کلیم الحفیظ
حجاب کا تنازعہ ایسے وقت میں اٹھایا گیا جب اترپردیش سمیت ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں ،ملک میں سکون سے تو شاید کوئی نہیں لیکن مسلمانوں کو ہر نئے دن کا سورج نیا زخم دے جاتا ہے۔ہمارے جسم پر اتنے زخم لگائے گئے ہیں کہ پورا جسم چھلنی ہوگیا ہے۔اس وقت نیا زخم حجاب کو لے کر ہے۔کرناٹک کے ایک کالج نے یونیفارم کا حوالہ دے کر مسلم لڑکیوں کو حجاب اتارنے کا حکم دے دیا۔ظاہر ہے یہ حکم آئین ہند اور شریعت کے خلاف تھا جسے ان لڑکیوں نے ماننے سے انکار کردیا۔اس کے بعد بھگوادھاریوں نے اسے ایشو بنادیا اور حجاب کے مقابلے بھگوا شال لے آئے۔رفتہ رفتہ کرناٹک کے کچھ کالجوں کا یہ ایشو پورے ملک کا ایشو بن گیا۔ایک باحجاب لڑکی مسکان کو جب چند شرارتی عناصر نے گھیرا اور جے شری رام کے نعرے لگائے تو اس نے جواب میں اللہ اکبر کے نعروں سے ان کا جواب دیا۔مسکان کا یہ ویڈیو ہر انصاف پسند شخص نے پسند کیا۔ہر طرف اس کی ہمت و جرأ ت کی پذیرائی ہورہی ہے۔
کرناٹک کے ایک کالج نے یونیفارم کا حوالہ دے کر مسلم لڑکیوں کو حجاب اتارنے کا حکم دے دیا۔ ظاہر ہے یہ حکم آئین ہند اور شریعت کے خلاف تھا ،جسے ان لڑکیوں نے ماننے سے انکار کردیا۔اس کے بعد بھگوادھاریوں نے اسے ایشو بنادیا اور حجاب کے مقابلے میں بھگوا شال لے آئے۔رفتہ رفتہ کرناٹک کے کچھ کالجوں کا یہ ایشو پورے ملک کا ایشو بن گیا اور گودی میڈیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ٹی وی چینلوں کے ڈیبیٹ میں میزبان بن کر بیٹھنے والے صحافت کے ضمیر فروش غداروں کو ریاستی انتخابات میں اس ایشو کو مسالہ بنا کر پیش کرنے کا موقع مل گیا ہے۔
حجاب تنازعہ کے کئی پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں۔حجاب کا تنازعہ ایسے وقت میں اٹھایا گیا جب اترپردیش سمیت ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں۔زعفرانی پارٹی کو خا ص طوریوپی میں بھاری مخالفت کا سامنا ہے۔اسے حجاب کے ایشو سے کئی فائدے ہوسکتے ہیں۔ لوگوں کی توجہ حجاب پر مبذول ہوگی اور وہ الیکشن میں وکاس کی بات نہیں کریں گے۔ہندو شدت پسند ووٹ متحد ہوگا۔مسلمانوں سے نفرت کرنے والے لوگ مسلمانوں کا خوف دلائیں گے۔اڈوپی کے جس کالج میں یہ مسئلہ ہوا ہے وہاں ہمیشہ سے ہی بعض مسلم لڑکیاں حجاب پہن کر آتی رہی ہیں۔کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔نہ کسی نے اسکول یونیفارم کا حوالہ دیا۔اچانک الیکشن کے موقع پر اس مسئلہ کو اٹھانا اور پھر آر ایس ایس کی پوری ٹیم کا لگ جانا،راتوں رات لاکھوں بھگوا شالیں مہیا ہوجانا اس بات کی دلیل ہے کہ شکست کے خوف سے فاشسٹ پارٹی نے پہلے سے ہی یہ منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان اپنی لڑکیوں کو پڑھنے نہیں بھیجتے،انھیں گھروں میں قید رکھتے ہیں،خود وزیر اعظم مسلم بہنوں کی فکر میں دبلے ہوئے جاتے ہیں،انھوں نے تین طلاق پر کیا قانون بنایا،پھولے نہیں سماتے۔اپنی ہر ریلی میں اپنی اس عظیم کامیابی کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔حالانکہ وہ قانون خود عدالت میں زیر سماعت ہے۔مسلم بہنوں کے خیرخواہوں نے اتر پردیش الیکشن میں جب سنکلپ پتر جاری کیا تو اس میں ہولی اور دیوالی پر مفت گیس فراہم کرنے کا وعدہ کیا،لیکن مسلم بہنوں کو طلاق سے نجات دلانے والے بھول گئے کہ اس ملک میں عید بھی آتی ہے۔آخر یہ کیسے خیر خواہ ہیں کہ مسلم بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں۔اس سے ان کی جھوٹی خیر خواہی بے حجاب ہوگئی ہے اور ہماری ان مسلم بہنوں کو سمجھنا چاہیے جنھوں نے طلاق کے مسئلے پرسرکار کی حمایت کی تھی اب وہی لوگ ان کی عزت نیلام کرنے پر اتر آئے ہیں۔اسکول یونیفارم کا میں بھی قائل ہوں۔ہر جگہ اور ہر مقام کی ایک یونیفارم ہوتی ہے۔اسکول یونیفارم میں کپڑوں کا رنگ،جرسی و شال کا رنگ،جوتے اور موزے کا رنگ طے ہوتا ہے۔سر کھولنے اور سر ڈھانکنے کی آزادی ہوتی ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس دوپٹے سے سر ڈھانکا جارہا ہے اس کا رنگ یونیفارم کے مطابق ہونا چاہئے،لیکن آپ سر کھولنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔اسی طرح یونیفارم کا اطلا ق کلاس روم میں ہوتا ہے،اسکول کے گیٹ سے نہیں،ایک مسلم لڑکی اگر اپنی یونیفارم پر برقع پہن کر اسکول آتی ہے اور کلاس روم میں اپنا برقع اتارکر صرف اسکارف سے سر ڈھانک لیتی ہے تو اس میں کسی کو کیا اعتراض ہونا چاہئے۔لیکن موجودہ مرکزی حکومت نے ہمیشہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا ہے۔اس کی ساری سیاسست
دھرم کے ارد گرد ہی گھومتی ہے۔اسکولوں میں تعلیم کا گرتا معیار،اساتذہ کی کمی،اسکولوں میں جرائم میں اضافہ جیسے موضوعات پر گفتگو کرنے کے بجائے حجاب پر سیاست کی جارہی ہے۔جس ملک میں عصمت دری کے واقعات میں روزانہ اضافہ ہورہا ہے۔اناؤ جیسے معاملات بار بار دہرائے جارہے ہیں۔وہاں اگر کوئی اپنی عصمت کی حفاظت کی خاطر حجاب پہنتا ہے تو اسے سر کھولنے پر مجبور کیوں کیا جارہا ہے۔ مغربی تہذیب کی مخالفت میں ویلنٹائن ڈے پر اظہار محبت کرنے والوں کو زدو کوب کرنے والے،لو جہاد پر انگلی اٹھانے والے،بیٹی بچاؤ کی مہم چلانے والے،فدا حسین کی ننگی تصویروں پر شور مچانے والے،سیتا کے پجاری مریم کو بے حجاب کیوں کررہے ہیں؟نام نہاد سیکولر پارٹیاں کیوں خاموش ہیں؟جے شری رام کے مقابلے اللہ اکبر کی تکبیر مذاہب کے درمیان خلیج بڑھائے گی۔اس سے دونوں مذاہب کے درمیان عداوت اور نفرت بڑھے گی۔یہ ٹرینڈ ملک کے باشندوں کے درمیاں حد فاصل کا کام دے گا۔حالانکہ مذاہب کے تعلق سے یہی کہا جاتا ہے کہ ”مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا“۔لیکن اس وقت جو ماحول ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نفرت کی یہ فضا مذہب ہی پیدا کررہا ہے۔شرپسند عناصر کو سمجھنا چاہئے کہ ان کے اس عمل سے ہندو دھرم کی مقبولیت میں کمی آئے گی۔ہندودھرم کے نظریہ عدم تشدد پر انگلیاں اٹھیں گی۔وسودیوکٹمبھکم بکھر جائے گا۔ساری دنیا میں بھارت کی رسوائی ہوگی۔میں یہ بات بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سنگھ پرمکھ ایک طرف تو ملک میں امن و شانتی کی بات کرتے ہیں،دھرم سنسد کے بیانات سے عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہیں،مگر دوسری طرف ایسے لوگوں کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں جو مسلمانوں کی بہو بیٹیوں کا نقاب نوچ رہے ہیں۔ بعض ایسے یوروپین ممالک میں بھی حجاب کو مسئلہ بنایا گیا ہے۔جہاں پبلک مقامات پر کھلے عام سیکس کیا جاسکتا ہے۔یہی وہ ممالک ہیں جو انسان کی مکمل آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں۔آخر یہ کیسی آزادی ہے جہاں ایک شخص کو ننگے رہنے کی آزادی تو ہو مگر دوسرے شخص کو کپڑے پہننے کی آزادی نہ ہو۔لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ہماری بہنوں کی جدو جہد رنگ لارہی ہے۔فٹبال اور باسکٹ بال کے عالمی مقابلوں میں اب حجاب کو منظوری حاصل ہے۔باحجاب پائلٹ جہاز اڑا رہی ہیں۔برطانیہ میں باحجاب خاتون عدالت عظمیٰ کی جج ہے۔آزاد خیال ملک سنگا پورکی صدر حلیمہ یعقوب ایک باحجاب خاتون ہیں۔مجھے اپنی ان تمام بہنوں پر ناز ہے جنھوں نے حجاب کے لیے جدو جہد کی اور شیطان کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ایک عرض اپنی قوم کے لوگوں سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔یہ مسائل دراصل ہمارے اختلاف،ہماری بے عملی اور اسلام کی تعلیمات اہل ملک تک نہ پہنچانے کا نتیجہ ہیں۔ہمارے یہاں فقہی مسالک کے اختلاف نے عدالتوں کو پرسنل لاء میں دخل اندازی کا حق دے دیا۔اب عدالت یہ جاننا چاہتی ہے کہ حجاب کا حکم قرآن مجید میں کہاں ہے۔پھر دنیا یہ بھی دیکھتی ہے کہ ہزاروں مسلمان خواتین حجاب نہیں پہنتیں،ان کی بے پردگی کو بھی اسلام سمجھاجاتا ہے۔اس سلسلے میں مجھے سکھ بھائیوں پر فخر ہے،انھوں نے اپنے عقیدے کے مطابق جن اعمال کو ضروری سمجھا ہے ان اعمال پرساری سکھ قوم عمل کرتی ہے۔ان کے یہاں پگڑی لازمی ہے تو کوئی ننگے سر نظر نہیں آئے گا۔اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ تمام سرکاری محکموں میں انھیں داڑھی رکھنے اور پگڑی پہننے کی اجازت ہے۔یہاں تک کہ فوج میں بھی وہ داڑھی اور پگڑی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ انسانوں کی بھیڑمیں ایک سکھ دور سے دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔اس پہلو پر توجہ کی ضرورت ہے۔ملک جس راہ پر چل رہا ہے،اس راہ پر مسلمانوں کے لیے ایسے مسائل ہر دن آئیں گے۔اس لیے ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔اسلامی احکامات پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔ضرورت ہے کہ اپنے احتجاجات قانون کے دائرے میں ہوں۔عدالتوں میں صحیح سے پیروی ہو۔میڈیا کے ذریعے صحیح صورت حال دنیا کے سامنے لائی جائے۔۔حجاب کے اس ایشو سے انشاء اللہ ہماری بہن بیٹیاں حجاب کی طرف راغب ہوں گی۔اسلام کے نظام حجاب پر بحثیں ہوں گی۔اس طرح اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہوگی۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں