X

بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت ۔۔۔۔۔۔

سدھارت شنکر رے سے لےکر راجیو دھون تک

عبدالعزیز

بابری مسجد اجودھیا جیسے ایک چھوٹے سے شہر میں بابر کی بادشاہت کے زمانے میں ان کے ایک کمانڈر میر باقی کے ذریعے تعمیر کی گئی تھی۔ 1525ءسے لے کر 1850ءتک ہندستان میں نہ کسی کا عقیدہ تھا اور نہ دعویٰ۔ بابری مسجد /رام جنم بھومی ہے یا مندر توڑ کر بنائی گئی ہے۔ اس تین صدیوں تک کسی نے بھی آواز تک نہ اٹھائی۔ اکبر جیسے لچکدار حکمراں

ایڈوکیٹ راجیو دھون

بھی آئے۔ ہندوؤں میں کئی نامور افراد بھی ہوئے ۔ شیواجی، سورج مل، مرہٹہ کے کئی راجہ ان میں سے کسی نے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ مطالبہ کیا نہ کوشش۔ بالمیکی جس نے اجودھیا میں بیٹھ کر رزمیہ نظم یا کہانی ”رامائن“ لکھی۔ انھوں نے بھی اپنی اس کتاب یا کہانی میں کہیں بھی اس کا ذکر نہیں کیا ہے کہ رام اجودھیا میں پیدا ہوئے اور اجودھیا میں رام کے نام کا کوئی مندر تھا۔ رام مندر کا شوشہ انگریزوں کا پیدا کیا ہوا ہے۔ ہندستان چھوڑنے سے چند سال پہلے انگریز حکمراں نے گزٹ میں ہندوو¿ں اور مسلمانوں کو لڑانے کیلئے لکھ دیاکہ اجودھیا کے لوگ کہتے ہیں کہ بابری مسجد رام مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی اور مسجد کے تین گنبدوں کے بیچ والے گنبد میں رام پیدا ہوئے تھے اور کچھ سیاحوں نے بھی اسی طرح کی سنی سنائی باتوں کو اپنے سیاحت نامہ میں لکھ دیا۔ ہندوو¿ں کی مذہبی کتابوں پُران، گیتا، رامائن اور وید یا مہابھارت میں سے کسی بھی کتاب میں رام مندر کا ذکر نہیں ہے۔ بالمیکی کی کتاب ’رامائن‘ آنے کے بعد ہندستان کے کئی حصوں میں رام مندر بننا شروع ہوا۔ اس سے پہلے رام مندر نام کا کوئی مندر بھی نہیں تھا۔ بابری مسجد سے متصل نرموہی اکھاڑہ کے پروہت نے ایک رام چبوترہ پوجا پاٹ کیلئے بنایا تھا۔ 1934ءمیں اس چبوترے پر چھت ڈالنے کی اجازت لینے کی غرض سے عدالت میں درخواست دی تھی جسے ایک برہمن جج نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اگر یہاں کیرتن کی سبھا ہوگی تو مسجد میں جو پانچ وقت کی نماز ہوتی ہے اس میں خلل واقع ہوگا، اس لئے چھت بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ نرموہی اکھاڑہ والوں نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ بابری مسجد رام مندر کی جگہ پر قائم ہے۔ برہمن جج نے اپنے حکم نامہ میں یہ بھی لکھا تھا کہ رام چبوترہ کی ملکیت بھی بابری مسجد کی ملکیت ہے۔ نرموہی اکھاڑہ کو یا اس کے پجاری کو پوجا پاٹ کرنے کا ہی حق ہے۔
دسمبر 1949ءکی 22 اور 23تاریخ کے درمیان اندھیری رات میں کچھ شرپسندوں نے مسجد میں گھس کر چبوترے کی مورتی کو مسجد کے منبر پر رکھ دی۔ اجودھیا کے شرپسند عناصر اس وقت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نارائن سے مل کر مسجد کے صدر دروازے پر تالا لگادیا۔ اس وقت مسجد کے اندر مسلمانوں کا جانا ممنوع قرار دیا گیا۔ 1984ءسے آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں بشمول بی جے پی نے نعرہ لگایا کہ ”مسجد کی جگہ ہی رام مندر بنے گا“۔ بی جے پی نے ایل کے ایڈوانی کی سربراہی میں رتھ یاترا نکالی اور الیکشن میں فائدہ اٹھانا شروع کیا۔ مندر کی سیاست آج تک جاری ہے۔ یکم فروری 1986ءمیں ایک ایسے شخص کی عرضی پر جس کا اس زمین پر قبضے سے کوئی سروکار نہیں تھا فیض آباد کے ڈسٹرکٹ جج پانڈے نے مسجد کے دروازے پر لگے تالا کھولنے کا حکم صادر کردیا۔ پوجا اور درشن کی کھلی چھوٹ دے دی۔ مسلمانوں کی بات تک سننے سے انکار کردیا۔ فرقہ پرستوں کے حوصلے بڑھتے گئے ۔ 6دسمبر 1992ءمیں شیو سینا، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس کے ڈیڑھ لاکھ کار سیوکوں نے تاریخی بابری مسجد کو دن کی روشنی میں منہدم کردیا۔ صرف پانچ گھنٹوں میں 465 سالہ مسجد کو زمیں بوس کردیا۔ 1992ءسے لے کر آج تک مسجد کو منہدم کرنے والے مجرموں کو اور شرپسندوں کو سزا نہیں دی جاسکی۔ اس کے برعکس مسجد کی ملکیت کے مقدمہ کی سماعت گزشتہ بدھ (16اکتوبر2019ئ) کو سپریم کورٹ میں مکمل ہوئی۔ اس کا فیصلہ /15 16نومبر تک آنے کی امید ہے۔
اہم باتیں: بابری مسجد کے مقدمے اور اس کی جدوجہد اور بازیابی کے سلسلے میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کا جس قدر شکر ادا کرے کم ہوگا۔ مسلمانوں کے سواد اعظم اور خاص طور سے غریب اور کمزور مسلمانوں نے مصائب اور مشکلات اور پے درپے فسادات کی تکلیفوں کو جھیلنے کے باوجود مسجد کے حق سے دستبرداری کا اعلان نہیں کیا بلکہ مسجد کی بازیابی کیلئے عزم بالجزم کا مظاہرہ کرتے رہے اور 70سال تک مسلسل کرتے رہے۔ چند ضمیر فروشوں اور ایمان فروشوں کو چھوڑ کر جو ہر زمانے میں دنیوی مفاد کیلئے حکومت وقت کے وفادار یا حاشیہ بردار ہوتے ہیں، ان کے سوا کسی نے بھی بابری مسجد کے حق سے دستبرداری کا اظہار نہیں کیا۔ مسلمانوں کا سواد اعظم قابل مبارکباد ہے کہ جس نے کسی قسم کے دباو¿ یا لالچ کو قبول نہیں کیا۔ اور نہ ڈرا اور نہ خوف زدہ ہوا۔ 70سال تک مسلسل ہر طرح کی جدوجہد میں سرگرم عمل رہا۔
دوسری چیز جو قابل ذکر ہے سدھارت شنکر رے سے لے کر راجیو دھون تک نے جو ملک کی چوٹی کے بیرسٹر اور ممتاز ترین وکلاءہیں دل و جان سے بابری مسجد کیلئے مقدمہ لڑے اور اپنی فیس یا اجرت کے طور پر مسلمانوں کی کسی کمیٹی یا بورڈ سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ راجیو دھون صاحب کو دھمکیاں بھی دی گئیں پھر بھی وہ آخری وقت تک ڈٹے رہے۔ ان کے ساتھ 9 جونیئر وکلاءشام سے لے کر رات تک مقدمے کی تیاری کرتے اور دوسرے روز صبح دس گیارہ بجے سے لے کر پانچ بجے شام تک سپریم کورٹ کے ججوں اور مخالف وکلاءسے بحث و مباحثہ کرتے تھے۔
سدھارت شنکر رے جو ہندستان کے بڑے وکلاءمیں سے تھے ، مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ رہ چکے تھے اور پنجاب کے گورنر انھوں نے بابری مسجد کا مقدمہ 18 سال یعنی 1990ءسے لے کر 2008ءتک ایک پیسہ لئے بغیر لڑتے رہے۔ کلکتہ سے لکھنؤ جاتے اور وہاں کے ہوٹلوں میں ٹھہرتے مگر ہوٹل کا چارج بھی خود ہی دینے کی کوشش کرتے۔ آنے جانے کا خرچ لینا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ ظفریاب جیلانی صاحب کا کہنا ہے کہ انھوں نے سدھارت شنکر رے کو ’کلارس اودھ‘ ہوٹل میں ٹھہرایا تھا۔ سدھارت بابو نے ان سے کہا کہ ان کو کم درجے کے ہوٹل میں ٹھہرایا جائے۔ چنانچہ ان کے اصرار پر حسین گنج کے ’میرا مان‘ ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ سدھارت بابو کو کباب بہت پسند تھا، ہم لوگ ان کیلئے کباب لاتے تھے وہ بہت شوق سے کھاتے تھے۔ بس یہی ان کی فیس تھی۔ کلکتہ کے ایک وکیل عطاءالنبی ہاشمی صاحب جن کو سدھارت شنکر رے کے ساتھ دہلی اور لکھنو¿ مقدمے کے سلسلے میں جانے کا اتفاق ہوا، انھوں نے راقم کو ایک موقع پر بتایا کہ ایک مرتبہ ان کی ٹیم نے سدھارت بابو کو پیسہ دینا چاہا، انھوں نے ”ہم لوگوں سے سوال کیا کہ کیا تم لوگ بابری مسجد کے مقدمے میں پیسے لیتے ہو؟ جب تم لوگ نہیں لیتے تو ہمیں کیسے دینے کی جرا¿ت کر رہے ہو“۔
سدھارت شنکر رے کی موت سے تین چار سال پہلے راقم سے کافی قربت ہوگئی تھی۔ قربت کی وجہ تسلیمہ نسرین کی کلکتہ میں موجودگی تھی ۔ ہم لوگ تسلیم نسرین کے خلاف جدوجہد کررہے تھے۔سدھارتھ شنکر رے بھی ہم لوگوں کے ساتھ آگئے۔

ایڈوکیٹ سدھارتھ شنکر رے

             کئی بار ان کی رہائش گاہ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا تو وہ فیصلے سے بہت مایوس ہوئے۔ ہم لوگوں کی موجودگی میں انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ نہیں پنچایت ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ فیصلہ رد کردیا جائے گا۔ وہ بتاتے تھے کہ بابری مسجد کے سلسلے میں انگریزوں کے زمانے میں جو سابقہ فیصلے ہوئے وہ زیادہ تر فارسی زبان میں ہے وہ سارے فیصلہ نامے انگریزی میں ترجمہ کرائے جاچکے ہیں۔ ہم لوگوں کے پاس شواہد، دلائل اور دستاویزات ہیں جو ملکیت کے ثبوت کیلئے کافی ہیں۔ لیکن مخالف پارٹیوں کے پاس آستھا (عقیدہ) کے سوا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہم لوگ جو بھی سمپوزیم یا سمینار منعقد کرتے موصوف اس میں شرکت ضرور کرتے تھے۔ انھوں نے تسلیمہ نسرین پر ایک مضمون لکھا تھا جسے انگریزی روزنامہ ’اسٹیٹس مین‘ نے شائع کیا تھا۔ راقم نے ان کے مضمون کا اردو ترجمہ کیا تھا جو کلکتہ کے اردو روزنامہ ’آزاد ہند‘ میں شائع ہوا تھا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ایک غیر شہری کو ملک کے معاملات میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں ہے اور تسلیمہ نسرین جو ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے جذبات و احساسات پر حملے کرتی رہتی ہے اسے بھی ہمارے ملک میں رہنے کا حق نہیں ہے۔
سدھارت شنکر رے ایک جلسہ سیرت النبی میں میری گزارش پر تشریف لائے تھے۔ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے والہانہ لگاو¿ کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ ایسے مثالی کردار کی شخصیت دنیا میں پیدا نہیں ہوئی۔ اگر ان کے اصولوں کو دنیا مان لے تو دنیا میں امن و امان ہوسکتا ہے۔ موصوف سے میری آخری ملاقات تھی۔ جب وہ جلسہ سے جانے لگے تو اخباری نامہ نگاروں نے ان سے سوال کیاکہ آپ ایسے جلسے میں آئے ہیں۔ تو جواب میں کہاکہ میں حضرت محمد کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کرنے آیا ہوں۔ یہ جلسہ 12 ربیع الاول کو ہوا تھا۔ اس جلسہ میں بنگلور کے مشہور سرجن ڈاکٹر طٰہٰ متین بھی تشریف لائے تھے۔ ان کی تقریر سے بھی سابق وزیر اعلیٰ مغربی بنگال سدھارت شنکر رے بیحد متاثر ہوئے تھے اور ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”طٰہٰ صاحب آپ بارک اوبامہ کی طرح بول رہے تھے“۔ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو یقینا سپریم کورٹ میں بھی راجیو دھون کا ساتھ دیتے۔ اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی یاد باقی رہے گی اور مسلمان ایسی عظیم شخصیت کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ راجیو دھون نے ایک طرح سے سدھارت شنکر رے کی یادوں کو تازہ کیا۔ ان کی خدمات بھی نہایت قابل ستائش اور قابل تحسین ہے۔ ہندستانی مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان ایسے خدمت گار، انسانیت دوست اور حق پسند وکلاءکے شکر گزار رہیں گے۔ تاریخ میں ایسے لوگوں کے نام ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ دنیا چاہ کے بھی ان کو بھلا نہیں سکتی۔ سدھارت شنکر اور راجیو دھون کا دیگر غیر مسلم وکلاءنے بھی ساتھ دیا۔ مثلاً شیکھر اور کپل سِبل جیسے وکلاءاور بہت سے وکلاءہیں جن کا نام یاد نہیں ہے یہ بھی ناقابل فراموش ہیں۔

E-mail:

azizabdul03@gmail.com

Naya Savera: