اقتدارکے نشہ میں چور سنگھی عناصر ملک کی سیکولر شناخت اور جمہوریت کے خلاف محاذ بنانے لگی ہیں،اس سازش کو کچھ اس طرح پیش کیا جارہاہے کہ ان کا ملک کو ہندوراشٹر بنانے کا ناپاک منصوبہ امن پسندہندوستا نیوں کی نظروں سے اوجھل رہے اور آئندہ جو انتخابات ہونے ہیں، ان میں اسی نوعیت کا فرقہ وارانہ ماحول بناکر ترقی،انصاف ،قیام امن اورروزگارکی فراہمی جیسے اہم مسائل کو بھول کر اکثریتی طبقہ آنکھیں بند کرکے اپنے ووٹ ان کی جھولی میں ڈال دے۔مجھے افسوس ہورہا ہے کہ اس قدر واضح سازش کو دیکھ کربھی اپوزیشن لیڈران فسطائی قوتوں کی طرح ہی کاس گنج کے فساد کو ہندو مسلم بناکر بات کررہے ہیں،حالا نکہ آر ایس ایس کی یہ منصوبہ بند سازش ملک کو مذہب کا رنگ دے کر اپنے لئے ماحول بنانے میں جٹ گئی ہے۔ سچائی یہ بھی ہے کہ فسطائی طاقتیں اس وقت ہندو مسلم کی آڑ میں ترنگا بہ مقابلہ بھگوا جنگ کی تیاری میں لگی ہوئی ہیں۔ کل بروز منگل سماجوادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری نے بھی اس بات کی تائید کی ہے کہ کاس گنج واردات میں ہلاک چندن کو گولی مار نے والا بھی ہندو ہی تھا۔انہوں نے کہاہے کہ وہاں ہندو کی موت ہندو کے ہی ہاتھوں ہی ہوئی اور ساراالزام مسلمانوں پر منڈھ کر انتظامیہ یکطرف طور پر مسلمانو ں کو ہی نشانہ بنا رہی ہے ۔اپنے بیان میں رام گوپال یادو نے کہاہے کہ ریاست بھر میں فرضی انکاؤنٹر کے ذریعہ مسلمانوں کا منصوبہ بندقتل کیا جارہاہے۔یوگی کی گندی زبان سے صرف بھونڈی اور دنگابھڑکانے والی باتیں ہی نکل رہی ہیں۔انہوں نے خاص بات جو کہی ہے اسے میڈیا اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی شاید قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔سماجوادی پارٹی کے علاوہ سبھی اپوزیشن پارٹیوں کو صرف اپنے ووٹ بینک کی سیاست کرنی ہے ،اس لئے سبھی نے مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے ،مگر ہم اس کو قطعی برداشت نہیں کریں گے۔کوئی مخصوص طبقہ ناراض ہوجائے گا اس خوف سے ہم ظلم اور نا انصافی کیخلا ف اپنی آواز بند نہیں کرسکتے۔دعاء کیجئے ستر برس سے مسلمانوں کا قیمہ بنانے والی کانگریس پارٹی کی سمجھ میں بھی یہ بات آجائے اورسچ بولنے کی ہمت راہل گاندھی سمیت سبھی وی وی آئی پی کانگریسیوں کو مل جائے ،جنہیں اقتدار اور سیاست کی کرسیاں وراثت میں ملی ہیں۔اپنی جد وجہد،کوششوں اور محنت و مشقت سے انہوں نے اپنے لئے سیاست کی زمین تیار نہیں کی ہے۔ اے کاش اپنے بیان میں رام گوپال یادو نے یہ وضاحت بھی کردی ہوتی کہ اس وقت اتر پردیش سمیت پورے ہندوستان میں بی جے پی اور آر ایس ایس نے ترنگا بہ نام بھگوا جنگ کی تیاری کر چکی ہے ،جسے ہندو مسلم فسادات کا نام دے کر اپنی زمین ہموار کی جارہی ہے۔ کاس گنج میں فرقہ ورانہ فسادات کے بعد بھاجپائیوں کے علاوہ دوسری سبھی پارٹیوں کے نمائندوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی،راج ببر کو بیرنگ واپس کردیا گیا،جبکہ تلنگانہ کے بھاجپائی رکن اسمبلی اور رام سینا کے زہریلے لیڈر ،مقامی رکن پارلیمنٹ اوررکن وسمبلی کو جلتی پر گھی ڈالنے کیلئے آزاد چھوڑ دیا گیا۔کیایہ ساری باتیں اس جانب اشارے نہیں کررہی ہیں کہ گزشتہ سال امت شاہ نے بھاجپائیوں کو جو ہوم ورک دیا تھا اس پر سنگھی غنڈے سختی سے عمل پیرا ہوگئے ہیں۔امت شاہ نے اپنی غلیظ زبان سے یہ بات کہی تھی کہ اگر اتر پردیش میں فرقہ ورانہ لڑائی اور نفرت کا ماحول قائم رہا تو اگلی سرکار ہماری ہوگی ۔ اسی طرح امت شاہ نے تری پورہ میں اپنے خطاب میں کہاتھا کہ’’ جتنا تشددکاکیچڑ بڑھے گا ،اتناہی زیادہ کمل کھلے گا‘‘۔ کیا ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد بھی ہمیں یہ بات گمراہ کئے جارہے برادران وطن کو نہیں سمجھانی چاہئے کہ سنگھ نے ہندوتواکے نام پر ترنگا کیخلاف جنگ چھیڑی ہے،جو ملک کی سالمیت اور ترقی کیلئے انتہائی مہلک ثابت ہوگا اور ساری دنیا میں ہندوستان کا سرشرم سے اور زیادہ نیچے جھک جائے گا۔
09911587378
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں