بیت المقدس اور اہل فلسطین پر بربریت اور ہندوستان کے غیر مسلموں کا اسرائیل کے ساتھ اتحاد
✍️ ابو محمد بشّار
گزشتہ دنوں اسرائیل کی افواج نے بیت المقدس میں نماز تراویح پڑھنے والے معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو اپنے ظلم کا شکار بنایا۔ مسجد اقصی کی دیواروں اور فرش کو مسلمانان فلسطین کے خون سے لالہ زار کردیا، کئی معصوم بچوں، خواتین اور بزرگوں کو گولیوں سے بھون دیا، اور کئی بے قصور فلسطینی مسلمانوں کو گرفتاربھی کرلیا، ان ظالموں کے ظلم اور بربریت کو دیکھ کر فلک بھی اشک بار ہوگیا، اسرائیلی افواج نے ایسا کوئی پہلی بار نہیں کیا ہے، بلکہ ماضی میں بھی ایسا ظلم کئی بار ڈھاچکی ہیں، لیکن افسوس یہ سب دیکھ کر بھی مسلم ممالک کے حکمرانوں کی غیرت بیدار نہیں ہوئی، ان مظلوم فلسطینیوں کی آہ و بکا نہیں سنائی دی۔ البتہ ترکی صدر رجب طیب اردغان نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اہل فلسطین کو تسلی دی اور اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کی کوشش اور مطالبہ ضرور کیا۔
یہ سب دیکھ ہر مسلمان کا مشتعل ہونا، اسرائیل کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرنا، اس کی بربریت کو دنیا کے سامنے دوبارہ لانے کی کوشش کرنا فطری چیز ہے، چونکہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول، سید المرسلین ﷺ کا امام الأنبياء والمرسلين بننے کی جگہ اور سفر معراج کا مقام ہے، لہذا اس پر آنچ آئے یہ ایک ادنیٰ مومن بھی گوارا نہیں کر سکتا۔
چنانچہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس بربریت کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا اور ٹیوٹر پر اسرائیل کے بائیکاٹ وغیرہ کا ٹرینڈ بھی چلایا، یہ مسلمانوں کا حق تھا جو انہوں نے کیا، “لیکن وہیں پر ہندوستان کے ایک اچھے خاصے غیر مسلم طبقے نے اسرائیل کی حمایت، طرفداری اور فلسطینیوں کے خلاف ٹرینڈ چلایا، جس میں بیت المقدس کے حملے کو درست اور خوش آئند بتایا گیا۔” اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت ہند اور اسی کی ذہنت رکھنے والے لوگ اسرائیل کے ناجائز قیام و قبضہ کو جائز سمجھتے ہیں، یہ ان کی ایک رائے ہے، لیکن فلسطینی مسلمانوں پر کئے گئے ظلم کو درست اور جائز قرار دینا انتہائی خطرناک بات ہے اور مسلم دشمنی کا کھلا ثبوت ہے۔یہ اس برادران وطن بھگوا دہشت گردوںکا مسلمانوں کے ساتھ رویہ ہے، جہاں مسلمانوں نے لاک ڈاؤن میں بلا تفریق سڑکوں پر کھڑے ہو کر پیدل و سوار اپنے گھر جانے والے مسافروں کی مدد کی، جس کا اعتراف خود ہندوؤں کو بھی ہے، جہاں کورونا میں مرنے والے غیر مسلموں کا ”انتم سنسکار” آخری رسوم بھی مسلمان کرتے ہیں، (واضح رہے کہ یہ شرعاً ناجائز ہے) جہاں شریعت کو بالائے طاق رکھ کر مساجد کو کووڈ سینٹر بنایا اور غیروں کی مدد کی اور سعودیہ اور ترکی جیسے مسلم ممالک نے اس کی مدد کی، ان سب کے باوجود غیر مسلموں کا یہ رویہ اختیار کرنا مسلمانوں کے لئے فکر کا باعث ہے۔لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اب گنگا جمنی تہذیب کی رٹ لگانا، یکجہتی کی نعرے بازی اور بھائی چارگی جیسے بزدلانہ رویے سے نکل کر غیروں کے مقابلے میں مسلمانوں کو مضبوط کریں۔ مساجد و مکاتب اور علماء کرام کی امداد کریں، مسلم تنظیموں کے ہاتھ مضبوط کریں، کیونکہ اگر یہ محفوظ اور مضبوط رہیں گے تو ہمارا وجود اور ایمان دونوں باقی رہے گا اور اگر ان کے ساتھ اجنبیت کا سلوک کیا گیاتو خطرے کی گھنٹی بس بجنا چاہتی ہے، غیروں کی بہت مدد کر لی، بہت کووڈسینٹر بنا دیے، بس اب بہت ہو گیا، لہذا اب اپنی حلال کی کمائی غیروں پر برباد کرنے کی بجائے ضرورت مند مسلمانوں کے پیچھے خرچ کیجئے، ویسے بھی تکریم و تعظیم اور امداد میں مسلم مقدم ہے، مسلمانوں پر خرچ کرنے پر دوگنا اجر ملے گا، ساتھ ساتھ مسلمان کے وجود اور ایمان کے بچانے کا ثواب علیحدہ رہے گا، حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا “المؤمن القوي، خيرٌ وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف (رواہ مسلم) طاقتور مومن، کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔، لہذا ہر مؤمن و مسلم کو مضبوط کیجئے اور اللہ کا محبوب خود بھی بنئے اور اپنے معذور و کمزور مسلمان بھائیوں کو بھی بنائیے۔
نیا سویرا لائیو کی تمام خبریں WhatsApp پر پڑھنے کے لئے نیا سویرا لائیو گروپ میں شامل ہوں